ویسے تو ہری پور ہزارہ شہر میں زاہد حسین کاظمی نے مجھے یوں مہمان کیا بلکہ گھر کا فرد بنایا تاکہ میں اپنی خودنوشت کے پہلے اور دوسرے حصے پر مبنی 702 صفحات پر مشتمل ” پریشاں سا پریشاں ” ( ویسے بیشتر لوگوں پر واضح کرنا پڑ رہا ہے کہ پریشاں کا مطلب پریشان ہونا نہیں بلکہ بکھرا ہوا ہونا ہے ) کے عنوان سے کتاب کی تقریب رونمائی میں شریک رہوں۔ یہ کتاب خود زاہد کاظمی نے سنگی کتاب گھر ہری پور سے شائع کی ہے۔ چھاپے خانے اور جلد ساز کی جانب سے تاخیر کے سبب کتاب بروقت نہ مل پائی یوں تقریب کا ہونا موخر ہو گیا۔ خیر کتابیں شائع ہوا کرتی ہیں۔ دلچسپ ہوں تو رونمائی درکار نہیں ہوتی۔
اس کام سے کہیں فائق زاہد کاظمی کے دو اور کام ہیں ایک شوق دوسرا مشن۔ شوق انہیں کتابیں جمع کرنے، کتابیں دان کرنے، کتابیں پڑھنے کی خاطر دینے، کتب بینی کی جانب لوگوں کو مائل کرنے، مصنفین سے ملنے، ان سے باقاعدہ روابط برقرار رکھنے کا ہے۔ ان کے کتابوں کے مجموعے کی تعداد لگ بھگ 35000 ہے اور یہ انہوں نے دس برس میں جمع کی ہیں۔
انہیں خودنوشت یعنی آپ بیتیاں جمع کرنے کی لگن ہے۔ ان کے پاس ایسی کتب کا پاکستان میں سب سے بڑا مجموعہ ہے جن کی تعداد ایک ہزارسے تجاوز کرتی ہوئی ہے۔ وہ بہت سے لوگوں کو آپ بیتی لکھنے کو نہ صرف کہتے ہیں بلکہ شائع کرنے کا وعدہ بھی کرتے ہیں۔ ان کے اس مجموعے سے استفادہ کرکے درجنوں لوگوں نے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے ہیں۔
اس شوق سے بڑھ کر ان کا مشن ہے کہ معاشی طور پر انتہائی پسماندہ لوگوں کے بچوں کو تعلیم دی جائے۔ ایسے افراد جن کی آمدنی دس سے پندرہ ہزار سے زیادہ نہیں وہ بچے پیدا تو کر سکتے ہیں مگر انہیں تعلیم نہیں دلا سکتے۔ تعلیم کے لیے سکول کی فیس، یونیفارم، جوتے، جرسی، ٹوپی، بستہ، کتابیں، کاپیاں اور دیگر متفرق لوازمات درکار ہوتے ہیں۔ مذکورانتہائی کم آمدنی والے پیٹ بمشکل بھر سکتے ہیں وہ یہ سب کیسے خریدیں۔
ہری پور سے خان پور کی جانب سڑک پر 8 کلو میٹر کے بعد ایک ذیلی سڑک بائیں کو مڑتی ہے۔ 5 کلومیٹر کی دوری پر کاظمی کا بریلہ نام کا آبائی گاوں ہے۔ یونین کونسل بھی اسی نام کی ہے۔ چھوٹی چھوٹی مگر ہری بھری پہاڑوں پر یا ان کے دامن میں چھوٹے چھوٹے گاوں بکھرے پڑے ہیں جن کی مجموعی آبادی پندرہ ہزار نفوس سے زیادہ ہے۔ ان گاووں میں نزدیکی صنعتی علاقے کے کم آمدنی پانے والے مزدور اور اہلکار بھی بستے ہیں۔
زاہد کاظمی نے ان کم وسیلہ لوگوں کے بچوں کو تعلیم دلوانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ پہلے لوگوں کو قائل کیا کہ بچوں کو پڑھائیں جن کے ہر طرح کے تعلیمی اخراجات کی ذمہ داری اٹھائی جائے گی۔ اس طرح انہوں نے شروع میں پچاس بچے جمع کیے اور اپنے وسائل سے قطبہ نام کی ایک بستی میں ایک سکول کا کمرہ کرائے پر لے کر پریپ پڑھانا شروع کیا۔ پھر احباب نے مدد کی اور اب اسی سکول میں تین کمرے اور ایک دفتر اجارہ کیا ہوا ہے۔ اس سکول میں ان کے مشن کے تحت پڑھائے جانے والے بچوں کی تعداد 60 ہے مگر علاقے میں ایسے زیر کفالت بچے 120 ہیں۔ اس وقت بچے تیسری جماعت تک پڑھ رہے ہیں۔ دور کے گاوں کے بچوں کو وہیں کے سکول میں داخل کرا کے ان کے لیے تمام لوازمات فراہم کیے جاتے ہیں۔ ایسے بچوں اور ان کے والدین کی عزت نفس برقرار رکھنے کو زاہد کاظمی نے ان بچوں کی ماہانہ فیس علامتی طور پر ایک روپیہ رکھی ہوئی ہے تاکہ انہیں احساس رہے کہ وہ اپنے بچے کی تعلیم پرکچھ تو خرچ کر رہے ہیں۔
ان بچوں میں سے ستر بچوں کی جن کی تعداد کل بڑھ کر اسی ہو گئی، سرپرستی مخیربلکہ ایسے افراد کرتے ہیں جو جہل کے اندھیرے کو کم کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ وسائل مہیا کر سکتے ہیں مگر اپنی گوناگوں مصروفیات کے سبب وقت نہیں دے سکتے۔ گذشتہ برس تک ایک بچے کے اخراجات 30000 روپے سالانہ تھے جو مہنگائی کے سبب اس برس 35000 روپے سالانہ مقرر کیے گئے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ جلد ہی باقی اور مستقبل میں داخل ہونے والے مزید بچوں کی تعلیم کے اخراجات کی ذمہ داری بھی درد دل رکھنے والے ایسے لوگ لے لیں گے تاکہ زاہد کاظمی اس مشن کو مزید جوش و جذبہ کے ساتھ آگے بڑھائیں۔
کل 4 مئی 2019 کو اس سکول کی سالانہ تقریب تھی جس کا انعقاد بوجوہ بہت تاخیر کے بعد ممکن ہو سکا ویسے یہ تقریب مارچ کے اواخر یا اپریل کے اوائل میں منعقد کی جاتی ہے۔ میں جب ہری پور سے اس تقریب میں پہنچا تو مجھے وسعت اللہ خان کو دوسرے افراد کے ساتھ سٹیج پر بیٹھے دیکھ کر حیرت ہوئی۔ درحقیقت انہیں معروف صحافی سبوح سید اپنے ہمراہ لے آئے تھے جو زاہد کاظمی کے دوست ہیں اور جنہوں نے زاہد کاظمی سے فون پر کہا تھا کہ وہ انہیں ” سرپرائز ” دیں گے۔
سٹیج پر وسعت اللہ خان اور سبوخ سیدکے علاوہ، ریڈیو پروڈیوسر اکمل شہزاد گھمن، سویڈن میں مقیم سابق صحافی خواجہ طارق عسکری، مقامی بیت المال کے سیکرٹری نیرعباس، ڈسٹرکٹ کونسل ہری پور کی رکن ساجدہ حسرت اور ناچیز موجود تھے۔ ابھی دو تین حضرات نے خطاب کیا تھا کہ وسعت اللہ خان نے کہا مجھے بولنے دو اور پھر انہوں نے کہا کہ اگر میں ان بچوں کی عمر کا ہوتا اور ان میں بیٹھا ہوتا تو میں بہت بور ہوتا۔ بہتر یہ ہے کہ بچوں سے کچھ سنا جائے اور پھر وہ مائیک پکڑے میدان میں کود پڑے۔ بچوں کو نہ صرف سنانے پر مائل کیا بلکہ ان کے خصائص پر تبصرہ بھی کرتے رہے۔ سبوح اپنے موبائل پر اس عمل کو فلماتے رہے۔ بچوں کے چہرے سٹیج کی جانب تھے۔ جب میں نے کہا کہ بچے سٹیج پر لائے جائیں تاکہ ان کی والدائیں بھی سنیں تو وسعت بولے والدائیں تو روز دیکھتی ہیں آج ہمیں ان بچوں کو پرفارم کرتے دیکھنا ہے۔ وسعت اللہ خان صاحب نے سفر کی انتہائی تکان کے باوجود اچھا پرفارم کیا۔ امید کی جاتی ہے کہ وہ بچوں کی پرفارمنس ” ذرا ہٹ کے ” نام کے اپنے ٹی وی ٹاک شو میں ضرور دکھائیں گے۔
زاہد کاظمی صاحب کا فون نمبر 03005091908 ہے۔ اس مشن میں حصہ ڈالنے کے خواہاں تعلیم دوست احباب ان سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ باوسیلہ افراد کے لیے 3000 روپے ماہانہ نکالنا کوئی بڑی بات نہیں مگر ایک بچے کو تعلیم کا زیور پہننے کو مل جائے گا، جزاک اللہ۔