مسند ارشاد انہیں میراث میں نہیں ایک اتفاق میں آئی ہے۔ صاحب کہ دیدہ ور تھے ، اس کا حق ادا کر دیا ۔ روزمنادی دیتے ہیں : ہے کوئی ہم سا ؟ روز صدا آتی ہے صاحب آپ سا کوئی کہاں ؟ نرگس ہزاروں سال بیٹھ کر روئے تب کہیں کوئی آپ سا پیدا ہو ۔ آپ سا مفکر ، آپ سا مدبر ، آپ سا محقق ، آپ سا فقیہ ، آپ سا خطیب ، آپ سا شعلہ بیاں ، آپ سا سائنسدان ۔ اب تو دل میں ہوک سی اٹھتی ہے تیس مار خان تو بہت ہیں کاش عمران کی ٹیم میں کوئی معاملہ فہم بھی ہوتا ، کوئی دھیمے مزاج کا ، کوئی تحمل والا ۔ میڈ یا پر داد شجاعت دینے اور سوشل میڈیا پر کشتوں کے پشتے لگانے کی بجائے جو سماج کا نباض ہوتا ، کچھ مرہم لگاتا ، تھوڑی ڈھارس بندھاتا ، کوئی حرف تسلی ہی کہ دیتا ، لہجے کے آتش فشاں جس کے قابو میں ہوتے ۔
یہاں تو سبھی جنگجو ہیں ۔ جسے دیکھو رستم ، جسے ملو سکندر اعظم ۔ اوسط سے قدرے پست درجے کے لوگ چنگیز خان کی ہیبت اوڑھ کر افلاطون کے لہجے میں بات کرتے ہیں تو خوف آتا ہے ۔ وزیران کرام کی پیشہ ورانہ مہارت کا یہ عالم ہے کہ دینا کے ہر موضوع پر طویل خطبے ارشاد فرماتے ہیں لیکن اپنے متعلقہ شعبے پر ایک لفظ نہیں بول سکتے۔ غالب یاد آتا ہے : ’’ نہ انشا معنیِ مضموں ، نہ املا صورتِ موزوں‘‘۔ معلوم نہیں یہ افتاد طبع کے مسائل ہیں یا معاملہ یہ ہے کہ وزارتیں برائے وزن بیت محض لاد دی گئی ہیں ۔
سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وزیر با تد بیر کا ارشادِ تازہ ہے مسجد کے امام کو گریڈ 14 سے گریڈ 16تک کی نوکری کی تجویز دی ہے۔ بہت اچھی بات ہے ۔ آپ بے شک انہیں گریڈ بیس کی نوکری دیجیے لیکن صرف یہ بات سمجھا دیجیے کہ مساجد اور ان کے اماموں سے متعلقہ امور سے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی وزارت کا کیا تعلق ؟ یہ بات وزارت مذہبی امور کی طرف سے آتی یا وزیر تعلیم کے منہ سے ادا ہوتی تو قابل فہم ہی نہیں قابل تحسین بھی ہوتی لیکن سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وزیر کا امام مسجد کی ملازمت سے کیا تعلق ؟ اپنی متعلقہ وزارت میں ان کی دل چسپی کا یہ عالم ہے کہ اعلی سطحی اجلاس میں موبائل میں مصروف ہوتے ہیں ۔ جو کام کرنے کا ہے وہاں ان کا ذوق اور استعداد مانع ہے اور جو کام ان کے کرنے کا نہیں ہے ان کی افتاد طبع وہاں کھچے چلی جا رہی ہے۔
علی محمد خان کا ایک ارشاد گرامی بھی پڑھ لیجیے۔ فرمایا : بلوچستان سے کوئی ٹریڈ افسر بیرون ملک تعینات نہیں ہے۔ علی محمد خان کے پاس پارلیمانی امور کی وزارت ہے جہاں تگڑے سیکرٹری نے انہیں نکرے لگا کر صرف اس بات کی آزادی دے رکھی ہے کہ وہ جی کے بہلانے کو خود کو وزیر سمجھ سکتے ہیں ۔ بیرون ملک کوئی ٹریڈ افسر بلوچستان سے ہے یا نہیں سوال یہ ہے کہ اس معاملے کا وزیر پارلیمانی امور سے کیا تعلق ؟ کیا علی محمد خان ہماری رہنمائی فرما سکتے ہیں ؟
ایک ارشاد گرامی قبلہ شاہ محمود قریشی کا ہے ۔ فرماتے ہیں : ویسٹ مینجمنٹ کمپنی میں کرپشن کی تحقیقات کرائیں گے۔ معلوم نہیں ویسٹ مینجمنٹ کا تعلق امور خارجہ سے ہے یا کرپشن کے خلاف تحقیقات کی ذمہ داری چیئر مین نیب سے لے کر وزیر خارجہ کو دے گئی ہے اور آئندہ ملزمان کے خلاف ریفرنسز دفتر خارجہ میں تیار ہوا کریں گے ۔ خطے میں تنائو بڑھ رہا ۔ ایران اور امریکہ میں تلخی نکتہ عروج پر ہے ۔ معاملات مزید خراب ہوئے تو ایران آبنائے ہر مز کے راستے دنیا کو جانے والے تیل کو روک سکتا ہے ۔
یہ ایک تنگ پٹی ہے اور ایران کے تیسرے درجے کے میزائلوں کی زد میں ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پاکستان کے لیے کیا مسائل پیدا ہو سکتے ہیں ۔ گوادر میں حملہ ہوتا ہے ۔ یہ گویا ایک پیغام ہے کہ سی پیک پر کام کو آگے نہ بڑھایا جائے۔ بجائے اس کے وزیر خارجہ ان معاملات پر رہنمائی فرماتے ، وہ یہ نوید انقلاب دے رہے ہیں کہ ویسٹ مینجمنٹ کمپنی میں کرپشن کی تحقیقات کرئیں گے۔ اب اگر چیئر مین نیب امور خارجہ میں بہتری لانے کے لیے ایک اجلاس طلب کر لیں تو وزیر خارجہ کیسا محسوس کریں گے؟
انگلینڈ کے ساتھ کرکٹ کا میچ تھا ۔ بال ٹمپرنگ کی بات کی گئی ۔ شیریں مزاری میدان میں آ گئیں ۔ فرمایا کیا انگلینڈ ہمیں ہرانے کے لیے بال ٹمپرنگ کرے گا ؟ محترمہ کھیلوں کی وزیر ہیں نہ پی سی بی کی کوئی عہدیدار ۔ آپ کے پاس انسانی حقوق کی وزارت کا قلمدان ہے۔ لاہور میں تین بیٹیوں کا باپ داتا دربار حادثے میں شہید ہوا تو معلوم ہوا اسے پانچ ماہ سے تنخواہ نہیں ملی تھی اور انسانی حقوق کی وزیر کو کرکٹ اور بال ٹمپرنگ کی پڑی ہوئی ہے۔ اب کھیلوں کے وزیر اور چیئرمین پی سی بی کو مل کر ملک میں انسانی حقوق کی پامالی پر ایک سیمینار منعقد کرنا چاہیے۔
سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وزیر با تدبیر کا ایک اور ارشاد گرامی ہے کہ ففتھ جنریشن وار کے لیے وزارت اطلاعات کو بہتر کام کرنا ہو گا۔ اب فردوس عاشق اعوان چاہیں تو فواد چودھری کی جن سائنسی خدمات پر سوشل میڈیا پر دھوم مچی ہے ان کے اعتراف میں ایک اجلاس بلا کر مطالبہ کریں کہ وزارت سائنس ایند ٹیکنالوجی کو فواد چودھری جیسے مزید جلیل القدر سائنس دانوں کی ضرورت ہے تا کہ ملک ترقی کرے ۔
بھارت ہمارے حصے کا پانی روک چکا ۔ افغانستان کے ساتھ چونکہ ہمارا پانی کی تقسیم کا سرے سے کوئی معاہدہ ہی موجود نہیں تو اس سے فائدہ اٹھا کر وہ افغانستان کو دریائے کابل پر ڈیم بنوانے کے لیے وسائل دے رہا ہے تا کہ ادھر سے بھی پاکستان کا پانی روکا جائے۔ لیکن ہمارے آبی وسائل کے وزیر محترم ان معاملات سے بے نیازہیں ۔ وہ ڈیم کی تقریب میں بھی کرپشن اور احتساب کی بات کرتے ہیں ۔
ٹاک شوز میں بھی یہی حال ہے۔ سیاسی تبصرے ، چند دشنام ، کچھ گالیاں ، ایک آدھ ہاتھا پائی اور پھر سب ہنسی خوشی گھروں کو لوٹ جاتے ہیں ۔ نہ کوئی وزیر سے متعلقہ شعبے پر سوال پوچھتا ہے نہ کسی وزیر کو جوابدہی کا کوئی احساس ہوتا ہے ۔ وہی ڈگڈگی ہے جو مسلسل بجائی جا رہی ہے۔ قریبا تین سو لاکھ روپے قومی اسمبلی کے ایک دن کے اجلاس پر خرچ ہوتے ہیں اور وہاں سنجیدہ قومی امور پر بات کرنے کی بجائے طنز ، دشنام اور چند جگتیں اچھال کر اکابرین لوٹ جاتے ہیں ۔
زمینی حقائق سے بے نیاز غیر سنجیدہ رویے، توہین اور تضحیک پر ہر دم مائل ، سوال یہ ہے اس کابینہ کے ہوتے ہوئے کیا عمران کو کسی دشمن کی ضرورت ہے؟