نقاب

ہم سب نقابوں کےپیچھے رہتے ہیں۔ معروفِ عام میں یہ نقاب پرسونا کہلاتے ہیں۔ جن میں نقاب کے پیچھے چھپی شخصیت گم ہو کر رہ جاتی ہے کہیں، دھندلی دھندلی۔

وجود کے خانوں میں نقابوں کی بہتات۔ ماں باپ کے سامنے ایک اور بیوی کے سامنے دوسرا، بچوں کے سامنے ایک اور بہن بھائیوں میں دوسرا اور کہیں سفید لبادے کے ساتھ اترتا اجلی شخصیت کا نقاب۔

نقاب اتارنے کی جستجو بھی عجب ہے۔ ہمیشہ دوسروں کا نقاب الٹنے کی جہد سی طاری رہتی ہے۔ اور کہیں اپنا اترنے لگے تو کرختگی سے ایک پرت اور چڑھا کر اصرار ہوتا ہے کہ نہیں یہ نقاب ہی مرا اصل و حسین چہرہ ہے۔

نقابوں کی منڈی بھی لگتی ہے۔ نقابوں کی بولی بھی ہوتی ہے۔ لیکن نقاب لُٹتا کبھی نہیں۔ نقاب لُٹیرا ہوتا ہے۔ اور اتر جاۓ تو جھٹ سے مظلوم۔

ہم محبت بھی نقابوں سے کرتے ہیں۔ کیوں کہ ہم محبت بھی نقاب لگا کر کرتے ہیں
اور جب دونوں نقاب اترتے ہیں تو محبت بھی جامِ شب کے خمارمانند ایک بیزار کن درد کے سوا کوئی میراث نہیں چھوڑ تی۔

ایک نقاب اسکا بھی ہے جو دور کسی گاوں سے آ کر شہر کے اجلے نقابوں کو رات کے اندھیروں میں روح فروخت کرتی اپنے اپنوں کے نقاب سلامت رکھنے کی جنگ لڑتی ہے۔ اور ایک وہ اجلا نقاب بھی جو بستر کی سلوٹوں پر قوت خرید کا اظہار کرتا، صبح پورے معاشرے کو اپنے نقاب کے اجالے سے منور کرتا ہے

ایک نقاب وہ بھی جو سارا وقت مسکراتے گزارتا ہے کہ نقاب کے پیچھے چھپی الجھنیں، پریشانیاں اور فکریں جو عیاں ہو گئیں تو اس کی محنتوں کو چند ٹکوں میں خریدنے والے کوئی اور مزدور نہ ڈھونڈ بیٹھیں۔
آقاوں کے بھی نقاب ہوتے ہیں طہارت بھرے، سجے سنورے، نورانی نورانی۔

ان نقابوں کا اعجاز حامل کے وجودسے اٹھتے خوشبو کے بھبھکے ہوتے ہیں جو تعفن کو دور کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔

یہ نقاب خاصے قیمتی ہوتے ہیں۔ یہ مالکوں کے نقاب ہیں۔ یہ آقاوں کے نقاب ہیں
یہ دلاسے اور دھوکے بیک وقت دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
معصومیت کا نقاب سے کوئی تعلق نہیں البتہ اسکا نقاب بھی ہوتا ہے
ذلتیں نقاب نہیں اوڑھتیں لیکن نقابوں کے پیچھے بھی رقصاں رہتی ہیں
غربت نقاب اوڑھنا چاہے بھی تو اسے نقاب میسر نہیں آتا۔
شہرت اسے تیاگنا چاہے بھی تو نقاب چپک سا جاتا ہے۔
نقاب درد سنبھال نہیں پاتا البتہ حوصلہ دینے والوں کا معاون ہوتا ہے

نقاب بھوک نہیں مٹاتا البتہ ہمدروں کا چہرہ چھپا لیتا ہے۔ وہ چہرہ جو کبھی نخوت بھری شکنوں کے بوجھ تلے مسکراۓ چلا جاتا ہے

نقاب پر آنسو نہیں آتے کبھی۔ یہ اسکا سنگھار اجاڑ دیتے ہیں۔
اور کبھی نقاب کی خستگی کے ڈر سے، ہم معاشرے بگاڑ دیتے ہیں
نقاب حباب نہیں۔ عذاب ہے۔
چلتا پھرتا، جیتا جاگتا عذاب
سوال نقاب
جواب نقاب
رنگ نقاب
روپ نقاب
شعلہ نقاب
حباب نقاب
میری بے خودی نقاب
تیرا حجاب نقاب
رقص نقاب، سُر نقاب ، ساز نقاب
تیرا ہر ناز، میرا ہر انداز نقاب
شرم و حیا نقاب
سزا نقاب، جزا نقاب
سجدہ نقاب ، امامت نقاب
عبادت نقاب، اقامت نقاب
قلم نقاب، قلمکار نقاب
فن نقاب، فنکار نقاب

دوستوں! حاضر ہوں اپنی اس تحریر کے ساتھ اب تیر چلائیں یا نشتر آخر انسان نے جو بویا ہو وہ کاٹنا بھی پڑتا ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے