کیا مذہب کے نزدیک سیکس کوئی جرم ہے؟ جسکی بنا پہ اتنی سزائیں دی جاتی ہیں؟ کیا خدا وہ پاکیزہ جذبات نہی سمجھ سکتا جو انسانوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے پیدا ہوتے ہیں اور ایسے ہی اعتراض کچھ ہم جنس پرست اور الحاد دوست کرتے ہیں۔
لیکن اس سلسلے میں مذہب کا سرے سے یا تو مطالعہ ہی نہی کیا گیا اور اگر کیا گیا ہے تو اسے سمجھا نہی گیا۔
سب سے پہلے سمجھ لینا چاہیے کہ خدا نے جب یہ کائنات بسا کہ انسان کو آباد کیا تو اسکے نزدیک اس دنیا کا بسانا کوئی کھیل نہی تھا جو کھیل لیا جاتا اور بس۔ انسان کو قوت ارادی کے ساتھ اس دنیا میں لانے کا مطلب فساد کو دعوت دینا تھا۔ اسکا مطلب تھا جسکے پاس جب طاقت آتی وہ دنیا کو تہس نہس کرکے اور خلق خدا کو روند کے نکل جاتا۔ اس خدشے کا اظہار فرشتوں نے اس وقت کیا جب خدا کی ذات نے انسان کو دنیا بسانے کو پروگرام پیش کیا تو انہوں جو کہا اسکا مفہوم یہ تھا ” کہ آپ ایسی مخلوق بنانا چاہتے ہیں کہ جو دنیا میں کشت و خون کرتا پھرے”۔
اس خدشے کے بعد ضروری تھا کہ انسان کو کچھ قائدے قانون کے مطابق زمین پر اتارا جائے اور اسے بار بار یاد دہانی کروائی جائے کہ اس سے بڑا اور اس سے جواب طلبی کرنے والا بھی کوئی موجود ہے۔ (یہ سب کس طرح کیا گیا، اس میں کون کون سے عوامل شامل تھے وہ آج کا موضوع نہی)
بہر حال وہ قانون اور قاعدے کو ہم آج مذہب کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔ وہ اور بات ہے کہ انسان نے ان قوانین سے اپنے مقاصد کے لئے انحراف بھی کیا اور سرکشی اختیار کرکے اپنی قوت ارادی اور خدا کی طرف سے دی گئی چھوٹ کا ناجائز استعمال بھی کیا۔
انسان جب دنیا میں آتا ہے تو اسکو سہارے کی اور ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ اپنے ماحول سے سیکھتا ہے اور اپنے ماحول کے مطابق عادات و اطوار اپنا لیتا ہے جس میں سے بہت سی عادات اسکا ساتھ ساری زندگی نبھاتی ہیں۔ ماں کے پیٹ سے نکل کر جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھنے تک اسے ہر موڑ پہ رشتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
انسان اگر جوان ہی پیدا ہوتا اور جوان ہی مر جاتا تو شائد انسان کو شادی کے بندھن میں باندھنا ضروری نہ ہوتا۔ لیکن بچپن اور بڑھاپا وہ دو مراحل ہیں جب انسان اپنی زندگی اکیلے نہی گذار سکتا اس وقت اسے سہارے کی ضرورت شدید ہوتی ہے۔ اور یہ سہارا تب ہی مل سکتا ہے جب وہ شادی کے بندھن میں بندھ کہ ایک خاندان کی بنیاد ڈال چکا ہو۔
اسلام کوئی مذاق نہی ہے یہ ایک ضابطہ حیات ہے۔ کسی بھی قانون کے بارے میں دو رائے ہونا کوئی بڑی بات نہی لیکن قانون کسی ایک شخص کی رائے پہ بنا نہی کرتے بلکہ قانون کو معاشرے کے دقت نظر سے مطالئے سے ہی ترتیب دیا جاتا ہے اور شادی کا یہ قانون اسی مطالعہ اور خدا کی دور اندیشی کا نتیجہ ہے۔
اسلام کا مقصود ایک خاندانی نظام کی بنیاد ڈال کر پروان چڑھانا ہے جس میں انسان کو ہر طرح کا سکون میسر آئے۔ انسان کو جب رشتوں کی ضرورت ہو تو وہ اسے ایک چھت طلے ایک خاندان کی صورت میں میسر ہوں۔
نکاح میں قبول کہ رسمیہ جملے اور ایک سرٹیفکیٹ کوئی کاروائی نہی۔ نکاح ایک اعلان ہے کہ آج سے فلاں فلاں اس معاشرے میں ایک نئے خاندان کی بنیاد ڈالنے جا رہے ہیں۔
یہ بات الگ ہے کہ مذہبی لوگ اور سیکولر دونوں اس خاندانی نظام سے دوری اپنائے ہوئے ہیں۔ لیکن اسمیں مذہب کا کیا قصور ہے؟