میں آپ کو ایک بار پھر ایفی ڈرین کیس کی طرف لے جاتا ہوں‘ یہ کیس 10 اکتوبر 2011 کو سامنے آیا تھا‘ اینٹی نارکوٹکس فورس نے آسٹریلین حکومت اور خفیہ اطلاعات کے بعد وفاقی وزیر صحت کو لکھا‘ ملک کی دو فارما سوٹیکل کمپنیوں نے بڑی مقدار میں ایفی ڈرین کا کوٹہ لے کر بیرون ملک اسمگل کر دیا۔
یہ ایفی ڈرین بعد ازاں ممنوعہ ادویات کی تیاری میں استعمال ہوئی‘اے این ایف کا یہ نوٹس میڈیا میں آیا‘ قومی اسمبلی تک پہنچا اوروفاقی وزیر صحت نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر ملزموں کے خلاف قانونی کارروائی کا اعلان کر دیا‘ عمران خان اور شیخ رشید نے یہ ایشو اٹھا لیا‘یہ ہر جلسے‘ ہر انٹرویو اور ہر میڈیا ٹاک میں ایفی ڈرین کا ذکر کرنے لگے‘ عمران خان اور شیخ رشید کے دباؤ میں قانون حرکت میں آیا اور ملتان کی کمپنی برلیکس لیب انٹرنیشنل( Berlex Lab) اور اسلام آباد کی کمپنی دناس (Danas) فارما سوٹیکل کے خلاف کارروائی شروع ہو گئی۔
وزارت صحت فارما سوٹیکل کمپنیوں کو ایفی ڈرین کا پانچ سو کلو گرام کا کوٹہ دیتی تھی لیکن برلیکس نے چھ ہزار کلو گرام اور دناس نے ساڑھے تین ہزار کلو گرام کوٹہ لیا‘ حکومت نے دونوں کمپنیوں کے بجلی کے بل اور بینک اکاؤنٹس کی تفصیل نکال لی‘ بجلی کے بل چندہزار روپے تھے اور کوئی فیکٹری چندہزار روپے کی بجلی کے ساتھ نو ہزار کلو گرام ایفی ڈرین کی گولیاں نہیں بنا سکتی تھی‘ ادویات کی رقم بھی ان کے اکاؤنٹس میں نہیں آئی تھی چنانچہ تحقیقات شروع ہو گئیں‘ پتہ چلا برلیکس کے سی ای او افتخار احمد خان اور دناس کے سی ای او عنصر فاروق چوہدری نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی موسیٰ گیلانی کے ساتھ مل کر یہ کوٹہ الاٹ کر ایا تھا۔
علی موسیٰ گیلانی کے سیکریٹری توقیر علی خان نے سیکریٹری صحت خوشنود لاشاری پر دباؤ ڈالا تھا‘ خوشنود صاحب وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری بننا چاہتے تھے‘یہ توقیر علی خان کے دباؤ میں آ گئے اور انھوںنے ڈی جی ہیلتھ کو لائسنس جاری کرنے کا حکم دے دیا‘ڈی جی کا کانٹریکٹ ختم ہو رہا تھا‘ یہ کانٹریکٹ میں توسیع چاہتے تھے‘ انھیں توسیع کا لالچ دے دیا گیا‘ وہ لالچ میں آ گئے اور انھوں نے دونوں کمپنیز کو نو ہزار کلو گرام ایفی ڈرین کا کوٹہ دے دیا‘ملزمان نے بعد ازاں ایفی ڈرین بلیک مارکیٹ میں فروخت کر دی۔
ڈی جی ہیلتھ کسی کمپنی کو پانچ سو کلو گرام سے زائد کوٹہ الاٹ نہیں کر سکتا تھا‘ یہ سیدھا سادا جرم تھا‘ ڈی جی باقی کمپنیوں کو پانچ سو کلو گرام کوٹہ دیتا رہاجب کہ برلیکس کو چھ ہزار اور دناس کو ساڑھے تین ہزار کلو گرام کا کوٹہ دے دیا گیا‘ یہ کمپنیاں پہلی مرتبہ ایفی ڈرین سے ادویات بنا رہی تھیں اور ان کے پاس ادویات سازی کے لیے معیاری ٹیکنالوجی بھی موجود نہیں تھی‘ وزارت صحت نے کوٹہ دیتے وقت ان چیزوں کی تحقیق کی اور نہ کمپنیوں کی کیپسٹی دیکھی‘ تفتیش کے دوران دو قسم کی کمپنیاں سامنے آئیں‘ دناس اور برلیکس جیسی کمپنیاں جنہوں نے مطلوبہ مقدار سے زیادہ کوٹہ لیا اور قانون کے مطابق پانچ سو کلوگرام کوٹہ لینے والی کمپنیاں‘ ایفی ڈرین کا سکینڈل سامنے آیا‘ شیخ رشید یوسف رضا گیلانی اور اپنے سیاسی حریف حنیف عباسی کی نفرت میں سامنے آئے‘ یہ میڈیا ٹاک بھی کرنے لگے اور یہ سپریم کورٹ بھی چلے گئے‘ عمران خان بھی میدان میں کود پڑے‘ یہ راولپنڈی کے حلقہ این اے 56سے الیکشن لڑنا چاہتے تھے‘ یہ حنیف عباسی کا حلقہ تھا۔
عمران خان اور شیخ رشید نے دونوں حلقوں سے ایفی ڈرین کے نام پر 2013ء کا الیکشن لڑااور حنیف عباسی 13 ہزارووٹوں سے عمران خان کے خلاف الیکشن ہار گئے لیکن ہارنے کے باوجود ان کی پاپولیرٹی میں کمی نہ آئی‘ دوسری طرف عنصر فاروق چوہدری‘ افتخار احمد اورسابق ڈی جی ہیلتھ اسد حفیظ کو اینٹی نارکوٹکس فورس نے اپریل 2012ء میں گرفتار کر لیا‘ تحقیقات شروع ہوئیں‘ مقدمہ بھی چلنے لگا‘ شیخ رشید تینوں ملزموں کے خلاف میدان میں آ گئے‘ یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی موسیٰ گیلانی اور سابق وزیر صحت مخدوم شہاب الدین بھی تحقیقات اور مقدمے کا حصہ تھے لیکن یہ دونوں سات سال گزرنے کے باوجود آج تک گرفتار ہوئے اور نہ ہی انھیں سزا ہوئی‘ یہ آج بھی کھلے پھر رہے ہیں جب کہ تین بنیادی ملزم افتخار احمد‘ عنصر فاروق چوہدری اور اسد حفیظ بھی 10 دسمبر 2012 کو ضمانت پر رہا ہو گئے‘ یہ بھی سات برسوں سے آزاد پھر رہے ہیں۔
ایفی ڈرین کے سارے سکینڈل میں صرف ایک شخص کو سزا ہوئی اور وہ شخص تھا حنیف عباسی‘ یہ9ماہ جیل میں بھی رہا‘ یہ 2018 کا الیکشن بھی نہ لڑ سکا‘ یہ 11 اپریل کو لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر ضمانت پر رہا ہوا‘یہ کیس اب سپریم کورٹ چلا گیا ہے‘یہ پہلے سات برس اینٹی نارکوٹکس کورٹ اور ہائی کورٹ میں وکیلوں کی فیس دیتا رہا اور یہ اب سپریم کورٹ میں بھی وکیلوں کی فیس ادا کرے گا‘ اس کا سارا سیاسی کیریئر اور بزنس بھی تباہ ہو گیا اور فیملی بھی دربدر ہو گئی‘ آپ کسی دن ایفی ڈرین کیس کے بارے میں تحقیقات کر لیں آپ کو آدھ درجن سے زائد کمپنیاں اور لوگ تباہ حال ملیں گے‘ یہ سب ایفی ڈرین سکینڈل میں پھنسے اور عرش سے فرش پر آگئے‘ سرکاری محکموں اور وکیلوں نے ان کی بوٹیاں تک نوچ لیں لیکن اصل مجرم! وہ لوگ جن سے یہ کیس شروع ہوا تھا وہ نہ صرف آج بھی آزاد پھر رہے ہیں بلکہ عنصر فاروق چوہدری عمران خان کی حکومت کا حصہ بھی بن چکے ہیں‘ یہ اب عمران خان کے کندھوں کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔
آپ ملاحظہ کیجیے عنصر فاروق چوہدری کس قدر فنکار انسان ہیں‘ یہ پہلے عمران خان کے ساتھ بنی گالہ میں دکھائی دینے لگے‘ یہ پھر وزیر صحت (سابق) عامر کیانی کے ساتھ نظر آنے لگے‘ یہ پھر علی اعوان اور گورنر پنجاب کے پاس بھی پہنچ گئے‘ ان کے ساتھ بھی تصویریں بنوالیں اور یہ تصویریں شائع بھی کر دیں‘ یہ سلسلہ اگر یہاں تک رہتا تو شاید قابل برداشت تھا لیکن 22 فروری 2019کو وزارت صحت کی طرف سے ایک نوٹیفکیشن جاری ہوا اور حکومت نے ایفی ڈرین سکینڈل کے مرکزی ملزم عنصر فاروق چوہدری کو ہیپاٹائیٹس کنٹرول پروگرام کی اسٹیئرنگ کمیٹی میں بھی شامل کر لیا اور یہ کنٹری ہیڈ بھی بنا دیئے گئے۔
آپ کمال دیکھئے ایک شخص جو ملک کے میگا سکینڈل کا مرکزی ملزم تھا‘ جو اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے کے ساتھ مل کر ایفی ڈرین کا کوٹہ الاٹ کرتا رہا‘ وہ کوٹہ بعد ازاں اسمگلروں کو فروخت ہوا‘ آسٹریلین حکومت نے شکایت کی‘ سکینڈل بنا‘ عمران خان اور شیخ رشید نے اس سکینڈل کو عوامی مقبولیت بخشی‘ 2013 کا الیکشن ایفی ڈرین کے شور میں لڑا گیا اور شیخ رشید ایفی ڈرین ایشو میں پٹیشنر بھی بنے لیکن جب عمران خان کا نیا پاکستان طلوع ہوا تو عمران خان نے ایفی ڈرین کے اس اسمگلر کے لیے اپنے گھر کے دروازے بھی کھول دیئے اور اسے ہیپاٹائیٹس کنٹرول پروگرام کا کنٹری ہیڈ بھی بنا دیا۔
عنصر فاروق چوہدری پر اگر ایفی ڈرین کا الزام نہ بھی ہوتا تو بھی یہ اس عہدے کے لیے اہل نہیں تھے‘ کیوں؟ کیونکہ یہ فارما سوٹیکل کمپنی کے مالک بھی ہیں اور یہ ادویات ساز کمپنیوں کے فورم پی پی ایم اے (نارتھ) کے چیئرمین بھی ہیں چنانچہ حکومت ادویات بنانے والے کسی شخص کو کسی بیماری کے خاتمے کا کنٹری ہیڈ کیسے بنا سکتی ہے؟ کیا یہ ’’ کلیش آف انٹرسٹ‘‘ نہیں اور کیا دنیا کے کسی ملک میں اس کی گنجائش ہوتی ہے؟ یہ ہمت تو پرانے پاکستان کے پرانے حکمران بھی نہیں کرسکتے تھے لیکن نئے پاکستان نے ایفی ڈرین سکینڈل کے ملزم اور فارما سوٹیکل کمپنی کے مالک کو ہیپا ٹائیٹس کنٹرول پروگرام کا مختار بنا دیا‘ یہ کہاں کا انصاف اور یہ کہاں کی انسانیت ہے لیکن یہ اس حکومت کا کمال ہے۔
میں نے زندگی میں آج تک کسی لیڈر کو اتنے زیادہ اور اتنے تیز یوٹرن لیتے نہیں دیکھا‘ آئی ایم ایف کے پاس جانا ہو‘ کرپٹ پارٹیوں کے کرپٹ لوگوں کو سینے سے لگانا ہو‘ ٹیکنو کریٹس کو حکومت میں شامل کرنا ہو‘ ڈالرز کو اوپن مارکیٹ کے رحم وکرم پر چھوڑنا ہو‘ اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے حوالے کر نا ہو یا پھر سنی سنائی باتوں کو حقیقت سمجھ لینا ہو‘ یہ حکومت بہت جلد گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل ہو جائے گی‘ آپ کمال دیکھئے‘ حکومت کا سب سے بڑا ایشو گردشی قرضے ہیں‘ یہ قرضے 16سوارب روپے تک پہنچ چکے ہیں‘ آئی ایم ایف جوں ہی پہلی قسط دے گا حکومت گردشی قرضے ادا کرنا شروع کر دے گی لیکن ان ادائیگیوں کے بینی فیشری کون لوگ ہوں گے؟
آپ جواب کے لیے صرف ایک سوال پوچھ لیں‘ پٹرولیم کی وزارت اس وقت کس کے پاس ہے؟ یہ وزارت وزیراعظم کے مشیر ندیم بابر چلا رہے ہیں‘ یہ بجلی بنانے والی کمپنی اورینٹ پاور کے سی ای اورہے ہیں‘ یہ اس وقت بھی کمپنی کے شیئر ہولڈر ہیں اور یہ ماضی میں آئی پی پیز کے فورم کے کرتا دھرتا بھی رہے ہیں‘ یہ خود گردشی قرضوں کے بینی فیشری ہیں لہٰذا یہ اور ان کے دوست جی بھر کر گردشی قرضوں کا فائدہ اٹھائیں گے‘ حکومت نے پچھلے نو ماہ میں ایک ہی بڑا ترقیاتی منصوبہ شروع کیا اور یہ منصوبہ مہمندڈیم ہے۔
یہ ڈیم کون بنائے گا؟یہ وزیراعظم کے مشیر برائے صنعت و تجارت عبدالرزاق داؤد کی کمپنی ڈیسکون بنا رہی ہے‘ یہ منصوبہ 309ارب روپے میں مکمل ہو گا‘جائیکا نے اس منصوبے کا تخمینہ ایک ارب دس کروڑ ڈالر لگایا تھا لیکن حکومت نے یہ منصوبہ تین گنا قیمت پر عبدالرزاق داؤد کی کمپنی کو دے دیا‘ ڈالر اس وقت ملک کا سب سے بڑا ایشو ہے‘ ڈالر کی قیمت میں اتار چڑھاؤ نے پورا ملک تباہ کر کے رکھ دیا‘ ڈالر کی قیمت کون طے کر رہا ہے۔
گورنر اسٹیٹ بینک باقر رضا اس کے ذمے دار ہیں اور یہ آئی ایم ایف کے ملازم ہیں اور آئی ایم ایف پاکستانی معیشت اور ڈالروں کی سب سے بڑی بینی فیشری ہے اور پیچھے رہ گئی وزارت خزانہ تو آپ صرف علی جمیل کا پتہ اور پروفائل معلوم کر لیں آپ ساری کہانی سمجھ جائیں گے چنانچہ بادشاہ سلامت نے اگر یہ ہی کرنا تھا‘ ہم نے اگر پورا ملک بینی فیشریز کے حوالے کرنا تھا تو پھر پرانے پاکستان میں کیا خرابی تھی؟ یہ ظلم تو پرانے پاکستان کے پرانے حکمران بھی نہیں کرتے تھے‘ آپ نے تو ظلم کو چکی بنا دیا‘ آپ نے پورے ملک کو پیس کر رکھ دیا‘ اس سارے پس منظر میں صرف ایک کمی باقی ہے‘ آپ مہربانی فرما کرعلیم خان کو چیئرمین نیب بنا دیں تاکہ سارے مسئلے ہی حل ہو جائیں‘ملک کے سارے ادارے اندھا دھند دوڑنا شروع کر دیں۔