وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کے مطابق حکومت پاکستان کی جانب سے گلگت بلتستان کی آئینی پوزیشن کے تعین کیلئے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں قائم آئینی کمیٹی کا پہلا اجلاس 11نومبر ہوگا۔ وزیر اعلیٰ کے اس بیان کے بعد خطے میں آئینی پوزیشن کے ضمن میں بحث ایک مرتبہ پھرشد ومد چھڑ گئی ہے اور مختلف طبقوں کی جانب سے مختلف ردعمل سامنے آرہے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کی رہنماء ماروی میمن نے گلگت میں ایک تقریب سے خطاب میں واضح طور پر کہاہے کہ’’ گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کا معاملہ مسلم لیگ کے دور میں ہی حل ہوگا ‘‘۔
اسلامی تحریک گلگت بلتستان کے ارکان اسمبلی کیپٹن(ر) سکندرعلی اور کیپٹن(ر)محمد شفیع نے ایک اجتماع سے خطاب میں کہاہے کہ ’’گلگت بلتستان کو پاکستان کے مکمل صوبے سے کم کسی آپشن پر بات نہیں کی جائے گی‘‘۔
آئینی کمیٹی کے سربراہ مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے اسلام آباد میں جمعیت علماء اسلام کے سنیٹر مولانا عطاء الرحمن اور جمعیت علماء اسلام گلگت بلتستان کے مرکزی رہنماء مولاناعطاء اﷲ شہاب سے ملاقات میں واضح کیاہے کہ’’ آئینی پوزیشن کے تعین کیلئے سیاسی، مذہبی جماعتوں اور تمام اکائیوں کو اعتمادمیں لیکر فیصلہ کیاجائے گا‘‘،
جبکہ آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم اور مسلم کانفرنس کے سربراہ سردار عتیق احمد خان نے ایک مرتبہ پھر اپنے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ’’ گلگت بلتستان کو آئینی صوبہ بنانے والوں کی قبروں تک پیچھا کریں گے‘‘۔
مندرجہ بالا ردعمل سے ہی بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ خطے میں آئینی پوزیشن کے حوالے سے کس حد تک لوگوں میں شدت پائی جاتی ہے ۔ حکومت پاکستان کا خطے کی آئینی پوزیشن کے تعین کیلئے کمیٹی قائم کرنے کا عمل دیر آید درست کے مصداق ہے ،اور اس سے ایک نئی امید پیدا ہوئی ،تاہم ابھی تک کمیٹی کے صرف چیئرمین کا اعلان ہوا ہے اور ارکان کا تعین نہیں کیاگیاہے۔
اگر خطے کی تاریخی ، جغرافیائی اور علاقائی پوزیشن کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی حل تلاش کرنا ہے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ گلگت بلتستان سے تمام مذہبی، لسانی، علاقائی، جغرافیائی اور قبائیلی اکائیوں کو نہ صرف اعتماد میں لیاجائے بلکہ انہیں کمیٹی میں مناسب نمائندگی دی جائے۔3 نومبر کو ہونے والے اسمبلی کے اجلاس میں بھی مطالبہ کیاگیاہے کہ سابق آئی جی سندھ افضل شگری کو کمیٹی میں شامل کیاجائے۔دراصل افضل شگری اور آزاد کشمیرکے جسٹس (ر)منظور گیلانی نے گلگت بلتستان اورآزاد کشمیر کی آئینی پوزیشن کے حوالے سے کافی ہوم ورک کیاہے، جس سے متعلقہ حکام کو مکمل طورپر آگاہ بھی کیاہے۔
اطلاعات کے مطابق اس ضمن میں کتاب مرتب کرکے خطے کے تمام ارکان اسمبلی کو کاپیاں فراہم کی گئی ہیں ۔ بعض افرادکاشکوہ ہے کہ ابھی تک کسی بھی عوامی نمائندے نے کتاب پر ردعمل کا اظہار کیا اور نہ ہی جواب دیا۔شاید اس کی بنیادی وجہ یہ ہو کہ دونوں خطوں(گلگت بلتستان اورآزادکشمیر)کے بیشتر نمائندے انگریزی زبان کی باریک بینیوں سے واقف نہیں ہیں۔
کیا ہی بہتر ہوتاکہ کتاب( جو دراصل دونوں خطوں کی آئینی پوزیشن کے حوالے سے تجایز ہیں )کو انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو زبان میں بھی مرتب کیاجاتا اور یہ کام اب بھی ہوسکتاہے تاکہ لوگوں کو حقیقی صورتحال کا ادراک اور بات سمجھنے میں آسانی ہو۔
جہاں تک ماروی میمن کے اس بیان کا تعلق ہے کہ ’’آئینی حقوق کا معاملہ مسلم لیگ (ن) کے دور میں ہی حل ہوگا‘‘ ، دراصل اس وقت مسلم لیگ کیلئے اس مسئلے کو حل کرنا مجبوری بن گئی ہے کیونکہ پاک چائنا اقتصادی راہداری منصوبے کی اصل بنیاد گلگت بلتستان ہی اور اس خطے کی آئینی پوزیشن کا تعین کیے بغیر چائنا اور پاکستان کیلئے منصوبے کی تکمیل انتہائی مشکل ہوگی۔مختلف قوتیں مختلف رکاوٹین پیدا کرسکتی ہیں۔
عالمی سطح پر بھارت بھرپور پروپیگنڈہ کرسکتاہے، اس لیے مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت ’’پاک چائنا اقتصادی راہداری‘‘ کے منصوبے پر واقعے سنجیدہ ہے تو ایساکوئی حل تلاش کرناہوگاجو سب کو قابل قبول ہو ۔
اسلامی تحریک کے ارکان اسمبلی کی جانب سے مکمل صوبے کے بغیر کسی حل کو قبول نہ کرنے کی باتیں جہاں مخصوص سوچ کی عکاس ہیں وہیں خدشات کا اظہار بھی ہے۔
در اصل اس وقت خطے کیلئے ایسا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے جو کسی خاص نظریہ اور طبقے کی نمائندگی کے بجائے مذہبی، علاقائی، تاریخی جغرافیائی اور عالمی صورتحال کے مطابق ہو۔ اس میں تمام شعبہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اپنا مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں۔
مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی جانب سے جمعیت علماء اسلام کے رہنماوں مولانا عطاء اﷲ شہاب ، سینیٹرمولانا عطاء الرحمن سے ملاقات کے دوران اس بات کا اظہار کہ’’ آئینی کمیٹی تمام سیاسی ومذہبی قوتوں اور اکائیوں کو اعتماد میں لیکر فیصلہ کرے گی خوش آیند ہے ‘‘،
تاہم اس معاملے میں آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم اور مسلم کانفرنس کے سربراہ سردار عتیق احمد خان کی جانب سے جس سخت رد عمل کا اظہار کیاگیاہے وہ انتہائی قابل مذمت اور نفرت انگیز ہے ۔
بدقسمتی سے ماضی میں بھی کشمیری قیادت کی عدم توجہی، تضحیک امیز اور نفرت انگیز رویے کی وجہ سے گلگت بلتستان میں کشمیر سے تعلق اور کشمیری قیادت کے حوالے سے انتہائی سخت تحفظات پائے جاتے ہیں۔
اگر قبروں تک پیچھا کرناہے تو پھر سردار عتیق احمد خان کو اپنے مرحوم والد محترم سمیت ان تمام مرحوم کشمیری قائدین کی قبروں کا کرنا ہوگا اور ان کی قبروں پر بھی جاکر ان سے یہ پوچھنا ہوگاکہ ’’28اپریل1949کو معاہدہ کراچی کے تحت گلگت بلتستان کو مقامی عوام کی مرضی و منشاکے بغیرعارضی طو ر پرپاکستان کو حوالے کرنے کے بعد68سال خاموش کیوں رہے؟‘‘
کشمیری قیادت نے کیا کبھی غور کیوں کیا کہ انہوں نے منقسم کشمیر میں دو طرفہ اپنے لیے انتظامی یونٹس بناکرمعاشی اور سماجی مفادات حاصل کئے ،جس کے بعد ہی دونوں خطوں نے مختلف شعبوں میں بھرپور ترقی کی۔ 28اپریل1949کو معاہدہ کراچی کی وجہ سے گلگت بلتستان 68سال سے محروم ہے ۔
گلگت بلتستان مسئلہ کشمیر کا سب سے زیادہ متاثرہ حصہ رہا جس کی آئینی پوزیشن کا تعین نہ ہونے کی وجہ سے جہاں عوام میں احساس محرومی میں مسلسل اضافہ ہوا وہی پر پسماندگی ، غربت اورمعاشی بدحالی بھی اپنے عروج کو پہنچ گئی۔
کشمیری قیادت دانشمندی کا مظاہرہ کرتی تو آج خطے میں کشمیر سے تعلق کا لفظ بہت سی قوتوں کیلئے نفرت کی علامت نہ بنتا۔اب بھی کشمیری قیادت طاقت اور مقتدر قوتوں سے اپنے مضبوط تعلق کی بنیاد پر خطے کو محروم رکھنا چاہتی ہیں،سردار عتیق احمد خان کا حالیہ بیان اسی کی ایک جھلک ہے، لیکن اب ایسا ممکن نہیں ہوگا کیونکہ آئینی پوزیشن کے حوالے سے نہ صرف خطے میں اس وقت ہر سطح پر غورہورہاہے بلکہ اب آئینی پوزیشن کا تعین پاکستان کی بھی مجبوری ہے ۔اس لیے کشمیری قیادت قبروں تک پیچھا کرنے یا گڑے مردے اکھاڑنے کی بجائے دونوں خطوں کی تاریخی، جغرافیائی رشتوں اوعالمی قانونی حیثیت کو مدنظر رکھتے ہوئے مسائل کے حل میں اپنا کردار ادا کرے ،ورنہ پھر گلگت بلتستان کے عوام بھی قبروں تک پیچھا کرنے پر مجبور ہوں گے ۔
گلگت بلتستان کی موجودہ صورتحال ،تاریخی اور آئنی پوزیشن ،عوامی رائے، مختلف مکاتب فکر کے نظریات ،مالی وسائل ومسائل اور دیگر امور کے حوالے سے وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کا 28اکتوبر کو نجی ٹی وی میں نشر ہونے والا انٹرویو انتہائی اہم، توجہ طلب اور قابل غور ہے ۔
غالباًملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ قومی میڈیامیں خطے کے کسی منتخب مقتدرنمائندے نے بغیر کسی تعصب اور مخصوص سوچ کے خطے کی حقیقی صورتحال پر کھل کر بات کی ہے اور اس پر اب مثبت بحث و مباحثہ بھی ہوناچاہیے تاکہ خطے کے مستقبل کے حوالے سے باہم مشاورت اور مفاہمت سے ایسا آئینی حل تلاش کیاجائے جو سب کیلئے قابل قبول ہو اور اس سے پاکستان کی کشمیر پالیسی اور کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو بھی نقصان نہ پہنچے ۔، اسی میں سب کی بہتری ہے ۔