اس کالم کے باقاعدہ قارئین کو بخوبی علم ہے کہ عمران خان صاحب اکثر میری بے رحم تنقید کا نشانہ بنے رہے ہیں۔ میری ان سے مگر کوئی ذاتی عداوت نہیں اور ٹھوس حقیقت یہ بھی ہے کہ وہ اس وقت میرے ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ وزیر اعظم کے منصب کا ایک وقار ہوتا ہے۔ اگرچہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے عمران خان صاحب بذاتِ خود اس وقار کا تیا پانچہ کرتے رہے۔
وزیر اعظم کا ’’قوم سے خطاب‘‘ ایک بہت ہی سنجیدہ واقعہ ہوتا ہے۔ 22کروڑ آبادی والے پاکستان کا وزیر اعظم اپنی قوم سے خطاب کررہا ہو تو اسلام آباد میں موجود غیر ملکی سفارت کار اس کے ایک ایک لفظ کو بھرپور توجہ سے سننے اور اس کا تجزیہ کرنے کو مجبور ہوتے ہیں۔ایٹمی قوت کے حامل ملک کے وزیر اعظم اور ان کے رفقاء کے لئے ہمہ وقت یہ حقیقت ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ منگل کی رات عمران حکومت کا پہلا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش ہوجانے کے تقریباََ 3گھنٹے بعد ٹی وی سکرینوں پر اچانک ٹکر چلنا شروع ہوگئے کہ وزیر اعظم ’’تھوڑی دیر میں‘‘ قوم سے خطاب فرمائیں گے۔ بہتر یہی ہوتا کہ ’’تھوڑی دیر‘‘ کے بجائے وقت کا قطعیت کے ساتھ تعین کردیا جاتا۔بہرحال ہر شے بھلاکر مجھ ایسے ریٹائر ہوئے رپورٹر بھی ٹی وی آن کرکے بے تابی سے مذکورہ خطاب کا انتظار کرنے کی ٹرپ میں مبتلا ہوگئے۔ بالآخر بغیر کسی مناسب اعلان کے گیارہ بج کر 50منٹ کے بعد سکرینوں پر قومی ترانہ گونجنا شروع ہوگیا۔اس کے فوری بعد وزیر اعظم سکرین پر نمودار ہوئے۔
ان کی تقریر کے ابتدائی کلمات نشر ہونے کے چند ہی لمحوں بعد سکرین پر لیکن تصویر تو موجود رہی مگر الفاظ سنائی نہ دئیے۔میں سمجھا کہ جس نیٹ ورک پر یہ تقریر سن رہا تھا وہاں کسی تکنیکی مجبوری کی بناء پر فریم Freezeہوگیا ہے۔ بے چینی سے ریموٹ گھمانا شروع کیا تو ہر سکرین پر یہی منظر تھا۔حتیٰ کہ سرکاری طورپر چلائے پاکستان ٹیلی وژن کی سکرین بھی ’’فریز‘‘ تھی۔بحیثیت ایک عام پاکستانی شہری کے میں نے اس ’’فریز‘‘کے بارے میں بہت شرمندگی محسوس کی۔ شرمندگی اور خجالت کے چند لمحے بھگتنے کے بعد مگر اطمینان ہوا کہ تقریر دوبارہ شروع ہوگئی ہے۔اس کے تھوڑی ہی دیر بعد مگر سکرین ایک بار پھر ’’فریز‘‘ ہوگئی۔میں خجالت کی وحشت میں خود کو دیوانہ محسوس کرنا شروع ہوگیا۔پاکستان ٹیلی وژن سے میرا 1966سے بہت قریبی واسطہ رہا ہے۔
اس ادارے کا باقاعدہ ملازم تو کبھی نہیں رہا مگر بہت فخر سے یہ دعویٰ کررہا ہوں کہ اس کی نشریات میں تکنیکی نوعیت کے خلل کو اس وقت بھی ہرگز برداشت نہیں کیا جاتا تھا جب وہ لاہور کے ایک چھوٹے سے اسٹوڈیو سے تقریباََ نامساعد حالات میں چلائی جاتی تھیں۔کئی حوالوں سے پاکستان ٹیلی وژن کی سکرین دُنیا کے بہت سے ممالک میں Perfection کی بھرپور علامت شمار ہوتی تھی۔ 1984 میں پہلی بار بھارت گیا تو وہاں کا دوردرشن ہماری نقالی میں مبتلا نظر آیا۔بھارتی ٹیلی وژن کے اعلیٰ ترین افسر بھی ملاقاتوں میں کرید کرید کر مجھ سے PTVسکرین کی Perfectionکے راز جاننے کو بے چین رہے۔
غیر مصدقہ اطلاعات جو یہ کالم لکھنے تک میرے پاس پہنچی ہیں دعویٰ کررہی ہیں کہ منگل کی رات جو واقعہ ہوا PTVاس کا ہرگز ذمہ دار نہیں۔غالباََ کسی نجی ادارے نے بنی گالہ میں وزیر اعظم کا خطاب ریکارڈ کرکے اسے PTVکے حوالے کردیا۔ سکرینوں پر شرمسار کرنے والا جو خلل نظر آیا اس کا حقیقی ریکارڈ ہوئی تقریر اور اسے نشر کرنے والے ذرائع کا تکنیکی Mis-Match تھا۔ آسان الفاظ میں یوں کہہ لیجئے کہ جن آلات کے ذریعے وزیر اعظم کی تقریر ریکارڈ اور ایڈٹ ہوئی وہ PTVکو میسر نشریاتی وسائل سے قطعاََ مختلف تھے۔غیرمصدقہ اطلاعات کی بنیاد پر پھیلی خبر پر میں اعتماد کرنے کو خلوصِ دل سے تیار ہوں۔
پاکستان ٹیلی وژن کے اعلیٰ حکام کی لیکن یہ حتمی ذمہ داری تھی کہ وہ خود کو ملی ٹیپ کو نشر کرنے سے پہلے اسے اپنے ہاں موجود وسائل کے مطابق بنانے کو یقینی بناتے۔ ایسا غالباََ اس لئے نہیں ہوپایا ہوگا کہ بنی گالہ میں موجود خود کو شاہ کا ضرورت سے زیادہ وفادار مشیر ثابت کرتا کوئی شخص وزیر اعظم کی تقریر کو رات بارہ بجے سے قبل نشرکروانے کو بے قرار تھا۔منتخب وزیر اعظم کے منصب کاوقار متقاضی ہے کہ منگل کی رات ہوئے اس ناقابل معافی واقعہ کی بے رحم اور غیر جانب دارانہ تحقیق ہو۔ذمہ دار افراد کی نشان دہی کے بعد انہیں قرار واقعی سزا دینا بھی ضروری ہے۔
ایسا نہ ہوا تو خلقِ خدا یہ سوچنے کو مجبور ہوگی کہ جو وزیراعظم اپنے ’’قوم سے خطاب‘‘ کے حوالے سے ہوئی فاش غلطیوں کی اصل وجوہات کا سراغ نہیں لگاپایا وہ کیسے ایک اعلیٰ سطحی کمیشن کے ذریعے ہمیں یہ سمجھائے گا کہ گزشتہ دس برسوں میں لئے اربوں ڈالر کے غیرملکی قرضے پاکستان کی خو شحالی میں مددگار ہونے کے بجائے ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کے ذاتی کاروبار چمکاتے رہے۔وزیر اعظم کے خطاب کے دوران ہوئے خلل کی وجہ سے میں یہ کالم لکھنے تک ناقابل برداشت طیش کے عالم میں ہوں۔اس عالم میں ہرگز مناسب نہیں کہ میں مذکورہ خطاب کا ٹھنڈے مزاج سے دیانت دارانہ تجزیہ کرپائوں۔
اسے کسی اور وقت کے لئے چھوڑنا ہی مناسب ہوگا۔وزیر اعظم کے خطاب سے قبل البتہ انتہائی دیانت داری سے یہ توقع باندھے ہوئے تھا کہ عمران خان صاحب اپنی تقریر کے ذریعے عوام کو حوصلہ دیں گے۔ قومی اسمبلی میں پیش ہوئے بجٹ کے ان پہلوئوں کو اجاگرکریں گے جو غریب دیہاڑی داروں،تنخواہ دار طبقات اور چھوٹے کاروباری افراد کی مشکلات میں مزید اضافے کو روکنے کی خواہش کا اظہار ہیں۔بجٹ تقریر کے دوران میں قومی اسمبلی کی پریس گیلری میں موجود تھا۔میری نشست سے وزیر اعظم کے چہرے اور باڈی لینگوئج کا بھرپور مشاہدہ ہوسکتا ہے۔یہ بات درست ہے کہ بجٹ تقریر کے شروع ہونے سے تقریباََ آدھے گھنٹے بعد اپوزیشن نے ہنگامہ شروع کر دیا۔ پریس گیلری میں اس شور کی وجہ سے حماد اظہر کا ادا ہوا ایک لفظ بھی سنائی نہیں دے رہا تھا۔
وزیر اعظم مگر چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ سجائے ایوان میں مچے ہنگامے سے لطف اندوز ہوتے نظر آئے۔ بجٹ اجلاس ختم ہونے کے بعد اپنے دفتر کیلئے روانہ ہوتے ہوئے ا نہوں نے ہاتھوں کے استعمال سے ممکنہ لطف اندوزی کا اظہار بھی کیا۔مجھے ہرگز سمجھ نہیں آرہی کہ اجلاس ختم ہونے کے چند ہی گھنٹوں بعد وزیر اعظم کے ذہن میں کیا خیال آیا۔ جس نے انہیں قوم سے ایک طیش بھرا خطاب کرنے کو مجبور کردیا۔ وجوہات کچھ بھی رہی ہوں انہیں جان کر زیر بحث لایاجاسکتا ہے۔سوال یہ بھی اٹھایا جاسکتا ہے کہ وزیر اعظم نے جس کمیشن کے قیام کا اعلان کیا ہے اس کی ضرورت تھی بھی یا نہیں۔ ’’قوم سے خطاب‘‘ کے دوران فریز ہوئی ٹی وی سکرینیں مگر ناقابلِ معافی ہیں۔وزیر اعظم کے منصب کا تقاضہ ہے کہ اس کے ذمہ داروں کی فی الفور نشاندہی ہو۔