بی جے پی نے مغربی بنگال میں ممتا بینر جی کو پھانسنے کے لئے جو جال بچھایا تھا‘ وہ اس میں بری طرح الجھ گئی ہیں۔
ممتا ‘اس جال سے نکلنے کی جتنی کوشش کر رہی ہیں‘ جال کی گرفت اتنی ہی سخت ہوتی جا رہی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر امیت شاہ اور وزیراعظم نریندرمودی نے جو حکمت عملی اپنائی ہے‘ وہ قلیل مدتی نہیں‘ بلکہ طویل مدتی ہے۔ اس حکمت عملی میں عجلت پسندی اور جلد بازی نہیں ہے۔ کھانا بالکل گرم کھانے کی بجائے ٹھنڈا کر کے کھانے کو ترجیح دی جا رہی ہے‘ تاکہ لذت کا بھر پور مزہ اٹھایا جا سکے‘ لیکن ممتا بینر جی غالباً اس حکمت عملی کو سمجھ نہیں سکیں۔ وہ بی جے پی کی غیر عجلت پسندی کے جواب میں جلدبازی کا مظاہرہ کر کے اپنے سیاسی اناڑی پن کا ثبوت دے رہی ہیں۔ یہ شکایت کرنا کہ موجودہ صورت حال کی ذمہ دار بی جے پی ہے ‘کوئی نئی بات نہیں ‘کیونکہ بی جے پی تو ہر اس ریاست میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنا چاہتی ہے‘ جہاں اس کی حکومت نہیں ‘تاکہ آنے والے وقت میں اپنا اقتدار قائم کر سکے۔
نریندرمودی اور امیت شاہ نے تمام ریاستوں پر بی جے پی کا پرچم لہرانے کا جو منصوبہ بنایا ہے‘ اس کے تحت ہی یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے‘ لہٰذا بی جے پی کو قصور وار ٹھہرا کر اپنی ذمہ داریوں سے بچا جا سکے۔ کیا ممتا بینر جی اتنی بھولی ہیں کہ وہ بی جے پی کی چال کو سمجھ نہیں سکیں؟سمجھ ضرور گئی ہوں گی‘ لیکن نجانے کیوں‘اس میں پھنستی چلی جا رہی ہیں۔ واقعات اس بات کی تصدیق کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ اگر‘ انہوں نے دانش مندی کا مظاہرہ نہ کیا ‘تو وہ دن دور نہیں‘ جب حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے اور پھر اپنی حکومت کا دفاع کرنا ان کے لئے مشکل ہو جائے گا۔ اس وقت جو صورت حال ہے‘ وہ اچانک پیدا نہیں ہوئی؛ اگرچہ ڈاکٹروں کی ہڑتال بہت پرانی نہیں‘ لیکن یہ ہڑتال کیوں ہوئی؟ ہڑتال کروانے کے پیچھے کیا مقاصد ہیں؟ یہ جاننا ضروری ہے۔
بی جے پی ایک عرصے سے بنگال میں اپنے قدم جمانے کی کوشش کر رہی ہے۔ پہلے جہاں بی جے پی کو انتخابات کے دوران پولنگ ایجنٹ نہیں ملتے تھے‘ وہیں اب صورت حال یہ ہے کہ اس کا ایک بہت بڑا کیڈر تیار ہو گیا ہے‘ اس کیڈر کو پوری چھوٹ حاصل ہے کہ وہ جس طرح چاہے ممتا بینر جی کو زچ کرے‘ تاکہ اس کا فائدہ اٹھایا جا سکے۔
انتخابات کے دوران بھی مختلف حیلے بہانوں سے انہیں پریشان کیا جاتا رہا ہے‘ لیکن اس کی ذمہ دار کسی حد تک وہ خود بھی ہیں۔ ایسے مواقع پر انہیں‘ جس سیاسی فہم و فراست کا ثبوت دینا چاہیے تھا‘ اس میں وہ بری طرح ناکام ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انہوں نے اپنی سیاسی مجبوریوں یا مصلحتوں کے تحت مسلمانوں سے ہمدردی کا مظاہرہ کیا اور بی جے پی نے اسے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر لیا۔الیکشن کے دوران” جے شری رام‘‘ کے نعرے لگانے پر انہوں نے بی جے پی کارکنوں کے خلاف کارروائی کی۔ ان کا یہ اقدام بذات خود اشتعال انگیز تھا۔
اس بارے میں پریانکا گاندھی کی وہ ویڈیو یاد کیجئے‘ جو خوب وائرل ہوئی تھی۔پریانکا کہیں جا رہی تھیں کہ ان کے قافلے کو دیکھ کر کچھ لوگ ”مودی مودی‘‘ چلانے لگے۔ پریانکا نے گاڑی رکوائی اور مسکراتے ہوئے نعرہ بازوں کے پاس گئیں ‘ ان سے ہاتھ ملایا۔ انہوں نے کہا کہ ”آپ اپنی جگہ اور میں اپنی جگہ‘‘۔ جاتے ہوئے پریانکا نے ان لوگوں کے ساتھ سیلفی بھی بنوائی اورمسکراتے ہوئے چل دیں؛اگر پریانکا گاندھی ان لوگوں کے نعروں سے مشتعل ہو جاتیں تو وہی ہوتا ‘جو ممتا بینر جی کے ساتھ ہو رہا ہے۔ ادھر ممتا‘ اپنے قافلے کے ساتھ کہیں جا رہی تھیں کہ کچھ لوگ انہیں دیکھ کر ” جے شری رام‘‘ کے نعرے لگانے لگے۔ وہ گاڑی سے اتریں اور لوگوں کو ڈانٹنا شروع کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جے شری رام کے نعرے کو ان کی چڑ بنا دیا گیا اور ان کو دیکھ کر بار بار یہی نعرہ لگایا جانے لگا۔ صرف اتنا ہی نہیں ‘بلکہ مودی اور امیت شاہ نے اپنی تقریروں میں اس معاملے کو خوب اچھالا اور اس کا سیاسی فائدہ اٹھایا۔
مودی نے کہا کہ وہ جے شری رام کے نعرہ لگا رہے ہیں؛ اگر ان میں ہمت ہے تو انہیں جیل میں ڈال دیں۔ ظاہر ہے اس سے بی جے پی کو فائدہ پہنچا ہوگا۔ اس نے جن لوگوں کو ہندو توا کی راہ پر ڈال دیا ہے‘ ان کے جذبات مجروح ہونے لگے اور وہ ممتا کو ہندو مخالف سمجھنے لگے؛حالانکہ ممتا نے جے شری رام کے مقابلے میں جے درگا کا نعرہ لگایا‘ لیکن وہ بی جے پی کی چال کو بھانپ نہ سکیں۔
اسی طرح جب ایک جونیئر ڈاکٹر پر حملہ ہوا تھا تو انہوں نے سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کیا ہوتا تو معاملہ اس حد تک خراب نہ ہوتا۔ ممکن ہے کہ ڈاکٹروں کی ہڑتال کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہو ‘لیکن ممتا نے شروع میں ڈاکٹروں کو ڈرا دھمکا کر کام نکالنے کی کوشش کی ۔ ان کی یہ کوشش کارگر ثابت نہ ہوئی اور معاملہ ان کے ہاتھ سے نکلتا گیا‘ جس طرح انہوں نے اب جا کر ڈاکٹروں کے مطالبات تسلیم کئے ہیں ؛اگر پہلے ہی مان جاتیں تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی؟بی جے پی اس معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کر رہی ہے‘ چونکہ جونیئر ڈاکٹر پر حملے کا الزام ایک مسلم خاندان پر ہے‘اس لئے بی جے پی اس کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے؛ حالانکہ بنگلور میں ایسے ہی ایک معاملے میں سابق بی جے پی وزیر‘اننت ہیگڑے بھی ملوث پائے گئے تھے اور دیگر ریاستوں میں بھی ڈاکٹروں کے ساتھ مار پیٹ کے واقعات ہوئے ‘لیکن ڈاکٹروں نے ایسی ہڑتال نہیں کی‘ جیسی مغربی بنگال میں ممتا بینر جی کی ریاست میں ہوئی۔
اس وقت مرکز میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے۔ ریاستی گورنر بھی اسی کے ہیں۔ حکومت جب چاہے ریاست میں لاء اینڈ آرڈر کی خراب صورت حال کو بہانہ بنا کر حکومت برطرف کر سکتی ہے۔ کیا ممتا کو اتنی سی بات بھی معلوم نہیں؟ممتا کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بی جے پی اس وقت بلی کی مانند گھات لگائے بیٹھی ہے‘ جس کے سامنے اس کا شکار ہوا اور وہ موقع پاتے ہی اس پر جھپٹ پڑے گی اور دبوچ لی گی؛ اگر مرکزی حکومت ‘ریاست میں لا اینڈ آرڈر کی خرابی کی آڑ میں ممتا کی حکومت برطرف کر دیتی ہے ‘تو حیرت نہیں ہونی چاہیے؛ اگر ایسا ہوا ‘تو اس کی ذمہ دار خود ممتا ہوں گی‘ وہ اس ذمہ داری سے بچ نہیں سکتیں۔