تین گھنٹے کا خطاب وہی کر سکتا ہے جو انسانی نفسیات سے بے خبر ہو۔ یا پھر اس زعم میں مبتلا ہو کہ وہ عطاء اﷲ شاہ بخاری کا نقشِ ثانی ہے۔ یہ بات بھی وہی سوچ سکتا ہے جو عطاء اﷲ شاہ بخاری کی خطابت سے بے خبر ہو۔
خطابت میری دلچسپی کا خصوصی میدان رہا ہے۔ برسوں پہلے میں سوچا کرتا تھا کہ اگر مجھے کسی ایک شناخت کے ساتھ زندہ رہنے کا اختیار دیا جائے تو میں خطیب کی شناخت کو پسند کروں گا۔ اس کی ایک خاص وجہ ہے‘ جس کا تعلق میرے سماجی پسِ منظر سے ہے۔ میں نے ایک مذہبی ماحول میں آنکھ کھولی اور مجھ پر فنونِ لطیفہ کے دروازے اسی طرح بند تھے، جیسے مذہبی گھرانوں میں ہوتے ہیں۔ ہمارے گھر میں ریڈیو موجود تھا لیکن صبح کے اوقات میں ”قرآنِ حکیم اور ہماری زندگی‘‘ سننے کے لیے یا پھر خبروں کے لیے۔ ریڈیو کے توسط سے مولانا احتشام الحق تھانوی سے پہلا تعارف ہوا۔
پوٹھوہار کی ثقافتی روایت میں ”سانگ‘‘ کی خاص اہمیت ہے۔ یہ سٹریٹ تھیٹر کی ایک مقامی صورت ہے۔ شادی بیاہ کے موقعوں پر ایسے پیشہ ور گروپس کو بلایا جاتا تھا‘ جو معروف رومانوی داستانوں کو منظوم انداز میں پیش کرتے۔
خوش شکل لڑکے ایسے گروپس کا حصہ ہوتے‘ جو نسوانی کرداروں کا سوانگ بھرتے۔ جگت بازی بھی اسی کا حصہ تھا۔ سانگی معروف فلمی گانوں پر بھی اداکاری کرتے تھے۔ ہمارے پڑوس میں ایک کھلا میدان تھا جہاں ”سانگ‘‘ لگتا تھا۔ سانگ کے دن گاؤں میں جشن کا سماں ہوتا اور ہمارے گھر میں جیسے کرفیو لگ جاتا۔ اس دن ہمیں گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔ ہمارا چھت سانگ دیکھنے کے لیے آئیڈیل ہوتا۔ میرے ہم عمر مجھے خوش قسمت سمجھتے کہ اس گھر میں رہتا ہوں لیکن میرا معاملہ یہ تھا کہ کانوں میں آواز آتی رہتی مگر میں بے چینی سے کروٹیں بدلنے کے سوا کچھ نہ کر سکتا۔
اس ماحول میں میرے لیے تفریح کی صرف ایک جائز صورت تھی: مولوی حضرات کی تقاریر۔ اس میں موسیقی کے سوا سب کچھ ہوتا۔ آواز، انداز، اداکاری اور جگت۔ مذہبی جلسہ میرے لیے تفریح کا موقع تھے جس کا بے تابی سے انتظار ہوتا۔ ساتھ کے گاؤں میں کہیں جلسہ ہوتا تو اہتمام سے جاتا اور اکثر والد صاحب کے ساتھ۔ یوں تقریر کے فن اور خطابت سے میرا خصوصی تعلق پیدا ہوا۔ سانگ میں بھی یہی ہوتا تھا۔ اگر کسی گاؤں میں لگتا تو دیکھنے کے لیے لوگ دور دور سے آتے۔
میں بڑا ہوا تو اس ذوق کی مسلسل آبیاری ہوتی رہی۔ دلچسپی کا میدان مذہبی سے سیاسی تقاریر تک پھیلتا گیا۔ میں نے بچپن میں اپنے والد گرامی کے ساتھ، اٹک میں آغا شورش کاشمیری کی تقریر اس طرح سنی کہ خطاب کے دوران میں کہیں سو گیا۔ اپنے بچپنے کی وجہ سے آغا صاحب کی تنبیہہ سے محفوظ رہا‘ جو وہ اپنے سامعین کو خطاب کے آغاز میں کیا کرتے۔ دورِ طالب علمی میں، میں خود بھی تقریری مقابلوں میں حصہ لینے لگا۔ اس دوران میں اس فن کے بارے میں پڑھنا بھی شروع کیا۔
مجھے محسوس ہوا کہ اردو زبان میں اس موضوع پر بہت کم لکھا گیا ہے۔ شورش کاشمیری کی مختصر کتاب ” فنِ خطابت‘‘ کے سوا کوئی قابل ذکر کتاب پڑھنے کو نہ ملی۔ میں نے سوچا کہ مجھے اس موضوع پر ایک کتاب لکھنی چاہیے۔ میں نے مواد جمع کیا اور لکھنا شروع کیا۔ اس عرصے میں ڈاکٹر ظہور احمد اظہر کی ”خطابتِ نبوی‘‘ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ کتاب کا آغاز تو ہو گیا‘ لیکن میں آغاز ہی کر سکا۔ گردش لیل و نہار نے اسے بھی ناتمام خواہشات کی فہرست میں شامل کر دیا۔ برسوں بعد علامہ عنایت اللہ گجراتی نے ” لذتِ فریاد‘‘ کے عنوان سے اس موضوع پر کتاب مرتب کی اور مجھے اس کا دیباچہ لکھنے کو کہا۔ یہ میرے لیے سعادت کی بات تھی مگر میں اس کی بھی تکمیل نہ کر سکا۔ انہوں نے اس موضوع پر لکھے میرے ایک کالم کو اس کتاب کا دیباچہ بنا دیا۔
یہ طویل پسِ منظر، میں نے اس لیے بیان کیا کہ خطابت کو میں نے ایک سنجیدہ موضوع سمجھتے ہوئے، اس بارے میں سوچا بھی اور اپنے عہد کے نامور خطبا، مقررین اور واعظین کے خطبات، تقاریر اور مواعظ سنے بھی۔ میں بتا سکتا ہوں کہ ایک اچھی تقریر کیا ہوتی ہے اور ایک اچھے خطیب کے لیے سامعین کی نفسیات سے آشنائی کتنی ضروری ہے۔ سید عطا اللہ شاہ بخاری کہا کرتے تھے کہ میں اپنے موضوع کا انتخاب سامعین کے چہرے دیکھ کر کرتا ہوں۔
ایک اچھے مقرر کو معلوم ہوتا ہے کہ سامعین کو اس کی تقریر میں کتنی دلچسپی ہے۔ اچھا خطاب مختصر اور جامع ہوتا ہے۔ اچھا مقرر طویل خطاب سے ہمیشہ گریز کرتا ہے کہ اس کی افادیت لمحہ بہ لمحہ کم ہوتی جاتی ہے۔
قومی اسمبلی کے بجٹ سیشن میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف صاحب کو ایک موقع ملا کہ وہ اس معزز ایوان کے سامنے خود کو متبادل قائدکے طور پر پیش کرتے۔ ان کے خطاب کی طوالت نے اس موقع کو ضائع کر دیا۔ یہ ایک ایسی تقریر ثابت ہوئی جو ایوان پر کوئی اثر چھوڑ سکی نہ عامۃ الناس پر۔ حکومت کے ساتھ ایک معاہدے کے نتیجے میں ان کو بولنے کی مکمل آزادی میسر رہی۔ افسوس کہ وہ اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے۔
شہباز شریف صاحب کو ایک گھنٹے سے زیادہ تقریر نہیں کرنی چاہیے تھی۔ یہ تین نکاتی خطاب ہوتا۔ پہلا‘ وہ بجٹ پر اپنے اعتراضات کو بیان کرتے۔ دوسرا‘ وہ اپنی جماعت کی طرف سے اصلاحات تجویز کرتے۔ تیسرا‘ وہ ملکی سیاسی صورت حال پر اپنا مؤقف بیان کرتے۔ وہ مجوزہ کمیشن کی آئینی و قانونی حیثیت پر گفتگو کرتے۔ وہ اگر نواز شریف صاحب کے بیانیے پر کھل کر بات نہیں کر سکتے تھے تو معیشت کے بارے میں ن لیگ کا موقف جاندار انداز میں پیش کرتے۔ یہ سب کچھ نپا تلا ہوتا اور اس میں الفاظ کی معیشت‘ (Economy of words) کا لحاظ رکھا جاتا۔ وہ لمحہ آنے سے پہلے جب اکتاہٹ اپنا قدم رکھتی، ان کی تقریر کو ختم ہو جانا چاہیے تھا۔
اس ایوان کی اہمیت اسی وقت ثابت ہو گی‘ جب حزبِ اختلاف بھی اس کی حرمت کے بارے میں سنجیدہ ہو۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ دونوں گروہوں کو اس کا اندازہ ہو گیا ہے‘ اور دو دن سے قومی اسمبلی میں نسبتاً سکون ہے۔ اس کو قابلِ ذکر ادارہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے ارکان اپنے طرزِ عمل سے اس کی افادیت ثابت کریں۔ یہ کام مختصر اور پر مغز تقریروں ہی سے ممکن ہو گا۔
اس حوالے سے فواد چوہدری صاحب کی یہ تجویز قابلِ غور ہے کہ کوئی تقریر پون گھنٹے سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ اس وقت کو بڑھایا جا سکتا ہے‘ مگر اس کی تحدید لازم ہے۔ اس میں خود اراکین کا بھلا ہے۔ طوالتِ کلام کے ساتھ دراصل وہ خود اپنی ساکھ کو بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ کوئی جتنا بولتا ہے، اس کی بصیرت اور علم‘ دونوں طشت از بام ہوتے جاتے ہیں۔ زیادہ تر وہ اپنے لیے جگ ہنسائی ہی کا سامان کرتا ہے۔
یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ قائد ایوان یا قائد حزبِ اختلاف کی باتیں لوگ تفریح کے لیے نہیں سنتے۔ وہ اس سے کچھ اخذ کرنا چاہتے ہیں۔ اگر بے مغز الفاظ کی تکرار ہو تو اس سے صرف اکتاہٹ جنم لیتی ہے۔ شہباز شریف صاحب کا خطاب ان سب لوگوں کے لیے چشم کشا ہونا چاہیے جو خود کو عطا اللہ شاہ بخاری کا نقشِ ثانی سمجھتے ہیں۔
لوگ شاہ صاحب کی طویل تقاریر شوق سے سنتے تھے‘ لیکن اپنے سامعین پر ان کا تبصرہ بہت حقیقت پسندانہ تھا۔ وہ کہا کرتے: ‘تم کانوں کے عیاش ہو۔ تقریریں میری سنتے ہو اور ووٹ مسلم لیگ کو دیتے ہو‘۔ اب اگر کانوں کی عیاشی کا سامان بھی نہ ہو تو طویل خطاب کا انجام سمجھ جانا چاہیے۔