یہ اکتوبر 2002تھا۔ جیو ٹی وی کی ٹرانسمیشن کے آغاز کو صرف چند ہفتے ہوئے تھے۔ جیو کے رپورٹرز اور کیمرہ پرسن کسی سرکاری تقریب یا سرکاری دفتر میں کوریج کے لئے پہنچتے تو انہیں مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا۔ کئی دفعہ انہیں کوریج سے روک دیا جاتا۔ جب ہم اعلیٰ حکومتی شخصیات سے پوچھتے کہ آپ نے خود پرائیویٹ ٹی وی چینل شروع کئے ہیں تو ہماری حوصلہ شکنی کیوں کرتے ہیں؟ وہ کہتے آپ نے اپنا ٹرانسمیشن سینٹر پاکستان کے بجائے دبئی میں کیوں بنایا ہے؟ ہم کہتے کہ ریاست اور اہلِ صحافت میں اعتماد کا فقدان ہے۔ جیو ٹی وی کو چند ہفتوں کے لئے ٹرانسمیشن کی اجازت ملتی اور بار بار اس اجازت کی تجدید کرانا پڑتی تھی جس سے یہ واضح تھا کہ پرویز مشرف کی حکومت آزادی صحافت پر یقین نہیں رکھتی تھی۔ وہ ڈیمو کریسی کو بھی کنٹرول میں رکھنا چاہتے تھے اور میڈیا کو بھی۔ 10اکتوبر 2002کو عام انتخابات ہونے والے تھے۔ ہم نے ان انتخابات کے نتائج پاکستان ٹیلی وژن سے پہلے عوام تک پہنچانےکی تیاری کر لی۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک ٹی وی چینل ریاستی اداروں کے منصوبوں کے لئے بہت بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔
10اکتوبر کی رات ہم نے پاکستان بھر کے شہروں میں جیو اور جنگ کے نمائندوں کی مدد سے پریذائیڈنگ افسران کی طرف سے الیکشن کمیشن کو بھجوائے جانے والے نتائج حاصل کر کے نشر کرنا شروع کئے تو ہر طرف کھلبلی مچ گئی۔ ہم پی ٹی وی سے بہت پہلے نتائج سامنے لا رہے تھے۔ ہم نے الیکشن کمیشن سے حاصل کردہ دستاویزات کی روشنی میں ایسے کئی امیدواروں کی کامیابی کا اعلان کیا جن کو پی ٹی وی نے ہروا دیا۔ جیو کی وجہ سے مشرف حکومت بغیر کسی روک ٹوک اور خوف کے انتخابی نتائج کو تبدیل نہ کر سکی اور مسلم لیگ(ق) تمام تر ریاستی سرپرستی کے باوجود صرف 126نشستیں حاصل کر سکی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو 81اور متحدہ مجلس عمل کو 63نشستیں ملیں۔ مسلم لیگ(ن) کے حصے میں 19، ایم کیو ایم کے حصے میں 17اور نیشنل الائنس کے حصے میں 16نشستیں آئیں۔
چاند ستارے کے نشان پر 21آزاد امیدوار جیتے۔ ان آزاد امیدواروں، ایم کیو ایم اور نیشنل الائنس کو ملا کر بھی مسلم لیگ(ق) کے لئے اپنا وزیراعظم لانا مشکل ہو گیا۔ اس صورتحال میں نوابزادہ نصراللہ خان نے مولانا فضل الرحمان کو وزیراعظم بنوانے کیلئے جوڑ توڑ شروع کر دیا۔ متحدہ مجلس عمل کے سربراہ مولانا شاہ احمد نورانی نے پیپلز پارٹی سے رابطہ کیا اور پیشکش کی کہ اگر پیپلز پارٹی ساتھ دے تو سندھ میں اپنی حکومت بنا سکتی ہے، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں مشرف مخالف اتحاد کی مخلوط حکومت بن سکتی ہے اور مرکز میں بھی مخلوط حکومت بن سکتی ہے اور یہ حکومت محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی جلا وطنی ختم کرا دے گی۔ آصف علی زرداری اڈیالہ جیل میں بند تھے۔ وہ مولانا فضل الرحمان کو وزیراعظم بنانے پر تیار تھے لیکن آخری فیصلہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے کرنا تھا۔ انتخابی نتائج گیارہ اکتوبر کی رات تک مکمل ہو گئے لیکن کئی ہفتوں تک جنرل پرویز مشرف اپنی مرضی کا وزیراعظم نہ بنا سکے۔
یہی وہ دن تھے جب جیو ٹی وی پر کیپٹل ٹاک شروع ہوا اور پہلے پروگرام کا موضوع تھا ’’کون بنے گا وزیراعظم؟‘‘۔ اس پہلے پروگرام کے لئے ہم نے مخدوم امین فہیم، میر ظفر اللہ جمالی اور مولانا فضل الرحمان کو دعوت دی لیکن نوابزادہ نصراللہ خان کا خیال تھا کہ مولانا فضل الرحمان اور مخدوم امین فہیم کو آمنے سامنے نہ لایا جائے۔ انہیں یقین تھا کہ ایم ایم اے اور پیپلز پارٹی میں اتحاد ہو جائے گا۔ ان کی تجویز پر مولانا فضل الرحمان کی جگہ مولانا شاہ احمد نورانی صاحب اس پروگرام میں تشریف لائے۔ سب سے پہلے کیپٹل ٹاک میں مولانا شاہ احمد نورانی، مخدوم امین فہیم اور میر ظفر اللہ جمالی کی گفتگو ریکارڈ کر کے کیسٹ بذریعہ ہوائی جہاز دبئی بھیجی گئی اور جب یہ پروگرام نشر ہوا تو پہلی دفعہ لوگوں کو پتہ چلا کہ اتنے دن گزرنے کے باوجود وزیراعظم کیوں نہیں بن سکا۔ پیپلز پارٹی اور ایم ایم اے میں اتحاد کا فارمولا طے نہ پا سکا اور 21نومبر 2002کو میر ظفر اللہ جمالی 172ووٹ لے کر وزیراعظم بن گئے۔ مولانا فضل الرحمان کو 89اور پیپلز پارٹی کے شاہ محمود قریشی کو 70ووٹ ملے۔
نوابزادہ نصراللہ خان اور مولانا شاہ احمد نورانی کی تجویز مان لی جاتی تو مولانا فضل الرحمان 2002میں وزیراعظم بن سکتے تھے اور پرویز مشرف کا اقتدار صرف پنجاب تک محدود ہو جاتا۔ جمالی صاحب کو وزیراعظم بنانے کے لئے مشرف کو پیپلز پارٹی پیٹریاٹ بنانا پڑی اور مولانا اعظم طارق سے بھی ووٹ مانگنا پڑا۔ 23جون 2019کو کراچی میں مولانا شاہ احمد نورانی کی برسی کے ایک بڑے اجتماع کو اس خاکسار نے بتایا کہ 2002میں پیپلز پارٹی نے مولانا فضل الرحمان کا ساتھ نہیں دیا تھا لیکن عمران خان نے مولانا صاحب کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ ڈالا تھا۔ اس برسی کے اجتماع کی صدارت مولانا فضل الرحمان کر رہے تھے۔
ان کے دائیں طرف کیپٹن (ر) محمد صفدر اور بائیں طرف رضا ربانی تشریف فرما تھے۔ 2018کے صدارتی الیکشن میں بھی پیپلز پارٹی نے مولانا فضل الرحمان کو ووٹ نہیں ڈالا۔ پیپلز پارٹی نے اعتزاز احسن کو اپنا امیدوار بنایا اور مسلم لیگ(ن) نے مولانا فضل الرحمان کی حمایت کی۔ تحریک انصاف کے ڈاکٹر عارف علوی کے 352ووٹوں کے مقابلے پر مولانا فضل الرحمان نے 184اور اعتزاز احسن نے 124ووٹ حاصل کئے۔ اس صدارتی الیکشن کو ابھی ایک سال نہیں ہوا اور اب پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) نے مل کر مولانا فضل الرحمان کو حکومت کے خلاف آل پارٹیز کانفرنس کی سربراہی سونپ دی۔ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں نے اے پی سی کی تاریخ تبدیل کرانے کی کوشش کی لیکن مولانا فضل الرحمان نے دونوں پر واضح کیا کہ اے پی سی 26جون کو ہو گی۔ اس اے پی سی میں مسلم لیگ(ن) ایک دفعہ پھر مولانا فضل الرحمان کے زیادہ قریب نظر آئی۔
پیپلز پارٹی کی طرف سے وزیراعظم عمران خان کے لئے ’’سلیکٹڈ‘‘ کا لفظ بڑے فخر سے استعمال تو کیا جاتا ہے لیکن جب مولانا فضل الرحمان بند کمروں میں کہتے ہیں کہ ’’سلیکٹڈ‘‘ پارلیمنٹ سے استعفیٰ دینے کے بارے میں کیا خیال ہے تو پیپلز پارٹی والے لمبی لمبی وضاحتیں دینے لگتے ہیں۔ بہرحال اپوزیشن جماعتیں بظاہر متحد نظر آ رہی ہیں اور بہت بڑے بڑے دعوے کر رہی ہیں لیکن اندر سے یہ ایک نہیں ہیں۔ حکومت بھی اے پی سی کے اعلانات کا مذاق اڑا رہی ہے لیکن اندر سے خوفزدہ ہے۔ آپ یہ سن کر حیران نہ ہوں کہ مولانا فضل الرحمان کو پیغام بھیجا گیا ہے کہ آپ کیساتھ واقعی زیادتی ہوئی ہے ہمیں معاف کر دیں اور مل جل کر سسٹم چلانے کا راستہ تلاش کریں۔ مولانا نے پیغام بر کا شکریہ ادا کیا اور بڑی نفاست سے جواب میں کہا کہ کوئی میرے ساتھ آئے نہ آئے میں تو اسلام آباد کی طرف دھرنے کے لئے آ رہا ہوں، روک سکو تو روک لو۔
پیپلز پارٹی کی قیادت قومی اسمبلی میں تقریریں تو بہت زور دار کر رہی ہے لیکن کنفیوژن کا یہ عالم ہے کہ آدھی پارٹی رضا ربانی کو چیئرمین سینیٹ بنوانا چاہتی ہے اور آدھی پارٹی سلیم مانڈوی والا کے ساتھ ہے۔ آدھی پارٹی مولانا فضل الرحمان کے ساتھ دھرنے میں جانا چاہتی ہے آدھی پارٹی کو دھرنے سے سسٹم خطرے میں نظر آتا ہے لیکن آصف علی زرداری اس مرتبہ مولانا فضل الرحمان کے ساتھ ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ ایک سوراخ سے اپنے آپ کو تیسری چوتھی مرتبہ ڈسوانا کوئی عقل مندی نہیں، بہتر ہے اس مرتبہ کسی اور پر نہیں مولانا فضل الرحمان پر اعتبار کر لیا جائے۔