کیا مذہب کو ایک بار پھر سیاست کی بھینٹ چڑھایا جائے گا؟ وہ سیاست جو اقتدار کی کشمکش کا دوسرا نام ہے۔
اے پی سی کا اعلامیہ میرے سامنے رکھا ہے۔ یہ سیاسی مطالبات کی ایک طویل فہرست ہے۔ اتفاق اور عدم اتفاق سے قطع نظر،یہ مطالبات سیاسی عمل کا حصہ ہیں اور اس فہرست پر اصولی اعتراض نہیںکیا جا سکتا۔ ایک مطالبہ البتہ چونکا دینے والا تھا۔ حکومت سے یہ کہا گیا ہے کہ وہ مذہب کے خلاف معاندانہ رویے پر معافی مانگے۔ اعلامیہ پڑھ کر، میں اس سوچ میں ہوں کہ گزشتہ دس ماہ میں حکومتِ وقت نے وہ کون سے اقدامات کیے ہیں جو مذہبی دشمنی پر محمول کیے جا سکتے ہیں؟
دقتِ نظر کے ساتھ ،اس دورپر نظر ڈالنے کے باوجود،میں کوئی ایک ایساحکومتی فیصلہ تلاش نہیں کر سکا جسے مذہب مخالف قرار دیا جا سکے۔ عمران خان صاحب کی ایک تقریر مذہبی حوالے سے زیرِ بحث رہی لیکن اس پر بھی یہ اعتراض روا نہیںہوتا۔ پہلی بات یہ کہ اس کا تعلق ،کسی حکومتی اقدام سے نہیں تھا۔ دوسرا یہ کہ مسئلہ محض اسلوبِ بیان کا تھا۔ مجھ سمیت بہت سے لوگوں نے توجہ دلائی کہ مذہبی معاملات پر گفتگو کرتے وقت خان صاحب کو الفاظ کے انتخاب میں محتاط رہنا چاہیے۔ وفاق المدارس کے ناظمِ اعلیٰ مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے اس پر ایک مضمون لکھ کر علما کی طرف سے انذار کا حق ادا کر دیا۔ تیسرا یہ کہ اسے زیادہ سے زیادہ سہو کہا جا سکتا ہے۔ یہ کسی طور مذہب کے باب میں معاندانہ رویہ نہیں۔ پھر یہ بات اس لیے بھی عجیب ہے کہ جو آدمی ریاستِ مدینہ کی بات کرتا ہو، اس کی حکومت کو مذہب دشمن قرار دیا جائے۔
مولانا فضل الرحمن صاحب اگر اس گستاخی کو معاف فرمائیں تو یہ مطالبہ دراصل عوام کے مذہبی جذبات کے استحصال کے سوا کچھ نہیں۔ عامۃ الناس کے بارے میں تاثر ہے کہ مذہب سے جذباتی وابستگی رکھتے ہیں۔ کسی سیاسی تحریک میں اگر مذہب کا تڑکا لگا دیا جائے تو اسے مقبول بنانے میں دیر نہیں لگتی۔ پاکستان میں یہ حربہ 1953ء سے آزمایا جا رہا ہے۔ علی عثمان قاسمی نے 1953ء میں اٹھنے والی تحریکِ ختمِ نبوت کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنی عالمانہ تصنیف میں بتایا ہے کہ اس تحریک کا اُس وقت کی سیاسی کشمکش سے کیا تعلق تھا۔ مولانا مودودی جیسی مذہبی شخصیت نے بھی اس تحریک سے الگ رہنے کا فیصلہ کیا تو یقیناً یہ کشمکش اور اس کا پس منظر بھی ان کے سامنے تھے۔
سیاست کے لیے مذہب کے استعمال کی دوسری بڑی مثال 1977ء کی تحریکِ نظامِ مصطفیٰ ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ انتخابی دھاندلی کے خلاف اور نئے انتخاب کے مطالبے کے لیے برپا ہوئی۔ اسے جمعیت علمائے پاکستان کے رفیق احمد باجوہ نے تحریکِ نظامِ مصطفیٰ کا نام دے دیا‘ اور یوں اسے مذہبی بنا دیا گیا۔ اس کے بعد ہی لوگ جان دینے کے لیے آمادہ ہوئے تھے۔ اسی طرح بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک اٹھی تو اسے اسلام میں عورت کی حکمرانی کا مسئلہ بنا دیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن اس تحریک میں شامل نہیں تھے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ ان دنوں پیپلز پارٹی کے سیاسی اتحادی تھے۔ مذہبی سیاست کا تادمِ تحریر آخری مظہر نواز حکومت کے خلاف فیض آباد دھرنا تھا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے نے واضح کر دیا کہ اس کا تعلق بھی مذہب سے نہیں تھا۔
اے پی سی کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں، ان کے مطابق بلاول بھٹو نے اس مطالبے کو اعلامیے کا حصہ بنانے کی مخالفت کی۔ اس نوجوان سیاست دان نے جو موقف اختیار کیا، وہ اصولی تھا اور اخلاقی تقاضوں کے مطابق بھی۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی کے خلاف بھی مذہب کا کارڈ استعمال کرنے کے مخالف ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک مسلم معاشرے میں اس سے بڑا ظلم کوئی نہیں کہ چند دنیاوی مفادات کے لیے لوگوں کے مذہبی تشخص اور دین سے وابستگی کو مشتبہ بنایا جائے۔ قمر زمان کائرہ صاحب کا یہ کہنا بھی بالکل درست تھا کہ سیاسی جماعتوں کو موجودہ حکومت کے خلاف وہ کردار ادا نہیں کرنا چاہیے جو کل تحریک لبیک نے سابقہ حکومت کے خلاف استعمال کیا۔
اختلاف کے باوصف، مو لانا فضل الرحمن اس نکتے کو کیوں اعلامیہ کا حصہ بنانے پر مصر تھے؟ واضح ہے کہ کل اگر وہ دینی مدارس یا اپنے حلقے کو حکومت کے خلاف متحرک کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے کوئی جواز چاہیے۔ جواز بھی مذہبی ہونا چاہیے۔ پیپلز پارٹی نے تو کھل کر مخالفت کی مگر نون لیگ خاموش رہی۔ شہباز شریف صاحب کو اس معاملے میںکھل کر پیپلز پارٹی کا ساتھ دینا چاہیے تھا۔ کل یہ کارڈ ان کے خلاف استعمال ہو چکا۔ انہیں تو اس کی سنگینی کا اندازہ ہونا چاہیے تھے۔
مولانا فضل الرحمن خود کو جمعیت علمائے ہند کا وارث کہتے ہیں اور دیوبند کو مذہبی کے بجائے ایک سیاسی تحریک سمجھتے ہیں۔ جمعیت نے، بالخصوص 1920ء کے بعد، ہمیشہ غیر مذہبی سیاست کی۔ یہ حضرات مولانا ابوالکلام کو بھی اپنے اکابرین میں شمار کرتے ہیں۔ انہوں نے بھی، ابتدائی دور کے بعد، مذہب کی بنیاد پر سیاست نہیں کی۔ قیامِ پاکستان سے پہلے ان کا مسلم لیگ پر ایک اعتراض یہ بھی رہا کہ وہ مذہبی سیاست کرتی ہے۔ مولانا اگر صحیح معنوں میں جمعیت علمائے ہند کے وارث ہیں تو ان کی سیاست کو بھی سیکولر ہونا چاہیے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ بالفعل وہ سیکولر سیاست ہی کرتے ہیں مگر حسبِ ضرورت مذہب کو بھی سیاسی عمل کا حصہ بنا دیتے ہیں۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟
واقعہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے دس ماہی نامۂ اعمال میں اتنا کچھ درج ہے کہ اس کے خلاف تحریک چلانے کے لیے مذہب کو استعمال کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ دور سیاسی و معاشی بد حواسوں کی طویل داستان ہے۔ اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ عوام مہنگائی کے ہاتھوں تنگ ہیں جس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کیا وہ ان جماعتوں پر تکیہ کر سکتے ہیں جو بطور متبادل ان کے سامنے ہیں؟ اگر یہ جماعتیں عوام کو یہ باور کرا دیں گی کہ وہ بہتر متبادل ہو سکتی ہیں تو عوام اٹھ کھڑے ہوں گے۔ اس کے لیے مذہب کو استعمال کرنے کی ضرورت نہیں۔
اہلِ مذہب کو سمجھنا چاہئے کہ عوام کا سیاسی شعور ماضی کے مقابلے میں بہت بہتر ہو چکا ہے۔ اگرچہ اب بھی مذہبی معاملات میں لوگوں کے جذبات بھڑکائے جا سکتے ہیں لیکن مذہب کا سیاسی استعمال، شاید اس بار اتنا آسان نہ ہو۔ اس کے دو اسباب ہیں۔ ایک یہ کہ عوام کی بڑی تعداد مذہب اور سیاست کا باہمی تعلق اچھی طرح جان چکی ہے۔ انہیں معلوم ہوتا جا رہا ہے کہ سیاست میں مذہبی اقدار کے فروغ اور مذہب کے نام پر سیاست میں کیا فرق ہے؟ دوسرا یہ کہ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں کا پس منظر بھی ان کے سامنے ہے اور مذہب کے نام پر اٹھائی گئی تحریکوں کا بھی۔ انہیں معلوم ہے کہ ان تحریکوں سے ملک کو کوئی فائدہ پہنچا نہ مذہب کو۔
پیپلز پارٹی اس پر تحسین کی مستحق ہے کہ اس نے سیاسی مخالفین کے خلاف مذہب کے استعمال کی مخالفت کی۔ نون لیگ کی خاموشی نے واضح کیا کہ اس جماعت کی سیاسی قیادت کتنی الجھی ہوئی اور بے سمت ہے۔ یہ بات بہرحال اب اے پی سی کے اعلامیے کا حصہ ہے۔ گویا سب جماعتیں اس سے اتفاق کر رہی ہیں۔ اگر آنے والے دنوں میں ایک بار پھر اہلِ مذہب کے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہے کہ تو یہ ایک المیہ ہو گا۔
میں امید کرتا ہوں کہ اے پی سی کی قیادت نے اسے اعلامیے کا حصہ تو بنایا ہے لیکن اُن کی تحریک سیاسی اور غیر مذہبی رہے گی۔ اسی میں سب کا بھلا ہے۔ سب سے زیادہ مذہب کا۔