پاکستان نے گذشتہ ہفتے امریکی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بین الاقوامی مذہبی آزادی کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس رپورٹ میں پاکستان سے متعلق حصہ ’غیر مصدقہ اور تعصب پر مبنی دعوؤں‘ پر مشتمل ہے۔
جمعے کے روز پاکستانی وزارتِ خارجہ سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’پاکستان اس نوعیت کی رپورٹس کی تائید بالکل نہیں کرتا جن میں خود مختار ممالک کے اندرونی معاملات پر رائے زنی کی گئی ہو۔‘
پاکستان نے اس رپورٹ کے مندرجات کی انتہائی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی معاشرے میں مختلف مذاہب اور تقافتوں سے تعلق رکھنے والے افراد پرامن انداز میں بستے ہیں جن کے حقوق کا تحفظ ملک کا آئین باخوبی کرتا ہے جبکہ مستعد نظام عدل لوگوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے۔
واضح رہے کہ امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے 21 جون کو مذہبی آزادی کے حوالے سے بین الاقوامی رپورٹ جاری کی تھی۔
اس رپورٹ میں پاکستان میں مذہبی آزادی کی صورتِ حال کو مجموعی طور پر منفی قرار دیتے ہوئے تجویز دی گئی ہے کہ سنہ 2019 میں پاکستان کو بین الاقوامی مذہبی آزادی کے ایکٹ کے تحت ‘خصوصی تشویش کا حامل ملک’ قرار دیا جائے۔
یاد رہے کہ نومبر 2018 میں امریکی محمکہ داخلہ نے پہلی مرتبہ پاکستان کو ‘خصوصی تشویش کا حامل ملک’ قرار دیا تھا لیکن امریکی محکمہ داخلہ نے پاکستان پر کسی بھی طرح کی پابندیاں عائد نہ کرنے کا فوری حکم نامہ جاری کیا تھا۔
’یو ایس سی آئی آر ایف تجویز کرتا ہے کہ امریکی محکمہ داخلہ ایک بار پھر پاکستان کو خصوصی تشویش کا حامل ملک قرار دے کر پابندیوں سے استثنا کو ختم کر دے۔‘
مذہبی آزادی کی رپورٹ برائے سنہ 2019 جنوری 2018 سے دسمبر 2018 کے دوران پیش آئے واقعات کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے۔
رپورٹ میں پاکستان کے بارے میں کیا کہا گیا ہے؟
رپورٹ کے مطابق اگرچہ پاکستان نے مذہبی آزادی کو فروغ دینے اور مذہبی بنیادوں پر عدم رواداری کی روک تھام کے لیے چند ایک مثبت اقدام لیے ہیں تاہم سنہ 2018 میں ’عمومی طور پر پاکستان میں مذہبی آزادی کا رجحان منفی نوعیت کا رہا ہے۔‘
اس رپورٹ کے مطابق سنہ 2018 کے دوران انتہا پسند گروہوں اور دیگر افراد نے مذہبی اقلیتوں بشمول ہندو، عیسائیوں، سکھوں، احمدیوں اور شیعہ مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک برقرار رکھا اور ان پر حملے جاری رکھے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت پاکستان مذہبی اقلیتوں کو مناسب تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے اور اس نے مذہبی آزادی کے بارے میں ایک منظم اور مسلسل انداز میں قابل اعتراض خلاف ورزیوں کا ارتکاب کیا ہے۔
‘یہ معاملات وزیر اعظم عمران خان کی نئی حکومت کی طرف سے چند ایک ممکنہ اصلاحات کے بارے میں رجائیت پسندی کے باوجود بھی پیش آئے ہیں۔’
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مختلف سیاسی پارٹیوں اور سرکردہ سیاست دانوں نے سنہ 2018 کے عام انتخابات تک مذہبی اقلیتوں کے خلاف عدم روادری کے عنصر کو فروغ دیا۔
’مثال کے طورپر انتہا پسند مذہبی جماعتوں کا سیاسی منظر نامے میں داخلہ انتخابی عرصہ کے دوران مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز تقریروں اور دھمکیوں کا سبب بنا رہا ہے۔ علاوہ ازیں توہینِ رسالت کے بارے میں سخت ملکی قوانین کا اطلاق غیر مسلموں، شیعہ مسلمانوں اور احمدیوں کے حقوق کی پامالی کا سبب بنا ہے۔‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بہت سے افراد جن پر توہین رسالت کا الزام لگا ہے کبھی بھی عدالت تک نہیں پہنچ سکے کیونکہ فوری تشدد کرنے والوں نے سنہ 1990 کے بعد سے اب تک 62 افراد کو قتل کیا جبکہ بلوے اور ماورائے عدالت قتل یا تشدد کے چند ایک واقعات پر ہی مقدمات قائم ہوئے ہیں۔
[pullquote]عمران خان: قول و فعل میں تضاد؟[/pullquote]
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سنہ 2018 کے کامیاب انتخابات میں وزیرِ اعظم عمران خان اور ان کی سیاسی جماعت، پاکستان تحریک انصاف کے اراکین نے توہین رسالت کے قوانین کا پرزور انداز میں دفاع کیا۔
دوسری جانب رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ’(انتخابی) مہم کے دوران متنازع زبان کے استعمال کے باوجود وزیر اعظم عمران خان نے نومبر 2018 میں بہت سے لوگوں کو اس وقت حیران کر دیا جب انہوں نے قوم سے خطاب کے دوران سپریم کورٹ کے طرف سے آسیہ بی بی کی بریت کا دفاع کیا اور اس کو قتل کر دینے کے بارے میں انتہا پسند مبلغین کے مطالبے کو رد کر دیا۔‘
رپورٹ کے مطابق ان کی انتظامیہ نے ان مبلغین کے خلاف اس وقت براہ راست کارروائی کی جب انھوں نے ایک پر تشدد احتجاج منعقد کیا اور سپریم کورٹ کے ججوں کی سلامتی خطرے سے دوچار کر دیا۔
ہزاروں کی تعداد میں احتجاجی افراد کو گرفتار کر لیا گیا اور ان کے قائد خادم حسین رضوی پر، جنھوں نے گزشتہ دہائی کے اندر مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز مہم کو قیادت فراہم کی تھی، دہشت گردی اور بغاوت کا مقدمہ قائم کر دیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نومبر میں سکھوں کے مذہبی پیشوا کے 549 جنم دن کے موقع پر حکومت پاکستان نے 3500 سکھوں کو ان کے تاریخی مندروں اور گردواروں کی زیارت کرنے اور مذہبی رسومات ادا کرنے کے لیے ویزے دیے۔
’یہ عمل گذشتہ برسوں کی نسبت یکسر مختلف تھا کیونکہ حکومت پاکستان نے انڈیا کے سکھ شہریوں کو مذہبی زیارتوں کے لیے اگر کوئی ویزے جاری کیے تھے تو ان کی تعداد کم ہی تھی۔‘
رپورٹ میں آسیہ بی بی کی رہائی مشال خان قتل میں ہونے والی پیش رفت، اقلیتوں کے نمائندوں کا براہ راست انتخاب میں حصہ لینے اور جیتنے سمیت کئی دیگر معاملات کو مثبت تبدیلی کے طور پر دیکھا گیا ہے۔
[pullquote]پاکستان کیا نہیں کر پایا؟[/pullquote]
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ سنہ 2014 میں حکومت نے دہشت گردی کے بارے میں نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا تاہم عملی طور پر اس پلان کے چند ایک مقاصد پر ہی عمل کیا گیا ہے۔
’حکومت پاکستان نے مذہبی اقلیتوں کے خالف پر تشدد جرائم کا ارتکاب کرنے والے افراد کے خلاف بھی مناسب کارروائی نہیں کی۔ انتہا پسندوں کے ساتھ نمٹنے کے لیے انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں کی موجودگی کے باوجود انتہا پسندوں کی ایک بڑی تعداد کو یا تو حراست سے آزاد کر دیا گیا ہے یا وہ گرفتاری یا قانونی کارروائی سے بالکل بچ نکلے ہیں۔ اکثراوقات دہشت گرد ملزمان کی بریت کا تعلق پولیس کی تفتیش کے ناقص طریق کار سے ہوتا ہے۔‘
رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے نومبر 2018 میں بہت سے لوگوں کو اس وقت حیران کر دیا جب انہوں نے قوم سے خطاب کے دوران سپریم کورٹ کے طرف سے آسیہ بی بی کی بریت کا دفاع کیا.
علاوہ ازیں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت پاکستان نے فرقہ وارانہ اور مذہبی بنیادوں پر نفرت انگیز تقاریر کے پھیلاؤ کا مؤثر انداز میں سد باب نہیں کیا۔
مثال دیتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا کہ سنہ 2018 کے قومی انتخابات کے دوران بہت سے سیاسی امیدواروں نے مذہبی اقلیتوں کے خلاف توہین آمیز اور حقارت آمیز بیانات دیے ہیں جن کا مقصد عوامی حمایت حاصل کرنا تھا۔
[pullquote]رپورٹ میں پاکستانی حکومت کے لیے امریکی سفارشات[/pullquote]
پاکستان کی عدالت عظمیٰ کے سنہ 2014 کے فیصلے میں دیے گئے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے حکومت اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے نیشنل کمیشن تشکیل دے.
مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کے سد باب کی حوصلہ افزائی کی جائے.
توہین رسالت کے قیدیوں اور دیگر افراد جن کو ان کے مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر پابند سلاسل کیا گیا ہے رہا کرے.
توہین رسالت اور احمدی مخالف قوانین کو منسوخ کر دے اور جب تک تنسیخ کا عمل مکمل نہیں ہو جاتا توہین رسالت کو قابل ضمانت جرم بنانے کے لیے اصلاحات کا قانون بنائے، الزام عائد کرنے والوں سے شہادت طلب کرے.
اور تحقیقی ادروں کو اختیار دے کہ وہ بے بنیاد الزامات کو مسترد کر دیں اور ان پر زور دے کہ وہ موجودہ ضابطہ فوجداری کی ان دفعات کا اطلاق کرے جو دروغ حلفی اور جھوٹے الزامات کو جرم ٹھہراتی ہو.
محکمہ داخلہ کے حالیہ پروگراموں کا ایک حصہ حکومت پاکستان کی مدد کے لیے مختص کرے تاکہ وہ خطرے سے دوچار اقلیتی برادری کے قائدین کو تحفظ فراہم کر سکے.
[pullquote]’رپورٹ میں واضح امتیاز‘[/pullquote]
پاکستانی حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں انھوں نے مذہبی آزادی کے حوالے سے اپنی کوششوں سے آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس رپورٹ میں ایک واضح امتیاز یہ ہے کہ اس میں انڈیا میں موجود مذہبی اقلیتوں بشمول مسلمانوں کے باقاعدہ استحصال کے مسئلے سے صرفِ نظر کیا گیا ہے۔
جبکہ ساتھ ساتھ کہا گیا کہ امریکی رپورٹ نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں غاصبانہ قبضے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بھی نظر انداز کیا گیا ہے۔
وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ ‘پاکستان نے مغربی ممالک بشمول امریکہ سے ان ممالک میں بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا کے حوالے سے بھی اپنے خدشات کا بارہا اظہار کیا ہے۔’
یاد رہے کہ رواں ہفتے انڈیا نے بھی اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘امریکہ کو انڈیا کے اندرونی معاملات میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں’۔
[pullquote]بشکریہ بی بی سی اُردو[/pullquote]