چمٹے کی منفرد دھنوں اور بے مثال آواز کے جادو سے مداحوں کو محسور کرنے والے عظیم لوک گلوکار عالم لوہار کو مداحوں سے بچھڑے 40 برس بیت گئے۔
بے مثل و بے بدل لوک فنکار عالم لوہار یکم مارچ 1928 کو گجرات کے ایک نواحی گاؤں آچھ گوچھ میں پیدا ہوئے، انہوں نے کم عمری سے ہی گلوکاری کا آغاز کردیا تھا۔
عالم لوہار ’چمٹا‘‘ ان کی منفرد پہچان بنا، وہ گانے کے دوران لے کو برقرار رکھنے کے لیے چمٹا استعمال کرتے تھے، انہوں نے چمٹے کو بطور میوزک انسٹرومنٹ متعارف کروایا، ان کا یہ منفرد انداز ان کی خاص شناخت بن گیا ۔
’ہیر وارث شاہ‘ کے کلام نے عالم لوہار کو شہرت کی نئی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ انہوں نے ہیر وارث شاہ کو موسیقی کی 30 سے زائد اصناف میں گا کر ایسا ریکارڈ بنایا جو کہ آج بھی پنجاب کی مٹی میں خوشبو کی مانند رچا بسا ہے۔
عالم لوہار نے جُگنی سے شہرت کی نئی بلندیوں کو چھوا، ان کی گائی گئی جگنی اس قدر مشہور ہوئی کہ ان کے بعد آنے والے متعدد فنکاروں نے اسے اپنے اپنے انداز سے پیش کیا لیکن جو کمال عالم لوہار نے اپنی آواز کی بدولت پیدا کیا وہ کسی دوسرے سے ممکن نہ ہوسکا۔
جُگنی کی شہرت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس دور کی اردو اور پنجابی فلموں میں بھی جُگنی کو خصوصی طور پر شامل کیا گیا جب کہ جُگنی کی پکچرائزیشن بھی انہی پر ہوئی۔
جُگنی کے علاوہ عالم لوہار نے کئی منفرد نغمے تخلیق کیے جن میں ویر میریا جگنی، اے دھرتی پنج دریاں دی، واجاں ماریاں، دل والا دکھڑا، موڈا مار کے ہلا گئی، جس دن میرا ویاہ ہو وے گا، قصّہ سوہنی ماہیوال اور دیگر بے شمار گانے شامل ہیں۔
عالم لوہار کو سابق صدر ایوب خان نے ’شیر پنجاب‘ کا خطاب دیا، عالم لوہار کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان کی مقبولیت کے باعث ملکہ برطانیہ نے اپنی 25 ویں سالگرہ پر انہیں اپنے محل میں مدعو کیا تھا۔
لوک گلوکار عالم لوہار 3 جولائی 1979 کو اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے۔
عالم لوہار کا انتقال قصبے مانگا منڈی کے پاس ٹریفک حادثے میں ہواجس کے بعد انہیں لالہ موسیٰ میں سپردِ خاک کیا گیا۔
ان کے انتقال کے بعد حکومت پاکستان نے ایک سڑک کو بھی اس عظیم فنکار کے نام سے منسوب کیا۔
پنجاب کی شان اس گلوکار کے بیٹے عارف لوہار آج بھی اپنے والد کے فن کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔