امریکی صدر کے منصوبے

2020 ء میں امریکی صدارتی انتخابات میں کم از کم 17 مہینے باقی ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ انتخاب میں کامیابی کے لیے جامع منصوبہ بندی میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ مبصرین کے مطابق وہ گزشتہ برسوں میں اٹھائے گئے اقدامات اور منصوبوں کو پایہ ٔتکمیل تک پہنچانے کے لیے پر امید ہیں۔تمام مسائل کا ایک مثبت نتیجہ ان کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ ہر ملک خواہ وہ امریکہ کا حریف ہو یا حلیف دونوں کے پاس یہ نادر موقع ہے کہ وہ اپنے معاملات کو امریکہ کے ساتھ بڑے فیصلے لیتے ہوئے خاطرخواہ نتائج حاصل کرلیں۔پرکشش سٹریٹجک منصوبہ ساز اس وقت کو گولڈن پریڈ قرار دے رہے ہیں‘ کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ گزشتہ ادوار کے منصوبہ جات کا مثبت نتیجہ چاہتی ہے ‘تاکہ ان نتائج کے ساتھ انتخابی مہم کو کامیابی کے ساتھ چلا سکیں۔

ٹرمپ کا خیال تھا کہ زیادہ سے زیادہ دباؤ اور پابندیاںان کے حریفوں کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پردوبارہ مجبور کریں گی۔ ان کی جانب سے کئی باردعویٰ بھی کیا گیا کہ سابق صدر براک اوبامہ کے مقابلے میں انہوں نے بہتر اور جامع ایٹمی معاہدے کیے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران پر کئی پابندیاں لگائی گئیں‘چین کے ساتھ جاری تجارتی جنگ میں کئی اہم اقدامات اٹھائے گئے ‘افغانستان میں جاری 18سالہ جنگ کے حوالے سے بھی مذاکرات کے عمل کو اپنا کر پالیسیوں کو تبدیل کیا گیا‘اسی طرح شرق ِاوسط میں پالیسیوں کا ازسرنو جائزہ لیا گیا۔الغرض ٹرمپ انتظامیہ اپنی پالیسیوں کو لے کر پر اعتماد نظر آتی ہے۔ اپنی انتخابی مہم اور وعدوں کے مطابق وہ سچے رہیں گے‘ جیسا کہ انہوں نے دنیا اور اپنی قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اسلامی دنیا میں مہنگی امریکی جنگیں ختم کردیں گے‘ لیکن تہران 2020ء کے ارد گرد کے واقعات اور حالات کا انتظار کررہا ہے۔ ایرانی ابھی تک وسیع پیمانے پر بدامنی کا سامنا نہیں کررہے ۔ایرانی حکومت ‘ٹرمپ ( وائٹ ہاؤس) کے ساتھ بات چیت کے عمل کوابھی اس نقطہ نظر سے نہیں دیکھ رہی ‘جو اس کے دفاع اور قومی حاکمیت کے لیے اہم ہے۔

مبصرین کے مطابق؛ ایران 2020 ء تک ٹرمپ کی کسی بھی سیاسی خواہشات میں دلچسپی لیتاہوادکھائی نہیں دیتا۔ ایران سمجھتا ہے کہ پابندیوں کی کوئی خاص وجہ نہیں ‘ جوابی کارروائی کے سلسلے کو دیکھتے ہوئے‘ وائٹ ہاؤس نے ایران کے خلاف فوجی محاصرے پر زور دیا‘ فوجی محاصرہ قائم کرنے کا منصوبہ اب‘ بھی ایران کے خلاف محدود فوجی ہڑتال کا امکان ظاہر کیے ہوئے ہے۔چین کے صدرشی جن پنگ اپریل کے اختتام سے امریکی ‘ چین تجارت سے متعلق مذاکرات کے بعد بڑے پیمانے پر تجارتی کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں ۔

جاپان میں جی 20 کے سربراہی اجلاس میں ٹرمپ کے ساتھ بیٹھے جانے کی دعوت قبول کرنے کا فیصلہ مبصرین کی رائے کو تبدیل کرنے پر مجبور کیے ہوئے ہے۔ افسوسناک طور پر ٹرمپ شاید یہی سمجھتے ہیں کہ وہ واحد صدرہیں ‘جو بیجنگ کے ساتھ کھڑے ہوکر جامع معاہدے پر بات چیت کرتے ہیںاور بنیادی طور پر چین کے رویے کو مسترد کرتے ہیں‘ جبکہ سابق صدور اور کارپوریٹ ایگزیکٹوز اقتصادی تاخیر کے بارے میں سوچتے ہیں‘ جو بیجنگ کے ساتھ مل کر چلنے سے آئے گی ۔خطرات کے باوجود امریکی مہم کے برعکس‘ ٹرمپ نے چین کو کاروباری بدعنوانی کا ذمہ دارٹھہراتے ہوئے ‘وسیع پیمانے پر جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ ایک ہی وقت میں‘ تجارت کے معاملات کو نئی شکل دینے اور نافذ کرنے کے لیے ٹیرف پر صدر کے بھاری انحصار کا مطلب ہے کہ مذاکرات بھی بڑی سطح پر ہوں گے‘بڑے پیمانے پر دو طرفہ جانچ پڑتال ہوگی ۔مسودے کے معاہدے کو فروغ دینے اور نافذ کرنے کی کوشش میں‘ وائٹ ہاؤس نے واضح طور پر چین کی اقتصادی حاکمیت پر زور دیا کہ اب‘ بیجنگ کی حساب سے بنیادی طور بات چیت کا عمل آگے بڑھایا جا سکتا ہے ۔

دوسری طرف چین ٹیرف کے معاملے پر بھاری تجارتی رعایت حاصل کرنے کے لیے نہیں ‘بلکہ مستقبل کی منصوبہ بندیوں پر غور کر رہا ہے ۔ نہ ہی چین سٹریٹجک صنعتوں کودوسری ریاستی معاونت کے ساتھ محدود کرکے اپنی مسابقت کو کمزور بنائے گا اورنہ ہی اپنی برآمدات پر سمجھوتہ کرے گا‘ جیسا کہ امریکہ کے ساتھ چین کا سٹریٹجک مقابلہ تقریباً تمام محاذوں پر جاری ہے۔دوسری جانب چین کو چند اہم فیصلوں پر جلدی ہے۔ بشمول امریکی برآمداتی کنٹرول‘ تائیوان اور انسانی حقوق کے پابندیوں کے لیے فوجی حمایت‘ جس میں محدود تجارتی معاہدے کی قیمت سے بیجنگ مزید مستحکم ہو جائے گا۔چین بدترین حالات سے نمٹنے کے لیے تیاری کررہا ہے‘ جبکہ ٹرمپ ان معاہدوں پر پابندی کو مستحکم کرنے کے لیے غیر معمولی معاہدے پر دستخط کرچکا ہے‘لہٰذا جب بھی چین کو قرض کی ادائیگیوں‘مصنوعات کی فراہمی ‘ کرنسی کے کشیدگی اور غیر ملکی تجارتی جنگ کے سماجی انعقاد کا سامنا کرنا پڑا‘ تب بھی چین ان تمام بحرانوں کے کے لیے تیار ہے ؛ اگر‘ وائٹ ہاؤس نے اپنی ضروریات کومدنظر رکھتے ہوئے بڑے اقدامات بھی اٹھائے توچین واضح طور پرمسترد کرسکتا ہے۔

ذہن نشین رہے کہ ٹرمپ ان معاہدوں کوفی الوقت طوالت نہیں بخشنا چاہتا‘ اپنی دوبارہ انتخابی بولی کو مضبوط بنانے اور گلوبل معیشت پر غیر یقینی صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات کر رہا ہے؛‘ اگر‘ وائٹ ہاؤس اپنی بندوقوں کے زورپراثر ورسوخ کو بڑھائے گا‘ تو چین جامع منصوبہ بندی سے ٹرمپ کی 2020 ء کی انتخابی مہم جامع منصوبہ بندی سے سبوتاژ کر سکتا ہے۔یورپی یونین ٹرمپ (وائٹ ہاؤس) کے ساتھ تجارتی معاہدوں کے ساتھ امیدرکھتے ہیں‘ جو خود کار طریقے سے امریکی ٹیرف کے خطرے کو کم کر دیں گے۔ یورپی زرعی بازاروں میں زیادہ امریکی مصنوعات پائی جاتی ہیں‘یورپی یونین کے مذاکرات کے ذریعے احسن حل تلاش کرنے میں ٹرمپ کی مدد کرسکتے ہیںاوروہ امید کر رہے ہیں کہ ٹرمپ کے موجودہ کاروباری جنگوں کے اقتصادی دھواں کو محدود کردیں گے۔

امریکہ کی بہت بڑی اقتصادی اور فوجی کوشش کے ساتھ‘ ٹرمپ نے اپنے صدارت کے ساتھ اکثریت کو امریکہ کے مخالفین اور اتحادیوں کو بات چیت کے ذریعے ایک میز پر لانے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ وہ معاشی طور پر تباہ کن جنگوں کو شروع کرنے میں ناکام دکھائی دئیے ‘ تاہم معاہدوں کے مسلسل تعاقب میں‘ انہوں نے واشنگٹن میں ان کے مذاکرات کو شکل دینے کے لیے سب سے زیادہ نظریاتی اقدامات کی حوصلہ افزائی کی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے