ریاست خالصتان میں خوش آمدید

میں اس بات کا خواہشمند ہوں کہ دنیا میں نا ہی کوئی بارڈر ہو اور نا ہی کوئی روک ٹوک، پچھلے ہی دنوں میں اپنے ایک صحافی دوست کو کہہ رہا تھا کہ اس بارے میں ایک تحقیقی آرٹیکل لکھ بھیجو کہ انسان نے دوسرے انسان سے لڑنا کب شروع کیا. لڑائیوں نے کب جنگوں کی صورت اختیار کی اور جنگوں نے جدید جنگوں کے نام پر ترقی پا لی. آج کل کشمیر کے نام پر ایک اور محاز کی باتیں چل رہی ہیں. وفاقی وزیر ریلوے نے اکتوبر یا نومبر میں پاک بھارت جنگ ہونے کا عندیہ دے دیا ہے، لیکن یہ نہیں بتایا کہ اس سے پہلے کیا کچھ ہوچکا ہوگا. محترم وزیر یہ بتا بھی نہیں سکتے، لیکن بہت سے لوگ یہ جانتے ہیں کہ پس پردہ کیا کچھ ہورہا ہےاور کہاں کی پلاننگ کہاں ہورہی ہے.

خیر پلاننگ تو ہوتی رہے گی، یہ بھی کہ شائید اس پلاننگ کے نتیجے میں کہیں کچھ بہت بڑا ہونے والا ہے. مگر مجھے یہ فکر نہیں ہے، مجھے فکر اس بات کی ہے کہ یہ کون کہہ رہا ہے کہ اب ہمیں صرف کشمیر نہیں اور بھی بہت کچھ چاہیئے. یہ جو "ہمیں” ہے، اس کا تعلق آپ پاکستانیوں سے لے لیں کیونکہ پاکستان میں رہنے والے لوگ کشمیر کو اپنی شہ رگ سمجھتے ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے بھارت اس کو اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے، لیکن یہ کوئی نہیں سننا چاہتا کہ کشمیری خود کیا چاہتے ہیں. ہاں ان حقیقتوں کو اب جھٹلانا بھی انتہائی مشکل ہوچکا ہے کہ بھارت میں رہتے مسلمانوں کا رہنا اب پہلے سے زیادہ مشکل ہوتا جا رہا ہے. صرف مسلمانوں کا نہیں، بلکہ سکھ برادری ہندوتوا راج سے بہت تنگ ہے اور کافی عرصے سے ریاست خالصتان کی تحریک زور پکڑے ہوئے ہے.

ہوا یہ ہے کہ جہاں مودی سرکار نے بھارتی مقبوضہ کشمیر پر بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35-A کا نفاذ ختم کیا ہے اور پوری دنیا میں کشمیر کی آزادی کے نعرے گونجنا شروع ہوئے، وہیں بھارت میں خالصتان تحریک اور ناگا لینڈ کی آزادی کی تحریک نے بھی زور پکڑا ہے. مجھے لگتا ہے کہ اس کے بعد اب جو ہونے جا رہا ہے وہ دردناک بھی ہوسکتا ہے لیکن دلچسپ بھی ہوگا. میں اگر اچھے پہلوؤں پر روشنی ڈالوں تو مجھے ریاست خالصتان کے بننے سے بہت سی امیدیں ہیں، میں ایک پنجابی ہوں اور چاہتا ہوں کہ خالصتان جلد ہی ایک ریاست بن کر سامنے آئے اور ہم جیسوں کا، جن کا تعلق وہیں سے ہے وہ وہاں جا سکیں. فرق یہ ہوگا کہ میں اپنی مٹی پر آزاد سانس لے سکوں گا اور ریاست خالصتان سے ویزا لگوا کر چاندی گڑھ یا امرتسر ائیرپورٹ پر اتروں گا اور مٹی کو ماتھا ٹیک سکوں گا.

میں آج تک بھارت کے زیر انتظام پنجاب نہیں گیا، لیکن لدھیانہ اور امرتسر ایسے یاد آتے ہیں جیسے میرا بچپن وہاں گزرا ہو۔ فیروز پور اور جالندھر کی مٹی کی خوشبو بھی سونگھنا چاہتا ہوں اور اس مٹی کو اپنے ماتھے سے لگا کر ان لمحات کو محسوس کرنا چاہتا ہوں، میرے خواب و خیالوں میں میرا پنجاب کچھ ایسے بسا ہوا ہے۔ روز ہی کسی نا کسی بہانے سے خوشیاں مناتے پنجابی گبرو اور رنگ برنگی چولیاں پہنی مٹیاریں، لوہڑی، بسنت، بیساکھی اورہولی کے رنگ اور خوشبوئیں، سبھی مجھے اپنی جانب کھینچتے ہیں۔میں نے تو بلکہ بی بی سی ہندی سے وابسطہ اپنے ایک دوست سے یہ کہہ بھی رکھا تھا کہ کسی پنجابی صحافی سے رابطہ کروادیں تاکہ میں ان سے اپنے پنجاب کے بارے میں آن لائن بات کرسکوں. انہوں نے میرا رابطہ بھارتی جریدے انڈین ایکسپریس کے مدیر سے کروایا جن سے میری بات چل ہی رہی تھی کہ بیچ میں پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی نے پھر سر اٹھا لیا اور کہا کہ یہ انٹرویو نہیں ہوسکتا. میں نے شکر ہی کیا کیونکہ بعد میں جب میں نے سوشل میڈیا پر ان کے خیالات پڑھے اور یہ بھی کہ وہ زیادہ تر بھارتی سیکیورٹی اور دفاع کے معاملات کو کوور کرتے رہے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں.اہم کوور کرنا نہیں ہوتا، اہم وہ مجبوریاں ہوتی ہیں کہ چاندی گڑھ میں بیٹھے ایک صحافی کو بھی بھارت کی ہی لائن لینا ہوتی ہے، لندن اور کینیڈا سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا. سو جو ہوتا ہے اچھے کے لیئے ہی ہوتا ہے.

اس وقت جہاں کشمیر پر مودی کے مظالم پر بات ہورہی ہے اور آزادی کے نعرے گونج رہے ہیں وہیں ہمیں آپریشن بلیو اسٹار کے زخموں کو ہرا کرکے اور 1980 کی دہائی میں جس وقت سکھوں کی خالصتان تحریک میں جوش تھا، وہ چیزیں لکھنی چاہیئں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ بھارت میں بین المذاہب اوراقوام کے گٹھ کا دکھاوا کرکے ہندو اکثریت اپنا راج قائم رکھنا چاہتی ہے، ہم اس کو جتنا بھی جھٹلا لیں جھٹلا تو سکتے ہیں مگر بھارت میں رہتی اقلیتیں اس وقت بھارتی حکومت اور ریاست کے شدید خلاف ہیں. یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بھارت کانگریس کے زیر سایہ آج تک جس سیکولر ریپر میں اپنے عزائم بیچتا آیا ہے مودی نے اس کی کلی کھول کے رکھ دی ہے. اس لیئے مودی کم از کم کانگریس سے بہتر ہے کہ وہ جو ہے وہ سب کے سامنے ہے. سو بھارت میں افراتفری کے پیش نظر موقع ملتے ہی کشمیر میں مسلمانوں کے علاوہ خالصتان اور ناگا لینڈ جیسے کئی حصے بھارت سے الگ ہونگے اور ان تحریکوں کی بنیاد بنیادی طور پر نریندر مودی ہی اپنی جارحانہ پالیسیوں سے خود ہی رکھیں گے، کل ہی بھارتی بیوروکریٹ کا ایک کالم پڑھ رہا تھا، لکھتے ہیں کہ مودی نے کشمیر کے مسئلے کو چھیڑ کر اپنے ہی پاؤں ہر کہلاڑی چلا دی ہے، میرا خیال ہے یہ کلہاڑی چلنا ہی تھی . خیر ہم تو تیاری کریں چاندی گڑ ھ ائیرپورٹ پر لینڈ کرنے کی، آپ کو بھی ریاست خالصتان کی پر امن وادیوں میں خوش آمدید.

[pullquote]اس آرٹیکل میں درج خیالات کا تعلق لکھاری سے ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں.[/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے