آرمی چیف کی جانب سے کرپشن کے خلاف بیان کے بعد عسکری ذرائع سے یہ خبریں سامنے آئیں کہ فوج نے احتساب کے عمل کا آغاز اپنے گھر سے کیا ہے۔ کرپشن کے خلاف جوں جوں اس کہانی کی پرتیں کھل رہی ہیں توں توں نت نئے سوال بھی جنم لے رہے ہیں۔ میڈیا پر عمومی طور پر آرمی چیف کے اس عمل کو سراہے جانے کے بعد اب سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ نہ صرف میڈیا بلکہ اس ساری تحقیق کا سبب بننے والے آرمی افسران کے لواحقین بھی اپنے پیاروں کے حوالے سے اٹھنے والی افواہوں پر پریشان ہیں۔ پہلی بار ادارہ ’’ہم شہری‘‘ اس حادثے میں شہید ہونے والے لیفٹیننٹ کرنل شکیل کے بھائی کا موقف سامنے لا رہا ہے۔
اب تک سامنے آنے والی خبروں کے مطابق مبینہ طور پرسمگلنگ کے دھندے سے پیسے بنانے کے جرم میں فرنٹئیر کانسٹیبلری کے ڈی جی رہ چکے افسران اور وہاں تعینات کئی دوسرے لوگوں کو فوج سے نکالا جا چکا ہے۔ (اگر چہ آئی ایس پی آر کی جانب سے باقاعدہ اس بات کا اعلان نہیں کیا گیا تاہم ذرائع کے حوالے سے میڈیا میں سامنے آنے والی خبروں کی کوئی تردید بھی سامنے نہیں آئی۔) نکالے جانے والوں میں ایف سی کے ڈی جی میجر جنرل اعجاز شاہد کے علاوہ لیفٹینٹ جنرل عبید اللہ خٹک بھی شامل ہیں۔ میڈیا میں سامنے آنے والی چہ میگوئیوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جن تحقیقات کے نتیجے میں ان تمام لوگوں کو اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے اس کا نقطۂ آغاز وہ حادثہ تھا جو مورخہ 26-11-2014 کو کوئٹہ چمن شاہراہ پر کچلاک کے نزدیک پیش آیا۔
کرنل شکیل اور میجر یاسر سلطان جو اس کرپشن کا شکار بنے ان کی پراسرار شہادت کے اسباب پر سے پردہ بھی اٹھ سکے گا
اس حادثے میں ایک سمگل شدہ قیمتی سپورٹس کار میں موجود دو فوجی افسران شہید ہو گئے، تاہم اخبار ڈان میں اگلے روز شائع ہونے والی خبر میں اس گاڑی (یہ گاڑی اس لیے اہم ہے کہ اسی سے تحقیقات کا در وا ہوا)کا کوئی ذکر نہ تھا۔ اخبار ڈان نے اپنی ستائیس نومبر دو ہزار چودہ کی اشاعت میں ا س حادثے کے بارے میں سرکاری ذرائع کے حوالے سے جو خبر دی اس کے مطابق لیفٹیننٹ کرنل شکیل اور میجر یاسر سلطان لورا لائی میں ہونے والی پاسنگ آؤٹ پریڈ کے انتظامات مکمل کرنے کے لیے جا رہے تھے کہ کچلاک کے قریب ایک ٹرک ان کی گاڑی سے ٹکرا گیا۔ اس حادثے میں کرنل شکیل موقع پر دم توڑ گئے جب کہ میجر یاسر سلطان سی ایم ایچ میں جان کی بازی ہار گئے۔ اس خبر میں کہیں اس بات کا شائبہ بھی موجود نہ تھا کہ پاک فوج کے یہ دونوں سپوت کسی سرکاری ڈیوٹی پر نہیں تھے اور نہ ہی اس میں کسی تیسرے شخص کی گاڑی میں موجودگی اور اس کے زخمی ہونے کی بات تھی۔ سڑکوں پر آئے روز ہونے والے حادثات کی مانند اسے بھی ایک روڈ ایکسیڈنٹ قرار دے کر شہداء کی میتیں تدفین کے لیے روانہ کر دی گئیں۔
لیفٹیننٹ کرنل شکیل کی تدفین کے لیے راول پنڈی کا انتخاب کیاگیا۔ کرنل شکیل کو مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ (بطور شہید) پنڈی میں دفنایا گیا۔ پاک فوج کے ایک دستے نے انہیں سلامی دی اور ان کا تابوت پاکستان کے پرچم میں لپیٹا گیا۔(یہاں اس بات کا ذکر اس لیے تفصیل سے کیا گیا ہے کہ مختلف ذرائع سے اخبارات میں اس بات کو اچھالنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ شہدا کے اہل خانہ نے آرمی چیف کو خط لکھ کر دونوں کو ’’شہید‘‘ قرار دینے کی درخواست کی تھی۔ شہید کرنل شکیل کے بھائی نے ’’ہم شہری‘‘ سے بات کرتے ہوئے اس بات کو بہتان قرار دیا اور بتایا کہ ان کی جانب سے اس سلسلے میں ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا۔ان کے مطابق ایسی بات کرنے کا مقصد ایک جانب تو شہدا کے خون اور ان کے لواحقین پر ظلم کے مترادف ہے تو دوسری جانب اس سے ان تحقیقات کو متاثر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو اس حادثے کے سلسلے میں تاحال کسی منطقی انجام کو نہیں پہنچیں)۔تدفین کے بعد ایک پروقار تقریب میں شہید کی باقیات بڑے بھائی خالد محمود ایڈووکیٹ (نین سکھ)کے حوالے کی گئیں۔
کرنل شکیل اور میجر یاسر سلطان شہید کے حوالے سے سامنے آنے والی قیاس آرائیوں کے بعد ’’ہم شہری‘‘ نے لیفٹینٹ کرنل شکیل کے بھائی خالد محمود سے رابطہ قائم کیا۔ ان کی جانب سے اختیار کردہ موقف کو یہاں بیان کرنے کا مقصد اس حوالے سے پیدا ہونے والی افواہوں کا خاتمہ اور یہ مطالبہ دہراناہے کہ شہید کے اہل خانہ کو ان کی شہادت کے بارے میں ہونے والی تفتیش سے آگاہ کیا جائے اور تفتیش کے دوران ان حالات کو مد نظر رکھا جائے جن سے کرنل شکیل اپنی شہادت سے کچھ عرصہ قبل دوچار تھے۔یہاں ان حالات کو ترتیب وار پیش کر کے اس سارے سلسلے میں بہت سے حقائق پہلی بار سامنے لائے جا رہے ہیں۔ ان حقائق کو سامنے لانے کا مقصد کسی شخص یا ادارے کو نشانہ بنانا نہیں تاہم ہر پاکستانی کی طرح لیفٹینٹ کرنل شکیل اور میجر یاسر سلطان کے لواحقین اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ وہ اپنے پیاروں کی شہادت کے بارے میں اصل حقائق سے آگاہ ہوں۔ چونکہ ابھی تک دونوں خاندانوں کو باقاعدہ طور پر کوئی تفتیشی رپورٹ فراہم نہیں کی گئی اس لیے سنی سنائی باتیں سامنے آرہی ہیں۔
اس سلسلے میں یہ بات واضح ہے کہ جرم و سزا کی اس کہانی کا آغاز قطعاً اس حادثے سے نہیں ہوا جو کرنل شکیل اور میجر یاسر سلطان کی گاڑی کو پیش آیا۔ یہ حادثہ کرپشن اور پیسہ بنانے کی اس کہانی کا ایک المناک موڑ ضرور تھا۔ خالد محمود نے ’’ہم شہری‘‘ سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’’شکیل کی تدفین کے موقع پر مجھے ایک شخص ملا۔ میں اسے نہیں جانتا تھا لیکن غم سے اس کی جو حالت ہو رہی تھی اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ شکیل کو بہت قریب سے جانتا تھا۔ اس نے مجھ سے علیحدگی میں بات کرنے کے لیے چند منٹ مانگے۔ اس شخص نے مجھے پہلی بار اس بات سے آگاہ کیا کہ شکیل اور یاسر کو جب حادثہ پیش آیا تو وہ لوگ کسی سرکاری گاڑی میں نہیں بلکہ ایک سمگل شدہ قیمتی سپورٹس کار کی ’’ٹیسٹ ڈرائیو‘‘ میں مصروف تھے۔ اسی شخص نے مجھے یہ بھی بتایاکہ شکیل کی سالانہ خفیہ رپورٹ خراب کرنے کی دھمکی دے کر اسے استعمال کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ اس شخص نے یہ وضاحت نہیں کی کہ کیسے شکیل کو استعمال کیا جانا تھا اور نہ ہی میری جذباتی حالت ایسی تھی کہ میں اسے مزید کریدتا،تاہم اس نے یقین دلایا کہ وہ کسی بھی انکوائری اور عدالت میں اس سلسلے میں حقائق بیان کرنے کے لیے تیار تھا۔‘‘
یہ کرنل شکیل کی شہادت کے معاملے کو ایک عام سے حادثے سے پراسرار مبینہ قتل بنادینے والی بات تھی۔ شکیل کے بھائی اس بات سے آگاہ تھے کہ مکینیکل انجیئر ہونے کے ناطے ایف سی کے زیر استعمال گاڑیوں کی دیکھ بھال کرنل شکیل کی ذمہ داریوں میں شامل تھی تاہم اس کے ساتھ ساتھ اس تعلق کی ایک اور نوعیت بھی تھی۔ تصویر کے اس رخ پرخالد محمود نے کچھ یوں روشنی ڈالی: ’’شکیل نے اپنی تعیناتی کے کچھ عرصہ بعد ہی ایف سی کے لیے خریدی جانے والی ایک گاڑی پر اعتراض کیا۔ شکیل کے خیال میں چالیس پچاس لاکھ میں مل جانے والی گاڑی ایف سی کو ایک کروڑ سے زائد قیمت پر بیچنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ شکیل نے اس کیس پر کام کیا اور رپورٹ آئی جی ایف سی میجر جنرل اعجاز شاہد کے حوالے کر دی۔ شکیل کو آئی جی کی جانب سے اس کام پر سراہا گیا اور فائل مزید کارروائی کے لیے آئی جی نے اپنے پاس رکھ لی۔کچھ عرصہ گزرنے کے بعد بھی جب اس سلسلے میں کوئی کارروائی سامنے نہ آئی تو شکیل نے اس بارے میں اپنے ایک کولیگ کو اعتماد میں لیا۔ اس کولیگ نے شکیل کو بتایا کہ ’جنہوں نے اس سودے سے فائدہ اٹھانا تھا تم انہی کو یہ فائل دے آئے ہو۔ اب محتاط رہنا تمہیں کسی نہ کسی طرح نشانہ بنایا جائے گا۔‘ شکیل کے لیے یہ انکشاف کسی صدمے سے کم نہ تھا۔ لیکن اس کولیگ نے جو کچھ کہا اس کا ثبوت چند دن بعد سامنے آگیا۔ ستّر لاکھ کی کرپشن پکڑنے والے کے خلاف چھتیس ہزار روپے کی خورد برد کے الزام میں انکوائری شروع کر دی گئی۔ شکیل نے پریشانی کے عالم میں دوبارہ اپنے اسی کولیگ سے رابطہ کیا۔ اس نے اسے مشورہ دیا کہ وہ لاہور میں چونڈہ لین(لاہور کی ایک رہائشی آبادی) میں قائم قیمتی امپورٹڈ گاڑیوں کے کاروبار سے منسلک شخص کے پاس جائے ۔ یہ شخص آئی جی ایف سی کا عزیز تھا اور شکیل کو یقین دلایا گیا تھا کہ آئی جی صاحب اپنے اس عزیزکی بات نہیں ٹالیں گے۔‘‘
شکیل کے لیے ایسے حالات بالکل نئے تھے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ وہ کوئٹہ سے لاہور آیا۔ یہاں اس نے چونڈہ لین میں ایک دن گزارا۔ خالد محمود کے بقول’’شکیل کے سامنے انکوائریوں اور تادیبی کارروائیوں سے بچنے کے لیے دو شرائط رکھی گئیں۔ یا تو وہ اس کاروبار میں شراکت دار بن جائے(انجنیئر ہونے کی وجہ سے اور ایف سی میں ٹرانسپورٹ کی دیکھ بھال کی ذمہ داری نباہنے والاشکیل اس کاروبار میں کلیدی کردار ادا کر سکتا تھا) دوسری صورت یہ تھی کہ وہ جو کچھ ہو رہا تھا اسے ہونے دے اور جو حکم دیا جائے بلا چوں چراں اس پر عمل کرے۔اس نے دوسری شرط مان لی۔ اس کے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ بے ایمانی کا دھبہ اگر ایک بار اس کی سروس بک پر لگ جاتا تو اس کے پاس باقی کیا بچتا؟‘‘
شکیل واپس کوئٹہ لوٹ گیا۔ یہاں ایف سی کے ایک ’’سیف ہاؤس‘‘ میں واقع ورکشاپ میں ایک جانب قیمتی گاڑیاں اور دوسری جانب بلوچوں کی ’’مرمت‘‘ کا کام متوازی چلایا جاتا تھا۔ شکیل کی قسمت لیکن اسے کسی اور جانب دھکیل رہی تھی۔ کرنل شکیل شہید نے خود خالد محمود کو اس واقعے سے آگاہ کیا۔ تفصیلات کے مطابق ’’ایف سی کے کچھ جوانوں نے ایک چیک پوسٹ پر ایک گاڑی کو روکا اور کار کے ڈرائیور کو نیچے اترنے کا حکم دیا۔ گاڑی کی تلاشی کے لیے جب دروازے کھلے تو جوانوں کے منہ بھی حیرت سے کھل گئے۔ گاڑی نوٹوں سے بھرے شاپنگ بیگوں سے لدی ہوئی تھی۔جوانوں نے پوسٹ میں موجود میجر صاحب کو بتایا۔ میجر صاحب کے اوسان بھی اتنی کرنسی دیکھ کر خطا ہو گئے۔ کار سوار حلیے سے کسی طرح بھی گاڑی یا اس رقم کا مالک نہیں لگتا تھا لیکن اس کا دعویٰ تھا کہ وہ ہی ان چیزوں کا مالک ہے۔ میجر نے کرنل شکیل کو اس بارے میں آگاہ کیا اور انہیں بھی چیک پوسٹ پر بلا لیا۔ کار سوار اپنی تھوڑی بہت ’’تواضع‘‘ کے بعد آئی جی ایف سی (میجر جنرل اعجاز شاہد)کا نام لے کر ڈیوٹی پر موجود لوگوں کا دھمکا رہا تھا۔ کرنل شکیل اور ڈیوٹی میجر نے کسی موہوم خدشے کے تحت اس شخص کی دھمکیوں کا امتحان لینے کے لیے اس سے آئی جی صاحب کا ذاتی موبائل نمبر اور کچھ اور معلومات مانگیں۔ ان خیال میں اگر اس شخص کے پاس یہ معلومات نہ ہوئیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ وہ صرف انہیں دھمکانے کے لیے ایک بڑے افسر کا نام لے رہا ہے۔
’’اس شخص نے جو موبائل نمبر بتایا وہ آئی جی ایف سی کے زیر استعمال ذاتی نمبر نہیں تھا۔ کرنل شکیل اور ڈیوٹی میجر دونوں کے پاس موجود نمبر اور اس نمبر میں دور دور تک کوئی ربط نہیں تھا۔ اس شخص نے اپنا اصرار جاری رکھا اور مطالبہ کیا کہ اس نمبر پر بات کی جائے تو آئی جی ایف سی سے بات ہو جائے گی۔ باہمی مشاورت سے دونوں افسران نے یہ نمبر آزمانے کا فیصلہ کیا۔ فون اٹھائے جانے پر دوسری جانب سے جو آواز آئی وہ ان افسران کے لیے کسی بم کے دھماکے سے کم نہیں تھی۔ آئی جی ایف سی(اعجاز شاہد) لائن پر تھے ۔دونوں افسران کو حکم دیا گیا کہ وہ کار سوار اور گاڑی کو جانے دیں ۔ کار سوار جاتے جاتے دونوں پریشان افسران کو تسلی دے گیا کہ اگر انہوں نے اس بارے میں اپنا منہ نہ کھولا تو انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔‘‘
لاعلمی میں کرنل شکیل ایک ایسے علاقے میں جا نکلے تھے جہاں ان کا ہر قدم کسی نہ کسی ’’بارودی سرنگ‘‘ پر ہی پڑنا تھا۔ انہوں نے اس جنجال سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے شروع کر دیے۔ ان کی پوسٹنگ کے دو برس پورے ہونے کو تھے اور بند گلی کے آخر پر روشنی دکھائی دے رہی تھی۔ انہیں حکم دیا گیا کہ وہ آئی جی ایف سی (اعجاز شاہد) کے بیٹے کی سمگل شدہ قیمتی سپور ٹس کار، نسان فئیر لیڈی، کو اپنی نگرانی میں تیار کرائیں۔اس کے لیے مختلف ضروری پرزے کراچی سے منگوائے گئے۔ شکیل کے خیال میں یہ ایک اور پھندا تھا۔ ایک ایسی گاڑی جس کی مصدقہ دستاویزات بھی موجود نہیں تھیں وہ باآسانی اس کے گلے منڈھی جا سکتی تھی۔ اس پر اس گاڑی کی ملکیت کا الزام لگایا جا سکتا تھا۔ اور حقیقتاً کرنل شکیل کی شہادت کے بعد ایسی کوشش کی بھی گئی۔ انہیں پیغام پہنچایا گیا کہ اگر انہوں نے اس گاڑی کے سلسلے میں کوئی پس و پیش کی تو ان کی سالانہ خفیہ رپورٹ خراب کر دی جائے گی۔ کرنل شکیل نے گاڑی تیار کرانی شروع کردی۔ گاڑی کی ساخت اور اس بارے میں دوسری معلومات اس وقت سامنے آئیں جب شکیل کے ایک کولیگ نے ، جو کوئٹہ میں تعینات تھے، جائے حادثہ پر جا کر اس گاڑی کی تصویر بنائی اور اسے فیس بک پر موجود ’’ابدالین‘‘ نامی ایک گروپ میں شئیر کیا۔ کرنل شکیل کے گھر والوں کو بھی اسی گروپ میں موجود لوگوں نے گاڑی کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔
سوال یہ ہے کہ کیوں اس بات کو چھپایا جا رہا تھا کہ کرنل شکیل اور میجر یاسر شہید ایک ایسی گاڑی میں موجود تھے جو سمگل شدہ تھی؟ اس کا جواب موجود ہے کہ کرنل شکیل اس گاڑی کواپنے باس کے حکم پر ’’تیار‘‘ کرا رہے تھے۔ لیکن اس گاڑی کو ٹکر مارنے والا ٹرک؟ حادثے کے بعد کرنل شکیل کو کچل دینے والی سرخ رنگ کی بیاسی ماڈل کرولا کار کہاں غائب ہو گئی؟ اگر مبینہ طور پر آئی جی ایف سی کا بیٹا بھی اس کار میں موجود تھا تو کیا اس سے اس سلسلے میں تفتیش ہوئی؟ تحقیقی کمیٹی کی جانب سے شہداء کے اہل خانہ کو حقائق سے باخبر کیوں نہیں رکھا جا رہا اور ان سے کیوں تعاون طلب نہیں کیا جا رہا؟ کرنل شکیل شہید کو شہادت سے عین پہلے جن حالات سے پالا پڑا تھا وہ انہیں اپنے بھائی کے ساتھ مسلسل شئیر کر رہے تھے؟ اگر کرنل شکیل کوئٹہ میں اپنی ملازمت کی مدت پوری کر کے دوسری جگہ روانہ ہو جاتے تو اس سے کس کو خطرہ درپیش تھا؟ خفیہ نمبروں سے شہداء کے گھر والوں کو اس تفتیش میں دلچسپی لینے سے روکنے والے کون لوگ ہیں؟
یہ وہ حقائق اور سوال ہیں جو کرنل شکیل شہید کی حادثاتی موت کے پیچھے موجود ہیں ۔ ان کے قریبی ذرائع ان حقائق کو کسی بھی انکوئری فورم پر بیان کرنے کے لیے تیار ہیں۔ کوئی انہیں اس تفتیش میں شامل کرے تو ہی ایسا ممکن ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان کے طاقتور ترین ادارے کے دو اعلیٰ افسران کی شہادت پر پڑا پراسراریت کا پردہ اب تک فاش کیوں نہیں ہوا؟ میڈیا رپورٹس کے سامنے آنے کے بعد کہ ایف سی کے اعلیٰ افسران کو کرپشن کے الزام میں نکالا گیا ہے یہ بات اور بھی ضروری ہے کہ ان دونوں افسران کی شہادت کے بارے میں اس پہلو سے تفتیش بھی کی جائے کہ کہیں انہیں ’’نشانہ‘‘ تو نہیں بنایا گیا۔ 24-04-2016ء ’’جیو‘‘ کے پروگرام ’’آپس کی بات‘‘میں سینئر صحافی نجم سیٹھی نے انکشاف کیا کہ اس گاڑی میں اعجاز شاہد(اس وقت کے آئی جی ایف سی) کا بیٹا بھی موجود تھا۔ بری طرح تباہ ہو جانے والی گاڑی سے اس کا بنا نقصان نکل آنا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ عام حالات میں بھی یہ بات تشویش ناک ہے کہ فوج جیسے منظم ادارے کے شہید ہونے والے دو افسران کی شہادت کے بارے میں تفتیش تقریباً ڈیڑھ سال بعد بھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی۔ کرپشن کے ذمہ دار تو انجام کو پہنچ گئے کیا کبھی لیفٹینٹ کرنل شکیل اور میجر یاسر سلطان جو اس کرپشن کا شکار بنے ان کی پراسرار شہادت کے اسباب پر سے پردہ بھی اٹھ سکے گا؟
(خالد محمود پنجابی کے نمایاں شاعر اور کہانی کار بھی ہیں۔ اپنے بھائی کے حوالے سے لکھی جانے والی ان کی کہانی ’’شہید؟‘‘ جلد اشاعت پذیر ہونے والی ہے۔)
یہ انٹرویو ہفت روزہ ‘ہم شہری’ سے وابستہ صحافی ثقلین شوکت نے کیا ہے جو 5 مئی 2016ء کو شائع کیا گیا . آئی بی سی اردو ادارہ ‘ہم شہری’ اور مضمون نگار کے شکریے کے ساتھ اسے شائع کر رہا ہے . مدیر