بزرگ مہنگا ٹکٹ خریدنا چاہتے تھے‘ ایجنٹ انھیں سستا ٹکٹ دینا چاہتا تھا‘ وہ دونوں مسلسل تکرار کر رہے تھے‘ ایجنٹ بتا رہا تھا‘ سر یہ بھی فرسٹ کلاس ہے‘ یہ آپ کو چار لاکھ روپے سستی پڑے گی لیکن بزرگ کا کہنا تھا‘ بیٹا میں نے آپ سے سستی ٹکٹ کا مطالبہ نہیں کیا‘ مجھے ایسی فرسٹ کلاس چاہیے جس میں بیڈ لگا ہو‘ میں ہوائی سفر کے دوران بیڈ کو انجوائے کرنا چاہتا ہوں‘ ایجنٹ انھیں سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا ’’سر یہ سیٹ بھی پورا بیڈ بن جاتی ہے‘ آپ اسے بھی انجوائے کریں گے۔
آپ اپنا پیسہ بلاوجہ ضائع نہ کریں‘‘ لیکن بزرگ ڈٹے رہے‘ ان کا کہنا تھا‘ میں مہنگی ترین سیٹ ہی لوں گا‘ میں یہ تکرار مزے سے دیکھ رہا تھا‘ تکرار کے آخر میں فیصلہ ہو گیا‘ ایجنٹ نے بزرگ کو سیٹ دے دی‘ وہ سیٹ انھیں ساڑھے تیرہ لاکھ روپے میں پڑی‘ یہ بہت بڑی رقم تھی لیکن بزرگ نے چیک بک نکالی‘ دستخط کیے اور چیک ایجنٹ کے حوالے کر دیا‘ میں اس فضول خرچی پر حیران ہو گیا۔
میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ کسی شخص کو اتنا مہنگا ٹکٹ خریدتے دیکھا تھا چنانچہ میں نے ان سے معذرت کی اور عاجزی سے پوچھا ’’سر آپ کیا کرتے ہیں‘‘ وہ میری طرف مڑے‘ غور سے مجھے دیکھا اور مسکرا کر بولے ’’میں کچھ نہیں کرتا‘ میں ریٹائر لائف گزار رہا ہوں‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ ریٹائر ہونے سے پہلے کیا کرتے تھے‘‘ وہ بڑے پیار سے بولے ’’میری کپڑے کی دکان تھی‘‘ میں نے پوچھا ’’دکان یا فیکٹری‘‘ وہ بولے ’’پندرہ بائی بیس فٹ کی چھوٹی سی دکان‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا یہ آپ کا کل کاروبار تھا‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’ہاں سو فیصد‘ میں نے راولپنڈی میں چالیس سال کپڑا بیچا‘‘۔
میں نے پوچھا ’’آپ کے پاس پھر لمبی چوڑی زمین جائیداد ہو گی‘‘ وہ فوراً بولے ’’ہرگز نہیں‘ بس ایک آبائی گھر تھا اور دو دکانیں تھیں‘ دکانیں دونوں بیٹوں نے لے لی ہیں‘ مکان میں نے آدھا بیچ دیا ہے اور آدھا بچوں کو دے دیا ہے‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا آپ بچوں کے ساتھ رہتے ہیں‘‘ بولے ’’ہرگز نہیں‘ میں دو سال سے ہوٹل میں رہ رہا ہوں‘ سال میں ایک بار ملک سے باہر جاتا ہوں‘ ریستورانوں میں کھانا کھاتا ہوں اور بس‘‘ میری حیرت آسمان کو چھونے لگی۔
میں نے عرض کیا ’’پھر آپ نے اتنا مہنگا ٹکٹ کیوں خریدا‘ میں نے آج تک امیر سے امیرترین لوگوں کو بھی ایک سفر پر ساڑھے تیرا لاکھ روپے کا ٹکٹ خریدتے نہیں دیکھا اور آپ بظاہر امیر بھی نہیں ہیں چنانچہ میں آپ کی فضول خرچی پر حیران ہوں‘‘ بزرگ نے قہقہہ لگایا اور پھر زندگی کا ایک نیا رخ میرے سامنے رکھ دیا۔
وہ بولے ’’میں راولپنڈی میں کپڑے کا کاروبار کرتا تھا‘ دکان اچھی چل رہی تھی‘ دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں‘ بیوی نیک اور گھریلو تھی‘ میں فیصل آباد کے ایک مل اونر سے کپڑا خریدتا تھا اور وہ کپڑا پرچون میں بیچ دیتاتھا‘ میں ہفتے میں ایک بار فیصل آباد جاتا تھا‘ میری اس آمدورفت کی وجہ سے وہ مل اونر میرا دوست بن گیا‘ وہ جب بھی راولپنڈی آتا تھا‘ وہ پی سی میں ٹھہرتا تھا‘ مجھے دعوت دیتا تھا اور میں اس کے ساتھ کھانا کھاتا تھا‘ وہ گرِل فش بڑی رغبت سے کھاتا تھا‘ وہ مجھے بتایا کرتا تھا وہ دن میں ایک بار سالمن فش ضرور کھاتا ہے‘ میں نے اس کے ساتھ سالمن فش کھانی شروع کی تو میں بھی اس کا عادی ہو گیا۔
میں بھی فش کھانے لگا‘ ہم دونوں دوست تھے لیکن پھر اس بے چارے کا ڈاؤن فال شرع ہو گیا‘ پاکستان میں لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ پیدا ہو گیا‘ حکومت نے ٹیکس بڑھا دیے‘ فیکٹریوں میں یونینز بنی بن گئیں‘ را مٹیریل بھی مہنگا ہو گیا اور اغواء برائے تاوان اور بھتہ خوری بھی شروع ہو گئی‘ بنگلہ دیش نے اس دور میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کو ٹیکس فری کر دیا‘ میرا دوست بنگلہ دیش گیا‘ بنگالی بزنس مین کے ساتھ ’’جوائنٹ وینچر‘‘ کیا اور اپنی فیکٹری بنگلہ دیش شفٹ کر دی‘ وہ بنگلہ دیش میں کامیاب ہو گیا لیکن پھر دونوں پارٹنرز کے درمیان اختلاف ہوا۔
معاملہ عدالت تک گیا اور بنگلادیش کی عدالت نے بنگالی بزنس مین کے حق میں فیصلہ دے دیا یوں وہ بیچارا محل سے فٹ پاتھ پر آگرا‘ وہ واپس پاکستان آ گیا‘ فیصل آباد میں اس دوران اس کی پراپرٹی پر قبضہ ہو چکا تھا‘ وہ یہاں بھی کورٹ کچہریوں میں الجھ گیا‘ بیوی یہ اتار چڑھاؤ برداشت نہ کر سکی‘ وہ بیمار ہوئی اور انتقال کر گئی‘ اس نے لاہور میں ایک انڈسٹریل یونٹ لگایا‘ وہ یونٹ بیٹے کے حوالے کیا‘ بیٹے نے وہ برباد کر دیا‘ دوسرے بیٹے کو کاروبار میں ڈالا‘ وہ بھی ناکام ہوا اور بیوی بچوں کو لے کر کینیڈا شفٹ ہو گیا۔
بڑا بیٹا ناکامی کے بعد نشے کا عادی ہو گیا‘ وہ نشے کے ہاتھوں اسپتال پہنچ گیا‘ بیٹی کی شادی کی‘ سسرال نے گھر مانگ لیا‘ اس نے اپنا واحد گھر بیٹی کو دے دیا‘ یار دوست بھاگ گئے اور عزیز رشتے دار سائیڈ پر ہو گئے اور یوں وہ بے چارہ پوری دنیا میں بے دست و پا ہو گیا۔میں اس کے عروج وزوال کا عینی شاہد تھا‘ وہ خوددار تھا‘ اس نے مجھ سے ملنا بھی ترک کر دیا تھا لیکن میں اسے ڈھونڈ ڈھانڈ کر مل لیتا تھا‘ ہم گرِل فش کھاتے تھے‘ پرانا وقت یاد کرتے تھے اور ہنس رو کر اپنے اپنے ٹھکانے پر آ جاتے تھے‘ وہ زندگی کے بوجھ کے ساتھ ساتھ چلتا رہا لیکن پھر ایک ایسا وقت آ گیا جب کرائے کا مکان بھی اس کے بس کی بات نہ رہا۔
وہ حقیقتاً کوڑی کوڑی کا محتاج ہو گیا اور پھر ایک دن وہ غائب ہو گیا‘ میں اسے تلاش کرتا رہا لیکن وہ نہ ملا‘ میں اپنے کام کاج میں مصروف ہو گیا‘ مجھے ایک دن ایدھی فاؤنڈیشن سے فون آیا‘ مجھے بتایا گیا آپ کا ایک عزیز شدید علالت میں ہمارے پاس موجود ہے‘ آپ سے ملنا چاہتا ہے‘ میں تشویش کے عالم میں ایدھی فاؤنڈیشن پہنچ گیا‘ وہ مجھے اولڈ پیپل ہوم میں لے گئے‘ میں اندر داخل ہوا تو وہ علالت کے عالم میں بستر پر پڑا تھا‘ داڑھی بڑھی ہوئی تھی‘ شوگر‘ بلڈ پریشر اور دل کا مرض بے قابو ہو چکا تھا اور وہ حقیقتاً ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا تھا‘ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ میں اس کے پاس بیٹھ گیا۔
وہ مجھے دیکھ کر مسکرایا اور آہستہ آوازمیں بولا ’’یار شکور صاحب گرِل فش کھانے کا بہت دل کر رہا ہے‘ میں نے فش کے لالچ میں ان کو آپ کا نمبر دے دیا تھا‘‘ میں آنکھیں پونچھتا ہوا اٹھا‘ پی سی گیا‘ گرِل فش پیک کرائی اور اس کے پاس آ گیا‘ اس نے بڑی مدت بعد اچھا اور صاف ستھرا کھانا کھایا‘ میں اس کے بعد روزانہ اس کے پاس جاتا‘ ہم گرِل فش کھاتے اور دھوپ میں بیٹھ کر گپ شپ کرتے‘ میں نے اسے اپنے گھر لانے کی کو شش کی لیکن اس نے انکار کر دیا‘ بہرحال قصہ مختصر وہ بہتر ہو گیا‘ وہ اب چل پھر بھی سکتا تھا اور اپنے کام بھی خود کر سکتا تھا‘ اس نے اس کے بعد اپنی باقی زندگی ایدھی فاؤنڈیشن کے لیے وقف کر دی۔
وہ اولڈ پیپل ہوم میں رہتا تھا‘ بیماروں کی خدمت کرتا تھا‘ نماز پڑھتا تھا اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا تھا‘ ہم دونوں ہفتے میں ایک بارہوٹل جاتے تھے‘ گرِل فش کھاتے تھے اور کافی پیتے تھے‘ یہ روٹین اس کے مرنے تک جاری رہی‘ میں اسے ایک رات واپس چھوڑ کر آیا‘ وہ بستر پر لیٹا اور پھر دوبارہ نہ اٹھ سکا‘ ہم نے اس کے بچوں سے رابطے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے‘ ہمارے پاس کینیڈا والے بیٹے کا نمبر نہیں تھا‘ دوسرا بیٹا اسپتال میں زیر علاج تھا‘ اسے ہوش نہیں تھا‘ بیٹی خاوند اور بچوں کے ساتھ چھٹیاں منانے کے لیے یورپ گئی ہوئی تھی۔
ہمارے پاس اس کا رابطہ نمبر نہیں تھا‘ عزیز رشتے دار اور دوست احباب کو بلانے سے اس نے روک دیا تھا‘ وہ وصیت کر کے مرا تھا میری موت کی کوئی اناؤنسمنٹ نہیں ہو گی اور میرے کسی عزیز رشتے دار کو اطلاع نہیں دی جائے گی چنانچہ اجنبی لوگوں نے اس کا جنازہ پڑھا‘ اجنبیوں نے اسے قبر میں اتارا اور اجنبی قبرستان میں اسے دفن کر دیا گیا‘ میں دوبارہ اپنے کاروبار میں مصروف ہو گیا‘ میں نے ایک دن اپنے بڑے بیٹے کو ڈانٹ دیا‘ بیٹا بپھر گیا اور بولا ’’آپ نے ہمارے لیے کیا کیا ہے؟‘‘ یہ فقرہ سیدھا میرے سینے میں لگا۔
مجھے اپنا مرحوم دوست یاد آ گیا اور احساس ہوا‘ یہ سب مایا ہے‘ یہ سارا مایا ختم ہو جائے گا‘ مال وہ ہے جو آپ نے استعمال کر لیا اور خوشی وہ ہے جو آپ نے محسوس کر لی اور بس‘ میری بیوی فوت ہو چکی تھی‘ بچے شادی شدہ تھے‘ میں نے دونوں بیٹوں کو ایک ایک دکان دے دی‘ مکان بازار میں آ چکا تھا‘ میں نے آدھا مکان بیچ دیا‘ مجھے بارہ کروڑ روپے ملے‘ میں ہوٹل میں شفٹ ہو گیا‘ میں اب آدھا دن ایدھی فاؤنڈیشن میں کام کرتا ہوں‘ صبح شام ایکسرسائز کرتا ہوں‘ سوئمنگ کرتا ہوں‘ گرِل فش کھاتا ہوں‘ سوٹ پہنتا ہوں‘ ہوٹل کی گاڑی استعمال کرتا ہوں‘سال میں ایک بار مہنگا ترین ٹکٹ لے کر ملک سے باہر جاتا ہوں اور چِل کر رہا ہوں۔
وہ خاموش ہو گئے‘ میں حیرت سے ان کی طرف دیکھتا رہا اور وہ مسکراتے رہے‘ میں نے عرض کیا ’’آپ جس طرح رقم اڑا رہے ہیں یہ بارہ کروڑ کب تک آپ کا ساتھ دیں گے‘‘ بزرگ نے قہقہہ لگایا اور بولے ’’سال کا ایک کروڑ روپے خرچ آتا ہے‘ میرا خیال ہے میں بارہ کروڑ سے پہلے فوت ہو جاؤں گا‘ میں نے عرض کیا ’’اور آپ اگر بچ گئے‘ اللہ نے اگر آپ کو لمبی زندگی دے دی تو؟‘‘ انھوں نے قہقہہ لگایا اور بولے ’’میں بھی اپنے دوست کی طرح ایدھی فاؤنڈیشن شفٹ ہو جاؤں گا‘ آپ جیسے کسی دوست کی مدد سے ہفتے میں ایک دن گرِل فش کھاؤں گا اور موت کے فرشتے کا انتظار کروں گا‘‘۔