باؤ جی سے ملاقات

یہ کسی سابق صدر یا وزیر اعظم کا نہیں بلکہ پاکستان کی ایک سابق خاتون ا وّل کا جنازہ تھا۔ ایک ایسی سابق خاتون اوّل جس کا شوہر، بیٹی اور داماد پابند سلاسل ہے انہیں جنازے میں شرکت کیلئے پیرول پر رہا کیا گیا تھا۔ اس سابق خاتون اوّل کے خاندان نے کئی مرتبہ اقتدار بھی دیکھا اور شان و شوکت بھی دیکھی لیکن پچھلے دو سال سے یہ خاندان مشکلات کا شکار تھا۔ 25جولائی 2018ء کے انتخابات کے بعد بہت بری خبریں اس خاندان کا مقدر بنیں اور ان میں سب سے بری خبر بیگم کلثوم نواز کی رحلت تھی لیکن وہ جاتے جاتے بھی اپنے خاندان اور اپنی جماعت کو بہت کچھ دے گئیں۔ بیگم کلثوم نواز کے جنازے نے مسلم لیگ(ن) کو ایک نئی زندگی بخشی ہے۔ یہ جنازہ پاکستان کی تاریخ کے بڑے جنازوں میں سے ایک تھا جس میں پاکستان کے ہر کونے سے لوگ شریک ہوئے۔ یہ لوگ پاکستان کے دور دراز علاقوں سے لائے نہیں گئے تھے بلکہ خود آئے تھے۔ اکثر لوگوں کو جناز ہ گاہ تک پہنچنے کے لئے کئی کلومیٹر پیدل چلنا پڑا تھا۔

جنازے میں آنے والوں کو پتہ تھا کہ پیرول پر رہا ہو کر آنے والے نواز شریف سے ان کی ملاقات نہیں ہوگی۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ شہباز شریف اب وزیر اعلیٰ پنجاب نہیں بلکہ اپوزیشن لیڈر ہیں لیکن نئے پاکستان کے یہ پرانے لوگ ایک نیک سیرت اور بہادر عورت کے جنازے پر جوق در جوق چلے آئے۔ کوئی جنازہ پڑھ سکا کوئی نہیں پڑھ سکا لیکن جنازے کے شرکاء کی تعداد اور ان کا جذبہ بتارہا تھا کہ اصل حکومت اقتدار کے ایوانوں میں نہیں بلکہ اصل حکومت دلوں پر ہوتی ہے۔ بیگم کلثوم نواز کو اپنی وفات کے بعد پاکستان کے لوگوں سے وہی عزت اور محبت ملی ہے جو محترمہ فاطمہ جناح، بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو کو ملی تھی اور ان چاروں خواتین میں قدر مشترک یہ تھی کہ چاروں نے آمروں کے خلاف مزاحمت کی۔

گرمی اور حبس کے باعث پسینے میں شرابور پاکستانیوں کا یہ اجتماع ایک ایسی عورت کے سفر آخرت میں شریک تھا جس نے پرویز مشرف کے دور میں بھی جمہوریت پسندوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا تھا اور اب اس بہادر عورت کے جنازے میں حکومت اور اپوزیشن بھی ایک ہی صف میں کھڑی نظر آرہی تھی۔ بیگم کلثوم نواز کے جنازے میں تحریک انصاف، پیپلز پارٹی، اے این پی، ایم کیو ایم، جے یو آئی، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں کے قائدین کو دیکھ کر میں سوچ رہا تھا کہ کاش! ہم سیاسی انتقام اور ایک دوسرے سے اندھی نفرت کو ہمیشہ کے لئے الوداع کہہ دیں اور یہ جنازہ نفرتوں کو الوداع کہنے کے لئے نکتہ آغاز بن سکتا ہے۔

جنازے سے اگلے روز مجھے جاتی امرامیں نواز شریف سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات ا ور فاتحہ خوانی کا موقع ملا۔ اس رہائش گاہ میں پہلے بھی ان کے ساتھ کئی مرتبہ ملاقات ہوچکی ہے لیکن پہلے یہاں قہقہے، مسکراہٹیں اور رنگ و خوشبو تھی آج ماحول سوگوار تھا۔ ڈرائنگ روم میں نواز شریف کیساتھ خواجہ محمد آصف، پرویز رشید، عرفان صدیقی اور کچھ قریبی رشتہ دار موجود تھے۔ نواز شریف کی آنکھوں میں غم اور اداسی کے سائے نظر آرہے تھے لیکن انکے چہرے پر حوصلہ اور لہجہ پرعزم تھا۔ یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ وہ ٹوٹ پھوٹ چکے ہیں۔

میں نے فاتحہ خوانی کے بعد ان کی طبیعت کے متعلق پوچھا تو نواز شریف نے بتایا کہ وفات سے ایک دن قبل کلثوم سے فون پر بات ہوئی تھی۔ اس رات میں سو نہ سکا۔ اگلے دن پتہ چلا کہ ان کی طبیعت خراب ہوگئی۔ پھر ان کی وفات کی خبر آگئی اور وہ رات بھی نہ سوسکا۔ نواز شریف نے بتایا کہ تقریباً اڑتالیس گھنٹے کی بے خوابی کے باعث اور پھر اہلیہ کے انتقال کی خبر سے طبیعت بوجھل ہوگئی لیکن اب وہ بالکل ٹھیک ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے واقعی انہیں صبر اور حوصلہ عطا کردیا تھا۔ کلثوم کے بائوجی ہمارے ساتھ اپنی اہلیہ کے متعلق باتیں کرتے رہے۔ اتنی خوبصورت باتیں وہی کرسکتا ہے جس کا حوصلہ قائم ہو۔

نواز شریف کہہ رہے تھے کہ نجانے یہ کیا راز ہے کہ کلثوم موت کے منہ سے واپس آئیں، انہوں نے آنکھیں کھول دیں، بات چیت شروع کردی، کھانا پینا بھی شروع کردیا اور پھر اچانک ہمیشہ کے لئے آنکھیں بند کرلیں۔ ہم ان کے جنازے کی باتیں کررہے تھے۔ ایک بزرگ (احمد بن حنبل) کے اس قول پر گفتگو ہوتی رہی کہ لوگوں کے کردار و عمل کا اندازہ ان کے جنازوں سے لگایا جاسکتا ہے۔ بیگم کلثوم نواز صاحبہ کی ادب نوازی کا ذکر آیا۔ ان کی ایک کتاب کا ذکر آیا۔ نواز شریف نے بتایا کہ جبر اور جمہوریت کے نام سے ایک کتاب شائع ہوئی تھی لیکن یہ کلثوم نے نہیں لکھی تھی کسی نے اس پر ان کا نام دے دیا تھا۔ میں نے یاد دلایا کہ انہوں نے زمانہ طالبعلمی میں رجب علی بیگ سرور پر ایک تحقیقی مقالہ لکھا تھا جو کتابی صورت میں شائع ہوا تھا۔

خواجہ آصف بولے یہ تحقیقی مقالہ ڈاکٹر عبادت بریلوی نے لکھوایا تھا اور ڈاکٹر آغا سہیل کی رہنمائی میں لکھا گیا تھا۔ ’’رجب علی بیگ سرور کا تہذیبی شعور‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی یہ کتاب اب مارکیٹ میں نہیں ہے لیکن جب کلثوم نواز صاحبہ نے یہ تحقیق کی تو وہ کلثوم ریحانہ بٹ تھیں۔ رجب علی بیگ سرور کا تعلق لکھنؤ سے تھا۔ انہیں اپنی کتاب’’فسانہ عجائب‘‘ کی وجہ سےشہرت ملی تھی۔ فسانہ عجائب لکھنؤ کی تہذیب و ثقافت کے متعلق لکھی گئی شاہکار تحریروں میں شمار ہوتی ہے جس پر کتاب کے مصنف نے اٹھارہ مرتبہ نظرثانی کی اور کہا’’جو فقرہ سست پایا اسے چست کیا‘‘ اس خوبصورت کتاب کے مصنف کے تہذیبی شعور پر تحقیق کرنے والی کلثوم نواز صاحبہ بذات خود ا نتہائی نستعلیق، نفیس، شفیق، غریب پرور، بہادر، صابر اور ثابت قدم خاتون تھیں۔

ہر مشکل وقت میں کبھی ا علانیہ کبھی غیر اعلانیہ انہوں نے مجھے حوصلہ دیا اور میری حمایت بھی کی۔ 1998میں سینیٹر سیف الرحمان نے میری آواز دبانے کی کوشش کی تو کلثوم نواز صاحبہ نے مجھے بتائے بغیر وزیر اعظم نواز شریف سے کہا کہ وہ مجھ سے معذرت کریں اور پھر وزیر اعظم صاحب نے مجھ سے معذرت کی۔ 2014میں کراچی میں مجھ پر قاتلانہ حملہ ہوا تو انہوں نے میری اہلیہ کو فون کرکے حوصلہ دیا اور بہت دعائیں دیں۔ پانامہ اسیکنڈل کے بعد اس ناچیز نے نواز شریف حکومت پر کافی تنقید کی لیکن جب نواز شریف کا لندن میں بائی پاس ہوا اور میں ان کی عیادت کے لئے لندن گیا تو وہاں بیگم کلثوم نواز صاحبہ سے آخری ملاقات ہوئی۔

وہ نواز شریف کو سنبھال رہی تھیں کچھ عرصہ بعد اسی ہاسپیٹل میں نواز شریف ان کو سنبھال رہے تھے۔ میں نواز شریف کی عیادت کے بعد اس ہاسپیٹل سے روانہ ہوا تو بیگم صاحبہ نے مسکراتے چہرے کے ساتھ بار بار میرا شکریہ ادا کیا۔ بہت سی دعائیں دیں اور خدا حافظ کہا۔ ہفتہ کی شام نواز شریف اور شہباز شریف سے رخصت لے کر میں بیگم کلثوم نواز کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لئے گیا تو ان کا مسکراتا چہرہ میری نظروں کے سامنے گھوم گیا اور ان کی محبت بھری باوقار آواز کانوں میں گونجنے لگی۔ نواز شریف نے جو کھونا تھا کھودیا۔ مزید کھونے کے لئے ان کے پاس کچھ نہیں۔ حکومت نے نواز شریف کو پیرول پر رہا کرکے بہت اچھا کیا لیکن نواز شریف کو کمزور نہ سمجھا جائے۔ بائو جی بڑے حوصلے میں ہیں۔ کسی ڈیل کے لئے تیار نہیں اور بائو جی کا چھوٹا بھائی ان کے ساتھ کھڑا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے