FOX P2

اس کالم کا عنوان اس جین کے نام پر ہے جو انسان اور دوسرے جانوروں کے دماغ میں ایک نمایاں فرق ظاہر کرتا ہے۔ FOX P2وہ جین ہے جس کی مدد سے انسان بولنے اور اس سے بھی بڑھ کر آپس میں گپ شپ کرنے کے قابل ہوا وگرنہ انسان اور بندر کے دماغ میں اس جین کے علاوہ کوئی بڑا فرق نہیں ہے۔

نظریہ ارتقاء، انسانی ترقی اور جانوروں و انسانوں کے اذہان کا تقابل کرنیوالے سائنس دانوں نے گزشتہ دو دہائیوں میں غیر معمولی انکشافات کئے ہیں۔ اس حوالے سے پیٹر واٹسن کی تہلکہ خیز کتاب Ideasقابل ذکر ہے جس میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ انسان نے کس طرح خیالات کے ذریعے ارتقاء کے عمل کو آگے بڑھایا۔ یووال نوح حراری کی دو کتابیں Sapiensاور Homo Deusنے تو سائنسی تحیرات کو انتہائی آسان زبان میں سمجھا دیا۔ اسی حوالے سے سائنس دان ڈیوڈ ریخ کی کتاب Who we are and How we got Hereنے جینیاتی سائنس، نظریہ ارتقاء اور اب تک اس پر ہونے والی تحقیق کو تحریر کر دیا ہے۔

نئے سائنسی انکشافات سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ ہزاروں سال پہلے کے مردہ انسان کے DNA سے اس کی پوری وراثتی تاریخ کو جانا جا سکتا ہے اور یہ پتہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ خاص انسان کن نسلوں کا ورثہ ہے، ان کا اصل وطن یوریشیا تھا یا میسو پوٹیمیا حتیٰ کہ یہ تک پتہ چلا لیا گیا ہے کہ کب افریقی انسانوں نے ہجرت کی اور کب عراق اور شام کے علاقے میں قدیمی انسان (Non Neanderthal)اور جدید انسان (Homo Sapiens)کا تصادم ہوا۔ یہ بھی پتہ چل چکا ہے انسانی تاریخ میں قدیم ترین دریافت شدہ انسانی نام ’’کشم‘‘ ہے اور انسانی تاریخ کی جو گم شدہ اور پرانی ترین نشانی ملی ہے وہ انسانی ہاتھ کا پرنٹ ہے جو تقریباً 30ہزار سال پرانا ہے۔ اسی تحقیق کے نتیجے میں اب تک جو سب سے پرانی تحریر برآمد ہوئی ہے وہ گیہوں کا حساب کتاب ہے۔ اس میں نہ کوئی فلسفیانہ نکتہ ہے اور نہ کوئی حکیمانہ احکامات۔

اب یہ کہا جا رہا ہے کہ باقی جانوروں سے بڑا دماغ، اوزاروں کا استعمال، سیکھنے کی بہترین صلاحیتیں اور پیچیدہ سماجی ڈھانچہ وہ اہم ترین عناصر ہیں جن کی وجہ سے انسانی نسل دنیا کی طاقتور ترین اور ذہین ترین نسل بن گئی اور اس نے تمام جانوروں اور انسانوں کی ابتدائی نسلوں کو اپنا زیر نگین بنا لیا جبکہ پیٹر واٹسن کا خیال ہے کہ دماغ بڑا ہونے یعنی FOX P2کے بڑا ہونے اور بالخصوص انسان کے چوپائے سے دوپائے ہونے کے عمل نے ارتقاء کو تیز کر دیا۔

جب انسان کے دو ہاتھ آزاد ہو گئے تو پھر انسان نے ان دو ہاتھوں سے اوزار بنانے، آگ جلانے اور شکار کرنے جیسی ترکیبیں نکال لیں۔ ایک بات پر سب سائنس دان متفق ہیں کہ FOX P2 کا جب دماغی جین بڑا ہوا، اس کا تناسب قدیمی انسانی نسل سے 2اور 200کا ہے، پہلے انسان اور بن مانس اشارے کنائے میں بات ضرور کرتے تھے ایمرجنسی کیلئے آوازیں بھی نکالی جاتی تھیں لیکن FOX P2 نے انسان کو آپس میں گپ شپ لگانے اور باہم مشورے کرنے کا موقع فراہم کر دیا اور انسانی ترقی اور ارتقاء کی سب سے بڑی وجہ یہی بنی۔

انسانی تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ جنگ، وبا اور قحط، نسل انسانی کے سب سے بڑے دشمن رہے ہیں لیکن انسانی نسل نے تیز ترین معاشی اور سائنسی ترقی کر کے اپنے تینوں دشمنوں کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ آنے والے کل کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ آہستہ آہستہ دنیا میں جنگ متروک ہو جائے گی۔ یورپ اور دنیا کے کئی حصوں میں تو جنگ کا تصور ہی محال ہو گیا ہے لیکن غریب اور پسماندہ ممالک کے استحصال کیلئے اب بھی جنگ کا استعمال جاری ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کی اندرونی لڑائیاں اور بیرونی مداخلت اس کا واضح ثبوت ہے۔

اب اندازہ لگایا جا رہا ہے پہلے انسانی نسل جنگوں، قحطوں اور بیماریوں کی وبائوں سے ماری جاتی تھی اب سماجی اور معاشی پیچیدگیوں نے جنگ میں انسانوں کے مارے جانے کا امکان تو کم کیا ہے لیکن انسان انہی پیچیدگیوں کا شکار ہو کر خودکشی کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں اسی لئے ترقی یافتہ ممالک میں خودکشیوں کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ پہلے غذائی بحران اور قحط انسانوں کو بھوک اور پیاس سے ہلاک کر دیتے تھے اب دنیا میں قحط کا امکان ختم ہو گیا ہے مگر موٹاپے اور زیادہ کھانے سے اموات کا سلسلہ بڑھ گیا ہے۔

21ویں صدی سے پہلے مذہب نے ہمیشہ انسانی نسل کے اتحاد اور انتشار یعنی جنگوں دونوں میں اہم کردار ادا کیا۔ سائنس دانوں کا خیال ہے آنے والی دنیا اور انسان کی اگلی نسلوں میں مذہب کا رجحان کم نہیں بلکہ زیادہ ہو گا۔ بائیو ٹیکنالوجی، الگورتھم اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے مذہبی رجحانات میں شدت اور سختی آئے گی البتہ نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے حقیقت اور افسانے کو الگ کرنا آسان ہو جائے گا۔

انسانی ڈی این اے پر تحقیق اور تاریخی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے یہ نتیجہ بھی نکالا گیا ہے کہ دنیا میں انقلاب یا تبدیلی اکثریت کی وجہ سے نہیں بلکہ تنظیم کی وجہ سے آتی ہے۔ معاشرے کا جو بھی طبقہ زیادہ منظم ہوتا ہے وہ غیرمنظم اکثریت کو محکوم رکھتا ہے۔ ڈاکٹر نوح حراری لکھتے ہیں کہ انقلاب روس کا باعث 180ملین غریب روسی کاشتکار نہیں تھے بلکہ زار روس کے خلاف انقلاب لانے والے صرف 23ہزار منظم کمیونسٹ تھے لیکن یہ کمیونسٹ اپنے مقصد کیلئے جڑے ہوئے تھے اور انتہائی منظم تھے جبکہ غیرمنظم عوام کوئی تبدیلی لا ہی نہیں سکتے۔ رومانیہ میں تبدیلی کی مثال دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ رومانیہ کے مطلق العنان آمر نکولس کیوسکو نے اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کیلئے دارالحکومت میں بہت بڑی ریلی کا اہتمام کیا، لاکھوں لوگ جمع تھے، نکولس نے تقریر شروع کی تو مکمل خاموشی اور احترام کا منظر تھا مگر آٹھ منٹ کے بعد جونہی نکولس کیوسکو نے توقف کیا تو ایک شخص نے ہوٹنگ کی۔

دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں افراد نے یہی حرکت کی۔ آمر مطلق اور اس کی بیوی حواس باختہ ہو گئے اور یوں اقتدار اس کے ہاتھوں سے پھسل گیا لیکن نکولس کے جانے کے بعد بھی اقتدار عوام کے ہاتھوں میں نہ آیا بلکہ کمیونسٹ پارٹی ہی کے ایک سابق رکن نے خود کو جمہوریت پسند ظاہر کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ آج بھی اسی ٹولے کی حکومت ہے اور وہ عوام جنہوں نے زندگیاں خطرے میں ڈال کر آمر کو للکارا تھا وہ چونکہ منظم نہیں تھے اس لئے ان کو نہ تو اقتدار ملا اور نہ ہی کوئی سہولت ملی بلکہ الٹا نئی جنتا نے سرکاری ادارے لوٹ کر ان پر بھی قبضہ کر لیا۔

انسانی تاریخ اور نظریہ ارتقاء کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ کسی بھی ملک، نسل یا قبیلے میں تبدیلی منظم ہوئے بغیر نہیں آ سکتی۔ پاکستان نے بھی اگر تبدیل ہونا ہے تو معاشرے کے متحرک طبقات کو منظم ہونا ہو گا۔ حکومتی پارٹی پی ٹی آئی اپنے رینک اینڈ فائل کو منظم کر لے تو اس کی اصلاحات پر عمل ہو سکے گا وگرنہ انقلاب روس یا رومانیہ کے انقلاب کی طرح تبدیلی کا پھل عوام نہیں بلکہ اشرافیہ اور انتخابی گھوڑے کھائیں گے۔ سائنس دان اور تاریخ دان اس پر متفق ہیں لیکن کیا پاکستان میں ایسا ہو سکے گا؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے