ہم اس وقت اپنے معاشی بدن کو کھچاؤ اور اکڑاؤ سے بچانے کے لیے لگ بھگ بارہ بلین ڈالر کے انجکشن کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔آنکھیں چین اور سعودی عرب کی طرف اور ہاتھ آئی ایم ایف کی طرف۔ ہمیں پانی کیذخائر بھی بنانے ہیں مگر پیسہ نہیں لہذا چندہ بکس چوک پر رکھ دیا گیا ہے۔پیسے بچانے کے لیے ہم کفائیت شعاری کے نت نئے طریقے بھی سوچ رہے ہیں۔
کوئی مشورہ دے رہا پنیر کی درآمد ختم کر دو ،کوئی کہہ رہا ہے وزیرِِ اعظم ہاؤس،گورنر ہاؤسز اور ریلوے کی زمین بیچ دو یا پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کر لو،کوئی کہہ رہا ہے لوٹی دولت سوئٹزرلینڈ کے لاکرز سے جتنی جلد نکل آئے تو دلدر دور ہو جائیں۔غرض جتنے منہ اس سے زیادہ باتیں۔مگر کوئی بیل کو سینگوں سے پکڑنے پر تیار نہیں۔
ملک کو اس وقت تینتیس ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔جتنی بھی درآمدات ہیں ان میں سے ایک تہائی کا تعلق ایندھن سے ہے کیونکہ زندگی کا پہیہ رواں رکھنے کے لیے توانائی درکار ہے۔ہماری چونسٹھ فیصد توانائی وہ پلانٹ پیدا کرتے ہیں جنھیں باہر سے خریدا تیل،ایل این جی اور کوئلہ رواں رکھتا ہے، تیس فیصد بجلی ہم پانی سے پیدا کرتے ہیں، تین فیصد ایٹم سے اور ایک فیصد سے بھی کم شمسی پینلوں اور بادبانی پنکھوں سے۔
دوسری طرف جو دنیا ہے وہ اس وقت پندرہ سے بیس فیصد توانائی سورج اور ہوا سے پیدا کر رہی ہے۔ دنیا میں اس وقت شمسی توانائی قید کرنے کے لیے جتنے فوٹو وولٹک سیل بنائے جا رہے ہیں ان کی چونسٹھ فیصد پروڈکشن چین میں ہو رہی ہے۔چین کے انرجی گرڈ میں آج کے دن جتنی توانائی ہے اس کا چوبیس فیصد پانی، سورج اور ہوا سے پیدا ہو رہا ہے۔اور ہم ہیں کہ چین کی مدد سے کوئلے سے چلنے والے پلانٹ لگا رہے ہیں اور ساتھ ساتھ یہ واویلا بھی کر رہے ہیں کہ پاکستان کا شمار ان دس ممالک میں ہے جن کی دہلیز پر ماحولیاتی تباہی کھڑے کھڑے دانت نکوس رہی ہے۔
جرمنی کی ستائیس فیصد، ڈنمارک کی چودہ فیصد اور امریکا کی چھ فیصد انرجی ضروریات سورج اور ہوا سے پوری ہو رہی ہیں۔پسماندہ مغرب اپنے انرجی گرڈ سے زمینی ایندھن،اور ایٹم کو رفتہ رفتہ خارج کر کے سورج کی روشنی اور ہوا کو قید کرنے میں مصروف ہے۔اور ٹارگٹ یہ ہے کہ دو ہزار پچاس تک پسماندہ مغرب پچاس فیصد توانائی زمین کے نیچے پیدا ہونے والے ایندھن سے نہیں بلکہ بے رنگ و بے بو ہوا اور روشنی سے حاصل کرے گا۔ پسماندہ مغرب بہت پہلے اس نتیجے پر پہنچ چکا کہ بڑے ڈیم اور سگریٹ قومی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔پانی کو اگر رساؤ کی ٹیکنالوجی کے ذریعے زیرِ زمین جمع کیا جا سکتا ہے تو زمین کے اوپر ماحولیاتی ابتری کی قیمت پر بڑی بڑی مصنوعی جھیلیں بنانے کی کیا ضرورت ہے۔
جنہوں نے ہمیں توانائی کے حصول کے لیے پٹرولچی اور گیسچی بنایا وہ تو سورج اور ہوا پر کمند ڈال رہے ہیںاور ہم ہیں کہ سیکنڈ ہینڈ آلودہ سگریٹ میں پناہ تلاش کر رہے ہیں۔نشہ اتنا تیز ہے کہ ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ جو پانی ہم ڈیم کی جھیل میں جمع کرنا چاہ رہے ہیں اس سے دس گنا پانی ہمارے پیروں تلے کی زمین میں محفوظ ہے۔ بس یہ کرنا ہے کہ سالانہ سیلاب اور مون سون کے پانی کو سائنسی سلیقے سے اس طرح پھیلا کر جذب کروانا ہے کہ وہ قدرت کے زیرِ زمین بینک میں ڈپازٹ ہوتا رہے۔یعنی پانی زمین سے اور توانائی سورج اور ہوا سے۔
اچھی گزر رہی ہے دلِ خود کفیل سے
لنگر سے روٹی لیتے ہیں پانی سبیل سے
(احمد جاوید )
پاکستان کا شمار ان خوش قسمت ممالک میں ہے جہاں سال بھر سورج کی روشنی اور ہوا کا بہاؤ وافر ہے۔یہ جملہ آپ کی سمجھ میں اگر نہ آ رہا ہو تو کسی نارویجن ، برطانوی یا ڈینش سے پوچھئے کہ سورج کی روشنی کا سال بھر رہنا کیا معنی رکھتا ہے۔شمالی یورپ و شمالی امریکا و روس میں سال کے بیشتر دنوں میں سورج ایسے نکلتا ہے جیسے ہمارے ہاں غریب قرض دار گھر سے نکلتا ہے۔کسی بھی دن سورج کی روشنی صبح سے شام تک قائم رہنا ایک خوش کن خبر ہے۔ (سورج کی روشنی سے کندن بنی اردو، پنجابی، پشتو، سندھی، سرائیکی اور بلوچی میں میں آپ کو ’’ وٹ اے برائٹ سنی ڈے ‘‘کا متبادل کوئی روزمرہ ملے تو مجھے بھی بتائیے گا )۔
یوں سمجھئے جیسے قدرتی گیس میں روس اور پٹرول میں سعودی عرب ہے ویسے ہی شمسی و بادبانی توانائی کے اعتبار سے پاکستان ایک ایسے خطے میں گڑا ہے جہاں باآسانی صرف پانی، روشنی اور ہوا سے پچاس ہزار میگاواٹ تک توانائی پیدا کی جا سکتی ہے۔نہ پٹرول کے لیے پاؤں پڑنے کی ضرورت، نہ ایل این جی معاہدوں کی چھان پھٹک کی کھکیڑ ، نہ کوئلے کے ذرات سے پھیپھڑے بچانے کا جھنجھٹ۔مگر حالت یہ ہے کہ اس وقت نیشنل گرڈ میں لگ بھگ جو بیس ہزار میگاواٹ بجلی دوڑ رہی ہے، اس میں ایک ہزار میگاواٹ سے بھی کم بجلی کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ شمسی توانائی اور ہوا سے حاصل ہو رہی ہو گی۔
تحریکِ انصاف کے منشور میں توانائی کے متبادل صاف ستھرے ذرایع کو ترقی دینے کا وعدہ بھی شامل ہے۔ خیبر پختون خواہ کے شوریدہ نالوں پر مائیکرو ہائیڈرو پلانٹس کی حوصلہ افزائی کا بھی پیمان ہے۔
اگر موجودہ حکومت شمسی و بادبانی توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کو چند برس کے لیے ٹیکس فری کردے اور پاور سیکٹر کو ایک سو بیس ارب روپے کی سالانہ امدادی رقم کا ایک حصہ شمسی و بادبانی توانائی کے شعبے اور ٹیکنالوجی کی جانب موڑ دے اور عام آدمی کو اختیار دے دے کہ ’’ اپنی بجلی آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے‘‘۔تو امکان ہے کہ پانچ برس کے اندر بائیس کروڑ میںسے ان چھ کروڑ افراد کو بھی روشنی نصیب ہو جائے گی جو اس وقت نیشنل گرڈ سے کٹے علاقوں میں رہ رہے ہیں۔شمسی و بادبانی توانائی سے ٹیوب ویل چلے گا تو زیرِ زمین پانی بھی فصل اور گھریلو ضروریات کے لیے میسر آ سکے گا بشرطیکہ حکومت زیرِزمین آبی ذخائر کو قدرتی انداز میں بھرنے کی حکمتِ عملی کو بھی ڈیموں کی تعمیر کے برابر کی اہمیت دے۔
دو ہزار تین میں مشرف حکومت نے متبادل توانائی منصوبوں کی حوصلہ افزائی و ترقی کے لیے آلٹرنیٹو انرجی ڈویلپمنٹ بورڈ قائم کیا تھا۔سنا ہے یہ بورڈ روایتی انرجی اور ایندھن پر پلنے والی مافیا کے پنجوں تلے کہیں سسک رہا ہے۔کیا پی ٹی آئی حکومت اس بورڈ کو فوری تلاش کر کے شوکت خانم اسپتال میں چیک اپ کے لیے داخل کرا سکتی ہے تاکہ وہ بھی جی لے۔