ہم سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں بیٹھے ہوئے تھے ،دن چڑھ چکا تھا. اچانک حضرت امِ ایمن رضی اللہ عنہا آتی ہیں اور کہتی ہیں کہ اے اللہ کے رسول..! حسن و حسین مل نہیں رہے ،نہ جانے کہاں ہیں ..؟ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں . یہ سنتے ہوئے ہی رحمتِ کائنات ہمیں فرماتے ہیں .چلیے ..میرے ان دونوں بچوں کو تلاش کرتے ہیں .اب مجلس میں موجود تمام صحابہ کرام حضرت حسن و حسین کو معلوم کرنے نکل پڑتے ہیں .حضرت سلمان کہتے ہیں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا .ہم چلتے چلاتے ایک پہاڑ کے دامن میں پہنچ جاتے ہیں .وہاں جا کر ایک عجیب منظر دیکھتے ہیں کہ حضرت حسن و حسین ایک دوسرے سے چمٹے کھڑے ہیں اور ان کے قریب ایک کالا سانپ اپنی دم پھیلائے کھڑا ہے .حضور علیہ السلام جلدی سے اس ناگ کی طرف بڑھتے ہیں .جب وہ ناگ آپ کو اپنی جانب آتا دیکھتا ہے تو مڑکر چل پڑتا ہے اور ایک سوراخ میں داخل ہوجاتا ہے .نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے قریب ہوتے ہیں اور پیار سے ان کے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہیں اور فرماتے ہیں "میرے ماں باپ تم دونوں پر قربان ہوں .تم دونوں اللہ کے ہاں کتنے قابل احترام ہو .”پھر آپ نے ایک کو دائیں کندھے اور دوسرے کو بائیں کندھے پر بٹھالیا. میں نے یہ سہانا منظر دیکھ کر کہا کہ ….واہ .تم کتنے خوش نصیب ہو .تمہاری سواری بہت ہی عمدہ ہے .آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ سوار بھی تو بہت عمدہ ہیں اور ان کے والدین ان دونوں سے بہتر ہیں .(مجمع الزوائد جلد 5صفحہ 182 )
ایک بار ہادئ عالم جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرمارہے تھے .اسی دوران حضرت حسن و حسین کھیلتے ہوئے ادھر آگے .لڑکھڑاتے ہوئے آپ کی جانب بڑھے .انہیں دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے نیچے اتر پڑے ،ان دونوں کو اٹھایا اور اپنے سامنے بٹھایا اور فرمایا کہ اللہ تعالی نے سچ فرمایا ہے کہ تمہارا مال اور تمہاری اولاد آزمائش ہیں .میں نے ان دونوں کو لڑکھڑاتے ہوئے آتے دیکھا تو مجھ سے رہا نہ گیا .یہاں تک کہ میں نے اپنا خطبہ منقطع کردیا اور انہیں اٹھالیا .(ترمذی جلد 2 صفحہ 219 )
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں .ایک رات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک اہم کام کے سلسلہ میں حاضر ہوا ،میں نے دیکھا کہ آپ کی چادر میں کوئی چیز چھپی ہوئی ہے .میں نے جاتے وقت آپ سے دریافت کیا کہ حضور ..! اس چادر میں کیا ہے ..؟ آپ نے چادر ہٹائی تو حضرت حسن و حسین باہر آئے .پھر آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ دونوں میرے بچے ہیں ،میری بیٹی کے بیٹے ہیں . "اے اللہ ..! مجھے ان سے محبت ہے .آپ بھی ان سے محبت فرمائیے .(ترمذی 2 ص 218 )
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ ایک مرتبہ سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک فرشتہ آیا جو اس سے پہلے کبھی نہ آیا تھا ،اس نے مجھے سلام کیا پھر یہ خوشخبری دی کہ "فاطمہ جنت کی عورتوں کی اور حسن و حسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں .”(البدایہ ج 8 ص 206)
ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا کررہے تھے اور وہ دونوں کھیل رہے تھے .جب آپ سجدے میں گے حضرت حسین آپ کی پیٹھ پر بیٹھ گے تو آپ نے اس وقت تک سر نہ اٹھایا جب تک وہ نیچے نہ اتر آئے .(سنن نسائی ج1 ص 172 )
حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کہیں جارہے تھے .راستہ میں حضرت حسین بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے .آپ نے انہیں پکڑنے کے لیے ہاتھ آگے کیا تو حضرت حسین دوڑ پڑے .آپ یہ دیکھ کر مسکرائے اور ان کے پیچھے دوڑنے لگے .جب آپ نے انہیں چھولیا تو انہیں گلے سے لگایا ، چوما اور فرمایا کہ ” حسین مجھ سے اور میں حسین سے ہوں .اللہ تعالی اس شخص سے محبت کرے جس نے حسین کو محبوب رکھا ،حسین تو اولاد میں سے ایک فرزند ارجمند ہے .(سنن ابن ماجہ ص 14 )
حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت حسن و حسین کشتی کررہے تھے .آپ فرمانے لگے کہ شاباش حسین ،شاباش .حضرت فاطمہ یہ سن کر پوچھنے لگیں کہ آپ نے یہ کیوں فرمایا .؟ آپ نے جوابا فرمایا کہ ابھی جبرائیل علیہ السلام آئے تھے اور کہہ رہے تھے ھی حسین ، شاباش حسین
(الاصابہ ج 1 صفحہ 332 )
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ کے ہاں آئے تو دیکھا کہ حضرت حسین رورہے ہیں .آپ نے حضرت فاطمہ سے فرمایا کہ کیا تمہیں پتہ نہیں ..حسین کے رونے سے مجھے تکلیف ہوتی ہے .(سیر اعلام النبلاء صفحہ 1487)
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی پیدائش شعبان چار ہجری میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے ایک سال بعد ہوئی .جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر میں دوسرے بچے کی پیدائش کا علم ہوا تو آپ گھر تشریف لائے ،بچے کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے ،کان میں اذان دی ،تحنیک (منہ میں گٹی ڈالنا )فرمائی اور نام پوچھا تو بتایا گیا حرب .آپ نے فرمایا نہیں ، اس کا نام حسین ہوگا .پھر آپ نے بچے کا عقیقہ کرنے اور سر کے بال اتار کر اس کے ہم وزن چاندی صدقہ کرنے کی ہدایت کی .بعد ازاں آپ کو حضرت ام فضل کے سپرد کردیا گیا .وہ ان کو اس وقت تک دودھ پلاتی رہیں جب تک انہوں نے چلنا نہ سیکھا .
آپ سات برس کے تھے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا حادثہ جانکاہ پیش آگیا تھا .
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ مبارک اور سیرت مقدسہ جاننے کا بہت اشتیاق تھا .آپ اس سلسلہ میں حضرت حسن سے بھی بازی لے گے تھے . (شمائل ترمذی صفحہ 14 میں ہے) خود حضرت حسن فرماتے ہیں ” میں نے اپنے ماموں ہند بن ابی ہالہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ مبارک پوچھا اور وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ بہت زیادہ اور اور بہت اچھا بیان کرتے تھے .مجھے خواہش ہوئی کہ وہ میرے سامنے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل و صورت بیان کریں .تو انہوں نے آپ کا حلیہ مبارک مجھے بتایا .میں نے ایک عرصہ تک اس کو حسین رضی اللہ عنہ سے چھپائے رکھا .جب ایک زمانہ کے بعد انہیں بتایا تو معلوم ہوا کہ وہ مجھ سے بھی پہلے اس بات کو سن چکے ہیں .اور صرف یہی نہیں بلکہ والد ماجد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر آنے اور واپس جانے کا طرز بھی جان چکے ہیں .
آپ میں تواضع ،عجز و انکساری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی .آپ گھوڑے پر سوار کہیں جارہے تھے .راستہ میں چند غریب لوگوں کو دیکھا جو زمین پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے .آپ نے انہیں سلام کیا اور وہ آپ کو پہچان گے اور کہنے لگے اے رسول اللہ کے نواسے ..! تشریف لائیے ..آپ گھوڑے سے اتر پڑے اور ان کے ساتھ وہیں بیٹھ کر کھانا کھانے لگے .آپ نے اس وقت یہ بھی فرمایا کہ اللہ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا .(الجوہرہ جلد 2 صفحہ 213)
آپ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہما کو علامہ ابن قیم نے ان حضرات کی فہرست میں شمار کیا جو فتوی دیا کرتے تھے .آپ علم و فضل کے اعلی مقام پر فائز تھے .لوگ آپ سے مسائل پوچھتے تھے اور آپ ان کے سوالات کے فقہی مدلل جوابات دیتے تھے .
آپ اپنے وقت کے ایک بڑے خطیب بھی تھے .آپ کا انداز بیان نہایت اثر انگیز ہوتا تھا .آپ فصیح اور شستہ عربی میں خطاب فرماتے .مسجد نبوی میں آپ کی علمی مجلس لگا کرتی تھی .جس میں دور دور سے لوگ آپ سے اکستاب فیض کے لیے جوق در جوق شرکت کرتے . تہذیب تاریخ ابن عساکر صفحہ 322 میں درج ہے کہ ایک بار حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کسی آدمی کو مدینہ منورہ کام کے لیے بھیجا تو اس کو کہا کہ جب تم مسجد نبوی میں جاؤگے وہاں تمہیں ایک ایسی پروقار اور پرسکون مجلس نظر آئے جس کے سامعین کے سروں پر گویا کہ پرندے بیٹھے ہوں .وہ مجلس حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی ہوگی .
آپ صاحب کرامات وبرکات عظیم المرتبت صحابی تھے .آپ کی متعدد کرامات نے بہت سے لوگوں کو متاثر کیا .طبقاتِ ابن سعد جلد 5 صفحہ 110 میں لکھا ہوا ہے کہ ابوعون کہتے ہیں کہ جب آپ مکہ مکرمہ کے ارادے سے مدینہ منورہ روانہ ہوئے تو راستہ میں آپ کا گزر عبداللہ بن مطیع کے پاس سے اس وقت ہوا جب وہ کنواں کھود رہے تھے .ابنِ مطیع نے آپ کو کہا کہ میں نے اپنے اس کنواں کو اس لیے ٹھیک کیا تاکہ اس میں دوبارہ پانی آجائے لیکن ابھی تک پانی نہیں آیا .ڈول خالی ہی نکلا ہے .آپ ہمارے کنویں میں برکت کے لیے دعا فرمائیں .یہ سن کر حضرت حسین نے فرمایا تھوڑ ساپانی لاو .تو ابن مطیع پانی لے کر آپ کے پاس آئے ،آپ نے اس سے تھوڑا سا پیا، کلی کی پھر وہ پانی اس کنویں میں ڈال دیا تو اس کا پانی زیادہ بھی ہوگیا اور میٹھا بھی .
آئیے …اب دیکھتے ہیں کہ صحابہ کرام خصوصا حضرت ابوبکر ،عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم انہیں کس قدر احترام اور اکرام کی نگاہ سے دیکھتے تھے .
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں حضرت حسین بہت کم عمر تھے .آپ اکثر و بیشر حضرت علی سے ان کے بارے میں پوچھا کرتے تھے .جب ملاقات ہوتی تو پیار فرماتے اور کبھی کبھار ان کے ہاتھ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لیے ہدیہ بھی بھجواتے. آپ کے دور میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں مقامِ حیرہ فتح ہوا تو وہاں سے بہت سا مال آپ کی خدمت میں آیا .حضرت ابوبکر نے ان میں سے طیلسان کی قیمتی اور خوبصورت چادر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو تحفہ میں عنایت کی .(فتوح البلدان ص 254)
عہد فاروقی کے آخری دنوں میں آپ سنِ شعور کو پہنچ چکے تھے .حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ان کا بہت خیال فرماتے تھے .ریاض النضرہ ص 340 میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں "حضرت فاروق اعظم کے دور میں جب اللہ تعالی نے بے شمار فتوحات عطا فرمائیں ،مال و متاع آیا .وہ سب کا سب مسجد میں رکھا گیا ،سارے صحابہ کرام تشریف لے آئے .سب سے پہلے حضرت حسن آتے اور کہتے ہیں .اے امیر المومنین. .! ہمیں ہمارا وہ حق عطا فرمائیے جو اللہ نے مسلمانوں پر عائد کیا ہے .آپ نے مرحبا کہتے ہوئے ایک ہزار درہم دینے کا فرمایا.پھر حضرت حسین آگے بڑھے اور اسی طرح کہا تو آپ نے ان کے لیے بھی ایک ہزار درہم کا حکم کیا .جب آپ کے صاحبزادے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی باری آئی تو آپ نے ان کے لیے پانچ سو درہم کا اعلان کیا .اس پر حضرت ابن عمر نے کہا کہ میرے لیے پانچ سو کیوں …؟ میں نے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد بھی کیا ہے .اس وقت تو حضرت حسن و حسین بہت چھوٹے تھے .حضرت عمر نے یہ سن کر فرمایا کہ ” بیٹا .! یہ بات درست ہے .لیکن مجھے ایسا باپ لاکر دکھاؤ جیسا ان دونوں کا ہے .ایسی ماں لاؤ جیسی ان کی ہے .ایسا نانا لاؤ جیسا ان کا تھا .آپ ایسا نہیں کرسکو گے کیوں کہ ان کے والد حضرت علی مرتضی ہیں ،والدہ فاطمہ زھراء ہیں .ان کی نانی حضرت خدیجہ الکبری، خالہ رقیہ، زینب اور ام کلثوم ہیں .چچا حضرت جعفر اور ماموں ابراہیم بن محمد ہیں .
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنے دور خلافت میں انہیں اپنے ہمراہ عمرہ پر لے گے .راستہ میں حضرت حسین بہت زیادہ بیمار ہوگے .حضرت عثمان نے چاہا کہ وہ عمرہ کا ارادہ ملتوی کرکے حضرت حسین کے ساتھ رہیں .مگر حضرت حسین نے ان کو قسم دے کر کہا کہ آپ عمرہ ادا کرنے چلے جائیے .
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آپ کو ہدایا بھی بھیجتے رہتے تھے .
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت ابوہریرہ کے عشق و محبت کا اندازہ لگائیے کہ ایک مرتبہ آپ اور حضرت حسین کسی جنازہ پر تشریف لے گے .واپسی پر ایک جگہ پر حضرت حسین آرام فرمانے کے لیے لیٹ گے .ابو المہزم راوی کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضرت ابوہریرہ ،حضرت حسین کے قدموں پر لگی غبار اپنی چادر سے صاف کرنے لگے .حضرت حسین نے انہیں کہا کہ آپ ایسا نہ کریں .حضرت ابوہریرہ نے قسم کھا کر کہا کہ ” خدا کی قسم جو میں آپ کے متعلق جانتا ہوں ،اگر دوسرے لوگ بھی اس کو جان لیں تو آپ کو اپنے کاندھوں پر اٹھالیں .(تاریخ طبری جلد 3 صفحہ 19 )
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ ایک دن خانہ کعبہ کے سایہ میں تشریف فرما تھے .اتنے میں حضرت حسین کا وہاں سے گزر ہوا تو آپ انہیں دیکھ کر سب کے سامنے کہنے لگے کہ ” یہ ہستی تمام باشندگانِ زمین میں سے آسمان والوں کے ہاں زیادہ محبوب ہے .”(البدایہ جلد 8 صفحہ 207)
آخرمیں حضرت سید نفیس الحسینی کے عشق و محبت سے لبریز اشعار پڑھیے ..
دوشِ نبی کے شاہسواروں کی بات کر
کون و مکان کے راج دلاروں کی بات کر
جن کے لیے کوثر و تسنیم موجزن
ان تشنہ کام بادہ گساروں کی بات کر
خلد بریں جن کے تقدس کی سیر گاہ
ان خوں میں غرق غرق نگاروں کی بات کر
کلیوں پہ کیا گزری پھولوں کو کیا ہوا
گلزارِ فاطمہ کی بہاروں کی بات کر
جن کے نفس نفس میں تھے قرآن کھلے ہوئے
ان کربلا کے سینہ فگاروں کی بات کر