اب کتابیں کون پڑھے

ہمارے معاشرے میں لوگوں کو کتاب پڑھنے کی ترغیب دینا ایسا ہی ہے جیسے کسی مسلمان کو شاکاہاری (vegetarian) بنانے کی کوشش کرنا۔ کتابوں سے ہم پرہیز کرتے ہیں ایسے جیسے کوئی سرکاری ملازم کام سے پرہیز کرتا ہے۔ مجھے الماریوں میں سجی کتابیں بہت اچھی لگتی ہیں اسی لئے میں انہیں وہاں سے نکال کر ترتیب خراب نہیں کرتا۔ کتاب نہ پڑھنا باعث شرمندگی ہے اور نہ پڑھنے کا اعتراف کرنا باعث ذلت۔ اسی لئے ہم میں سے کوئی بھی یہ اعتراف نہیں کرتا کہ اُس نے فلاں مشہور کتاب نہیں پڑھی۔

جب بھی کسی محفل میں کتاب کے حوالے سے بحث ہو تو اپنی نالائقی چھپانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اُن مشکل مگر مشہور کتب کا حوالہ دیں جنہیں پڑھنے کا حوصلہ کسی میں نہیں ہوتا، سارتر کی ’’وجودیت‘‘ اِس ضمن میں بہت مفید ثابت ہو سکتی ہے، کئی سو صفحات کی یہ دقیق کتاب اول تو کسی نے پڑھی نہیں ہوگی اور اگر پڑھی ہوگی تو سمجھ نہیں آئی ہوگی، سو آپ نہایت اطمینان سے اس کے بارے میں اظہار خیال فرما سکتے ہیں، اسی طرح امانویل کانٹ کی Critique of Pure Reasonجس کا ترجمہ ’’تنقید عقل محض‘‘ کیا جا سکتا ہے ایک ایسی کتاب ہے جس کا حوالہ بغیر کھٹکے دے سکتے ہیں،

کوئی مائی کا لعل آپ کو نہیں روکے گا، میں نے یہ دونوں کتابیں نہیں پڑھیں مگر حوالہ دینے میں کیا حرج ہے! نوجوان نسل کے لئے چونکہ اس قسم کی کتب کا نام یاد رکھنا بھی مشکل ہے سو وہ اس جھنجھٹ میں نہیں پڑتے، ایسے موقعوں کے لئے انہوں نے منٹو کے افسانے اور فیض کی شاعری رکھ چھوڑی ہے، جہاں کہیں کسی نے کتاب کی بات کی وہاں کھٹ سے یہ دو نام لئے اور جان چھڑا لی، یہ اور بات کہ اُن کا مطالعہ ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ اور ’’ہم دیکھیں گے‘‘ پہ ختم ہو جاتا ہے، اول الذکر کالج کی کتاب میں پڑھا تھا اور موخر الذکر نظم ٹی وی پر سنی تھی۔ لیکن ٹھہریئے، یہ کالم نوجوانوں کی مذمت میں نہیں اور نہ ہی اِس قسم کے ٹوٹکے بتانے کے لئے ہے جو کتاب نہ پڑھنے کے ضمن میں ہونے والی شرمندگی سے بچاتے ہیں۔

دراصل چند دن پہلے یار جانی عرفان جاوید سے ملاقات ہوئی، موصوف کا کمال یہ ہے کہ پورے اردو اور انگریزی ادب کا ایک کیپسیول سا بنا کر گھول کے پی چکے ہیں، ایذرا پاؤنڈ سے بات شروع کرتے ہیں تو اسی پر گھنٹہ بھر کا لیکچر دے ڈالتے ہیں، ادھر اپنا یہ حال ہے کہ کسی عذرا کو میں جانتا نہیں اور پاؤنڈ کے بارے میں اتنا پتہ ہے کہ ایک سو تریسٹھ روپے کا ہو چکا ہے، بس۔

ایسے میں عرفان جاوید کو دیکھ کر بندہ سوچتا ہی رہ جاتا ہے کہ اِس شخص نے اتنی کتابیں کیسے پڑھی ہوں گی، اوپر سے موصوف خود بھی لکھاری ہیں، کچھ عرصہ پہلے ان کا ایک افسانہ پڑھا ’’فیروز بے خبر کا ماجرا‘‘ اور حیرت میں ڈوب گیا، ایسی خواب آلود تحریر کہ آدمی اس کے سحر میں ڈوبتا ہی چلا جائے، انسان کی بے بسی اور تحیر کی ایک عجیب داستان، اور ساتھ میں لاہور کی ایسی منظر کشی جو آپ کو مبہوت کردے۔ عرفان جاوید کی ٹکر کا دوسرا صاحب مطالعہ شخص جسے میں جانتا ہوں، وجاہت مسعود ہے، موصوف نہ صرف ہند سندھ کی کتابیں گھول کر پی چکے ہیں بلکہ یادداشت بھی ڈاکٹر ذاکر نائیک جیسی پائی ہے۔ متذکرہ ملاقات میں عرفان نے مشورہ دیا کہ میں مہینے میں ایک آدھ کالم کتابوں کے بارے میں بھی لکھ دیا کروں۔

جناب کا میرے بارے میں حسن ظن ہے کہ میں بھی اُن کی طرح ہر وقت کلاسیکی ادب میں ڈوبا رہتا ہوں اور چونکہ وہ بھلے آدمی ہیں اس لئے میں نے کبھی اُن کی بات کی تردید نہیں کی کہ خواہ مخواہ ایک مومن بھائی کا دل ٹوٹ جائے گا۔ مشورہ البتہ اُن کا اچھا تھا۔ کتابوں پر کالم لکھنے کے دو فائدے ہوں گے، پہلا، میری علمیت کا رعب پڑ جائے گا بالکل ویسے جیسے اپنے ہاں آج کل ٹی وی پر ٹھکاٹھک اعداد و شمار جھاڑنے سے بندہ خواہ مخواہ قابل لگنے لگتا ہے چاہے یہ اعداد و شمار اُس نے واٹس ایپ سے ہی کیوں نہ اکٹھے کئے ہوں، دوسرا،کالم لکھنے کے لئے زیادہ سر نہیں کھپانا پڑ ے گا، کوئی ایک کتاب پکڑی اور اسی کے اقتباسات سے مضمون بنا لیا، اللہ اللہ خیر سلا۔

مگر یہ عشق نہیں آساں۔ کتابیں پڑھنی پڑتی ہیں ورنہ انسان اور حیوان میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ بقول مارک ٹوئن جو شخص مطالعہ نہیں کرتا اسے ان پڑھ آدمی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں جو مطالعہ کر نہیں سکتا۔ کتابیں پڑھے بغیر بھی زندگی گزاری جا سکتی ہے اور کروڑوں لوگ گزار رہے ہیں مگر ایسی زندگی میں کوئی نظریہ ہوتا ہے نہ کوئی سوچی سمجھی رائے، کھوکھلی دانش اور جملے بازی پر گزارا کرتے ہوئے اگر کوئی شخص کسی ڈنگر کی طرح زندہ رہنا چاہتا ہے تو یہ اس کی مرضی ہے، ایسے بندے کا کچھ نہیں بگاڑا جا سکتا۔

مصیبت مگر یہ ہے کہ رنگا رنگ قسم کی تفریحات کو چھوڑ کر دقیق اور خشک کتابیں کیونکر پڑھی جائیں، انگریزی میں چھوٹے فونٹ پر چھپی پانچ سو صفحوں کی کتاب کو تو دیکھ کر ہول اٹھتا ہے کہ اسے کیسے ختم کیا جائے گا! لیکن یہ سب بہانے بازیاں اور مطالعہ نہ کرنے کے حیلے ہیں۔ اگر آپ واقعی مطالعہ کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے مارک ٹوئن کا قول لکھ کر اپنے کمرے میں لٹکا لیں تاکہ آتے جاتے اس پر نظر پڑتی رہے اور خود کو شرم آتی رہے۔ دوسرا کام یہ کریں کہ پڑھنے کے لئے وہ کتاب اٹھائیں جسے پڑھنے میں آپ کو لطف آئے، بھول جائیں کہ لوگ فیشن کے طور پر کس ناول نگار کو بڑا کہتے ہیں یا نقادوں کی رائے میں کون سا افسانہ نگار بلند پائے کا ہے، جو آپ کو پسند ہے وہی اچھا ہے، پڑھ ڈالئے۔

جب آپ کو پڑھنے کی لت لگ جائے تو پھر اُن ادیبوں کو بھی آزمایا جا سکتا ہے جو پہلے آپ سے نہیں پڑھے گئے مگر جن کا نام مشہور ہے، ان کے نمائندہ افسانے اور ناول سے آغاز کریں، آسانی رہے گی۔ چلئے ابھی آغاز کرتے ہیں، ذہن میں تین چار افسانے آ رہے ہیں، نیر مسعود کا ’’طاوس چمن کی مینا‘‘، غلام عباس کا ’’کن رس‘‘، اسد محمد خان کا ’’عون محمد وکیل، بے بے اور کاکا‘‘ اور احمد ندیم قاسمی کا ’’بین‘‘۔ یہ کوئی انتخاب نہیں بس پڑھنے کے لئے چھوٹی سی پڑیا سمجھیں۔ غیر ملکی کہانیوں کا نشہ لگانے کا بھی ایک آسان نسخہ ہے۔ صغیر ملال کے منتخب کردہ غیرملکی افسانے کہیں سے تلاش کرکے خرید لیں اور مستقلاً اپنے سرہانے رکھ لیں، یہ وہ کتاب ہے جو آپ کو غیر ملکی ادب کی لت لگا دے گی، صغیر ملال کا نہ صرف انتخاب اعلیٰ ہے بلکہ ہر ادیب کے فن کے بارے میں اس کا تبصرہ بھی لاجواب ہے۔ یہ میری پسندیدہ ترین کتابوں میں سے ایک ہے۔

نان فکشن کتابوں کے ضمن میں کوشش کریں کہ ایسی کتابیں پڑھیں جن میں ایک کتاب میں کئی کتابوں کا خلاصہ سمو دیا گیا ہو یعنی ایسی کتابیں جو جدید لکھاریوں نے دریا کو کوزے میں بند کرنے کے اصول کو سامنے رکھ کر لکھی ہوں اور اُن میں سو فسطائیوں سے لے کر سارتر تک کے فلسفے کو زپ لگا کر سی دیا گیاہو۔ یاد رکھیں کہ کسی کے پاس افلاطون کی تمام کتابوں سے لے کر کارل پوپر کی کتابوں کو پڑھنے کی فرصت نہیں۔ بنیادی ماخذ اور کلاسک کتابیں صرف فلسفی، محقق اور جیل کے قیدی پڑھتے ہیں۔

کالم کی دُم:یہ کالم اس مفروضے کو بنیاد بنا کر لکھا گیا ہے کہ ہم لوگ کتابیں نہیں پڑھتے، اگر اس کے جواب میں کوئی صاحب یا صاحبہ مجھے یہ بتائیں کہ اس ملک میں کتابیں بہت بکتی ہیں جیسے کہ ’’پارلیمنٹ سے بازار حسن تک‘‘ اور ’’موت کا منظر، مرنے کے بعد کیا ہو گا‘‘ تو اُن سے میری گزارش ہوگی کہ اِن کی ایک کاپی مجھے بھیج دیں، میں اب تک ان کتب کے مطالعے سے محروم ہوں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے