آرٹیکل 6 بھلے نہ لگتا ہو ، پاکستان کے خلاف آبی اور ماحولیاتی جارحیت میں آلہ کار بننے والوں پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 121 تو نافذ ہو ہی سکتی ہے ۔ موت یا عمر قید جس کی سزا ہے ۔ یاد رہے طاہر القادری نے لاہور میں ایک پریس کانفرنس کی تھی اور شریف حکومت نے اسے ’ ریاست کے خلاف جنگ‘ قرار دیتے ہوئے پانچ اگست 2014کو ان پر داتا دربار پولیس سٹیشن میں دفعہ 121 کے تحت مقدمہ درج کر دیا تھا ۔ ایک پریس کانفرنس پر اگر دفعہ 121 لگ سکتی ہے تو پاکستان کے خلاف آبی اور ماحولیاتی جارحیت کے مرتکب لوگوں پر یہی دفعہ کیوں نہیں لگ سکتی؟
افغانستان دریائے کابل پر بھارت کے تعاون سے بارہ ڈیم بنا نے لگے تو کوئی قوم پرست سیاست دان آواز نہیں اٹھاتا کہ نوشہرہ اور پشاور کو پانی کے بحران کا سامنا ہو سکتا ہے لیکن پاکستان ڈیم کی بات کرے تو اودھم مچا دیا جاتا ہے ۔ کالاباغ جیسا ڈیم جو اللہ کی نعمت تھا ہم نے متنازعہ بنا دیا ، آپ کیا سمجھتے ہیں یہ محض اتفاق ہے؟
اتفاق نہیں ، یہ سب ایک منصوبہ ہے ۔ اور اپنے اپنے مفادات کے لیے سب اس کا حصہ ۔ کبھی سوچا آپ نے کہ ڈیم بن جائیں اور پاکستان بجلی میں خود کفیل ہو جائے تو کس کس کا دھندا بند ہو جائے گا ؟ پرائیویٹ بجلی کی کمپنیوں میں شیئر ہولڈرز یہاں وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی بن جاتے ہیں ۔ یہاں کوئلے سے چلنے والے پاور پراجیکٹ لگائے جاتے ہیں ۔ اگر اپنی بجلی ہو گی تو یہ دھندا کیسے چلے گا ؟ بیوروکریٹ اور سیاست دان مل کر باہر جاتے ہیں ، دورے فرماتے ہیں ، سیر سپاٹے کرتے ہیں اور پھر مشکوک قسم کے پراجیکٹ قوم کے گلے میں ڈال دیے جاتے ہیں ۔بیوروکریسی کے منہ کو خون لگا ہے ، یہ ہر نئے حکمران کو اس خون کا ذائقہ چکھا دیتی ہے اور پھر دونوں ہنسی خوشی حکومت کرتے ہیں ۔
جنگلات تو ہم نے بے رحمی سے کاٹ ہی پھینکے ، جب کچھ احساس ہوا تو شجر کاری کے نام پر اس ملک کے ساتھ ایک اور واردات کی گئی جس نے ماحولیات ہی کو نہیں زیر زمین پانی کی سطح کو بھی تباہ کر دیا ۔ کراچی کی مثال لے لیجیے ۔ مصطفی کمال جب کراچی کے ناظم تھے تو فیصلہ ہوا کراچی کو سر سبز بنانا ہے ۔ اس مقصد کے 8.34 ارب روپے رکھے گئے ۔ طے یہ ہوا کہ کراچی میں نیم ، پیپل، برگد، شیشم ، املتاس ، ناریل وغیرہ کے درخت لگانے ہیں ۔یہ درختوں کی کوئی دس بارہ اقسام تھیں جو لگائی جانی تھیں۔ لیکن ہوا کیا ؟ پڑھیے اور سر پیٹ لیجیے۔
8 ارب سے زائد رقم خرچ کر کے پورے کراچی میں صرف ایک قسم کا درخت لگا دیا گیا ۔ جھاڑی نما اس درخت کو کونا کورپس کہتے ہیں ۔ کراچی میں افریقہ سے منگوا کر کونا کورپس کے 22 لاکھ درخت لگا دیے گئے ۔ کوئی مہذب ملک ہوتا جہاں قانون کی حکمرانی ہوتی تو ان سب لوگوں کو الٹا لٹکا دیا جاتا جنہوں نے اربوں روپے خرچ کر کے صرف ایک قسم کے 22 لاکھ درخت لگا دیے ۔ لیکن یہاں کسی نے ان افلاطونوں سے کوئی سوال تک نہ پوچھا کہ جب پاکستان میں مقامی طور پر اتنے خوبصورت درخت موجود ہیں تو آپ کو باہر سے یہ درخت منگوانے کی کیا ضرورت تھی۔
پاکستان کا شیشم، برگد، جامن ، توت ، نیم ، سکھ چین، دھریک کوئی درخت انہیں پسند نہ آیا اور باہر سے کورنا کورپس منگوا لیا گیا ۔ یہ غیر ملکی درخت ہمارے ماحول کے لیے انتہائی غیر موزوں ہے ۔ ایک ہی قسم کے بائیس لاکھ درخت لگانے کا مطلب ایکو سسٹم کی تباہی ہے ۔ پرندے اپنا مزاج رکھتے ہیں۔ ہر پرندہ ہر درخت پر گھونسلا نہیں بنا سکتا۔ درختوں میں تنوع ہوتا تو پرندے یہیں رہتے ۔ جب ایک ہی قسم کے بائیس لاکھ درخت لگا دیے گئے تو بہت سے پرندے ہجرت کر گئے۔
ذرا اس کے نقصانات دیکھ لیجیے ۔ یہ درخت جہاں ہوتا ہے وہاں زیر زمیں پانی کی سطح کم ہو جاتی ہے ۔کئی ممالک میں اس پر پابندی لگائی چکی ہے ۔ کونا کورپس ایک دن میں اتنا ہی پانی لے جاتا ہے جتنا سفیدہ لیتا ہے ۔ اور سفیدے کے بارے میں بعض تحقیقات کہتی ہیں کہ وہ چوبیس گھنٹوں میں زیر زمین پانی کے ذخیرے سے 100 لٹر پی جاتا ہے۔ کونا کورپس کاہم 100 لٹر کی بجائے 50 لٹر یومیہ بھی تصور کر لیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کونا کورپس کے بائیس لاکھ یہ غیر ملکی درخت ہر روز زیر زمین پانی کا 11کروڑ لٹر پی جاتے ہیں ۔ اب ہم رو رہے ہیں کہ کراچی میں زیر زمین پانی کی سطح گر گئی ہے اور شہر ٹینکر مافیا کے رحم و کرم پر ہے ۔
اب حال یہ ہے کہ لوگ اس کو کاٹنے کے درپے ہیں اور وہ ان پیشہ ور ماہرین کی بات سننے کو تیار نہیں جو ان درختوں کے فضائل بیان کرتے پھرتے ہیں ۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ باٹنی کی تحقیق کے مطابق کراچی میں اس درخت سے اسی طرح پولن الرجی اور دمے کا خطرہ ہے جیسے اسلام آباد میں چین سے منگوائے گئے جنگلی توت کے درختوں کی وجہ سے عذاب کی صورت حال پیدا ہو چکی ہے۔
اسلام آباد میں مارگلہ کے جنگل میں آپ دور تک چلے جائیں تو خوبانی ، سیب ، انجیر ، آڑو تک کے درخت آپ کو ملتے ہیں لیکن اسلام آباد شہر میں چین سے پیپز ملبری منگوا کر لگایا گیا ۔ یہ درخت یہاں کے ماحول کے لیے سازگار ہی نہیں ۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آدھے سے زیادہ شہر دمے کا مریض بن چکا ہے ۔ کبھی مارچ اپریل میں اسلام آباد آئیے اور دیکھیے یہاں کیا حال ہوتا ہے ۔ معلوم نہیں وہ کون افلاطون تھے جنہوں نے پاکستان کے مقامی درخت یہاں لگانے کی بجائے چین سے یہ عذاب منگوایا تھا ۔آج ہمیں یہ بھی معلوم نہیں اس درخت کے بیج کے سودے میں بیوروکریسی نے کمیشن بھی کھایا تھا یا صرف بیرونی دوروں کی قیمت پر ہمیں اس عذاب سے دوچار کر دیا ۔ لیکن جو عذاب ہے وہ ہم بھگت رہے ہیں.
یہی حال سفیدے کے درخت کا ہوا ۔ یہ بھی ہمارا مقامی درخت نہیں۔ آسٹریلیا کے کسی نام نہاد زرعی ماہر نے کہہ دیاسفیدہ لگائیے اور ہماری بیوروکریسی اور حکمرانوں نے مل کر اس کی مارکیٹنگ شروع کر دی ۔ جب اس کے نقصانات معلووم ہوئے تو اب یہ عالم ہے کہ تین دفعہ حکومت پنجاب اس پر پابندی لگا چکی ہے لیکن موٹر وے پر سفر کرتے ہوئے جیسے ہی آپ کے پی کے کی حدود سے پنجاب کی حدود میں داخل ہوتے ہیں سفیدے کے درخت آپ کا استقبال کرنے کو موجود ہوتے ہیں ۔
ہماری اپنی ایک تہذیب ہے ، یہاں کا ایک ماحول ہے ۔ ہمارے اپنے درخت ہیں ۔ برگد ، دھریک ، شیشم اور جامن کے درختوں کی چھاؤں میں جو بیٹھا ہو وہی جان سکتا ہے یہ کیا سوغات ہے ۔ لیکن احساس کمتری کے مارے حکمرانوں اور بیوروکریٹوں کو درخت بھی وہ پسند آتا ہے جو باہر کے ملک سے آئے اور جس کے بیج کا سودا کرنے میں تین چار غیر ملکی دوروں کا امکان پیدا ہو سکے ۔ معلوم نہیں عمران خان نے اپنی شجر کاری مہم میں اس پہلو پر توجہ دی ہے یا بیوروکریسی ہمیں کسی نئے عذاب سے دوچار کرنے جا رہی ہے؟
یہاں پانی کا بحران پیدا کیا گیا ، ڈیم بننے نہیں دیے گئے ، درخت وہ لگائے گئے جو ماحول دشمن ہیں ، دنیا جنگلات سے آکسیجن لیتی ہے ہمیں اپنے درختوں سے بھی پولن الرجی اور دمہ ملتا ہے ۔ پانی کی کمپنیاں ہمارا ہی زیر زمین پانی نکال کر ہمیں ہی بیچ رہی ہیں ۔ کسی کو پرواہ نہیں یہ کتنی بڑی واردات ہے ۔ اب چیف جسٹس نے نوٹس لیا ہے تو سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا ہے کہ یہ کمپنیاں قومی خزانے کو فی لٹر صرف پچیس پیسہ دے رہی ہیں اور فروخت پچاس روپے کا کر رہی ہیں ۔
یہ ایک مکمل آبی اور ماحولیاتی جارحیت ہے جو ہم پر مسلط ہو چکی ۔ سوال یہ ہے جو جو اس واردات کا حصہ رہے کیا ان معززین کے چہروں سے نقاب کبھی اترے گا؟ آرٹیکل 6 نہ سہی ، ان پر دفعہ 121 تو لاگو ہو ہی سکتی ہے۔