عدالت میں’وزیراعظم نوازشریف’ کے نعروں کی گونج

العزیزیہ ریفرنس کیس کَور کرنے نو بجے احتساب عدالت پہنچا، میاں نواز شریف نے ساڑھے نو بجے آنا تھا انہیں سخت سیکیورٹی میں اڈیالہ سے احتساب عدالت لایا گیا، ن لیگ کی قدآور شخصیات عدالت کے باہرموجود تھیں.

میاں نواز شریف گزرے روز کی نسبت آج زیادہ تروتازہ لگ رہے تھے، ان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی لیکن گاہے گاہے وہ رنجیدہ بھی لگنے لگتے تھے. انہوں نے معمول کے مطابق کمرہ عدالت میں موجود تمام لوگوں سے فرداً فرداً ہاتھ ملایا اور کچھ سے ان کی خریت بھی دریافت کی ، ان کے دائیں طرف مخدوم جاوید ہاشمی اور بائیں جانب بزرگ سیاستدان راجہ ظفرالحق بیٹھے ہوئے تھے، میاں صاحب ان سے گفت و شنید کررہے تھے اور کچھ چیزیں کاغذ پر نوٹ بھی کر رہے تھے

لوگوں کی زیادہ دلچسپی ہائی کورٹ کے متوقع فیصلے میں تھی، احتساب عدالت میں موجود ہر ایک کی خواہش تھی کہ سماعت جلدی ختم ہو اور ہم ہائی کورٹ پہنچیں ، ساڑھے گیارہ بجے سماعت ختم ہوئی اور وہاں سے تمام لوگ ہائی کورٹ پہنچ گئے.

میں بھی اپنے دوسرے ساتھی رپورٹروں کے ساتھ ہائی کورٹ پہنچ گیا، ہائی کورٹ سے متصل سڑک پر ڈی ایس این جی گاڑیوں کی بھرمار تھی ، آدھ گھنٹہ مجھے گاڑی پارک کرنے میں لگ گیا، جیسے تیسے کر کے ہائی کورٹ عدالت کے اندر پہنچا تو وہاں پر لیگی متوالے درجنوں کی تعداد میں موجود تھے، مشکل سے کمرہ عدالت تک پہنچا، مجھ سے آگے لائن میں خواجہ آصف اور سردار مہتاب تھے ، سیکیورٹی اہلکار کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے ، کمرہ عدالت میں تِل دھرنے کی جگہ نہیں تھی، مجھے تو سیکیورٹی اہلکاروں نے جانے دیا کیونکہ میں اس کو کَور کر رہا تھا.

عدالت کے اندر نیب پراسیکیوٹر اکرم قریشی اپنے دلائل دے رہے تھے ، ان کے دلائل میں ربط نہیں تھا، وہ مسلسل ٹامک ٹوئیاں مار رہے تھے. ان کے دلائل کے دوران مجھے "جانو جرمن” بہت یاد آیا اور اس وقت میں بڑی مشکل سے اپنی ہنسی ضبط کر رہا تھا. دلائل مکمل ہوئے تو فیصلہ آنے میں کچھ وقت تھا، میں کمرہ عدالت سے باہر آ گیا ، باہر موجود ن لیگ کے خواجہ آصف نے پوچھا کہ کیا ہو گا تو میں نے کہا کہ سزا معطل ہو جائے گی.

تھوڑا آگے گیا تو مجھے ایک شخص ملا ، اس نے پوچھا کہ کیا فیصلہ متوقع ہے؟ میں نے کہا بھائی یہ تو ججز کو پتہ ہو گا، وہ ایک دم سے بولا کہ جن لوگوں نے میاں نواز شریف کو یہاں تک لایا، کیا جج اُن سے پوچھے بغیر فیصلہ دیں گے؟ مجھے تجسس ہوا تو کھوج لگائی کہ یہ شخص کون ہے تو پھر جو معلوم ہوا اس سے یہی توقع تھی کہ یہ شخص یہی بات کر سکتا ہے.

تین بجے فیصلے کا وقت تھا ، ہائی کورٹ کے اندر اور باہر بڑی تعداد میں لیگی کارکن موجود تھے، جیسے ہی میاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی سزا معطل کرنے کا فیصلہ آیا ، عدالت کے درودیوار ”وزیراعظم میاں نواز شریف”، ”دیکھو دیکھو کون آیا، شیر آیا شیر آیا”کے نعروں سے گونج اٹھے.
لوگ دیوانہ وار نعرے لگا رہے تھے ، کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی ، رپورٹر بھاگ بھاگ اور چیخ چیخ کے بیپر دے رہے تھے.

لیگیوں کے چہرے خوشی سے تمتما رہے تھے . کچھ لوگ مسجد میں نوافل ادا کرنے کے لیے چلے گئے ، خواتین اپنے ساتھ مٹھائی لائی ہوئی تھیں، وہ ایک دوسرے کا منہ میٹھا کروا رہی تھیں.

مجھے آفس پہنچنے کی جلدی تھی مگر ہائی کورٹ کی عمارت سے نکل کر مجھے اپنی گاڑی تک پہنچنے میں تقریباً آدھ گھنٹہ لگ گیا

میں نے دیکھا کہ لوگ دیوانہ وار ناچ رہے تھے، خوشی منا رہے تھے ، آج بھی میاں نواز شریف سے محبت کرنے والے کم نہیں ہیں ، سچ کہا تھا کسی نے کہ میاں نواز شریف کو حکومت سے تو نکال دیا ، جیل میں ڈال دیا لوگوں کے دِلوں سے کس طرح نکالو گے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے