سب گندا ہے

سب گندا ہے پر دھندہ ہے یہ …….ایک مشہور فلمی گانے کے یہ بول کل سے میرے کانوں میں گونج رہے ہیں۔اس گانے کے بول اور دھن مجھے مسحور کرنے کی بجائے جھنجھوڑ دیتی ہے۔میں یہ سوچ رہا ہوں کہ اگر مشہور زمانہ برطانوی بزنس مین زلفی بخاری ہمارے نئے نویلے وزیراعظم عمران خان کے نہیں بلکہ نواز شریف کے محبوب دوست ہوتے ۔بدقسمتی سے آج بھی عمران خان نہیں بلکہ نواز شریف وزیر اعظم ہوتے اور ز لفی بخاری کو وزیرمملکت کا درجہ دیکر اپنا معاون خصوصی مقرر کر لیتے ’’توپھر کیا کچھ ہوتا؟عمران خان انتہائی غصیلے انداز میں جگہ جگہ مُکے لہراتے اور ایک برطانوی شہری کو کابینہ میں شامل کئے جانے پر نواز شریف کو سیکورٹی رسک قرار دیتے۔ساتھ ہی ساتھ مختلف ٹی وی چینلز پر کچھ دفاعی تجزیہ کار نواز شریف کے اس فیصلے کو اپنی حب الوطنی کے بھاری بھر کم ٹینکوں پر سوار ہو کر کچل ڈالتے۔

سوشل میڈیا پر زلفی بخاری اور عمران خان کی تصویروں کے ساتھ اس فلمی گانے کے یہ بول بھی پھیلائے جاتے ….’’مطلب کے یار، پیسے سے پیار، پیچھے سے وار ‘‘ نواز شریف کی خوش قسمتی ہے کہ نہ تو زلفی بخاری ان کے دوست ہیں اور نہ ہی وہ وزیراعظم ہیں۔ دوستوں کو نوازنے اور انہیں اہم سرکاری عہدے دینے میں صرف نواز شریف نہیں بلکہ آصف زرداری بھی کسی سے کم نہیں رہے لیکن عمران خان تو ایک عزم عالیشان کے ساتھ نیا پاکستان بنانے نکلے ہیں ۔انکی طرف سے اپنے ایک ذاتی دوست کو کابینہ میں شامل کرنے پر سیاست ایک ایسا دھندہ نظر آنے لگی ہے جس میں سب گندا ہے۔جب عمران خان نے وزیراعظم ہائوس کی عمارت میں رہائش رکھنے سے انکار کیا اور وہاں یونیورسٹی قائم کرنے کا اعلان کیا تو اس ناچیز کا دل باغ باغ ہو گیا اور خاکسار نے عمران خان کی بھرپور حوصلہ افزائی کی۔

جب انہوں نے وزیراعظم ہائوس کے 500سے زیادہ ملازموں میں سے صرف دو ملازم اور درجنوں گاڑیوں میں سے صرف دو گاڑیاں لینے کا اعلان کیا تو مجھے لگا کہ عمران خان واقعی کفایت شعاری کے ذریعہ ملک و قوم کا پیسہ بچا رہے ہیں لیکن زلفی بخاری کے وزیرمملکت بننے کے بعد میں پرانے پاکستان کے پرانے وزیراعظم ہائوس کے ایک شاندار باتھ روم کے باتھ ٹب میں لیٹ کر عمران خان سے کئے جانے والا وہ انٹرویو یاد کر رہا ہوں جس میں عمران خان مجھے کہہ رہے تھے کہ زلفی بخاری ایک برطانوی شہری ہے، وہ برطانیہ میں کاروبار کرتا ہے اسے پاکستان کی نیب انکوائری کیلئے کیسے بلا سکتی ہے؟جس شخص کے دفاع میں چند ماہ پہلے عمران خان یہ دلیل پیش کر رہے تھے کہ اس پر پاکستان کے قانون کا اطلاق نہیں ہوتا اس غیر ملکی شہری کو پاکستان کی کابینہ میں شامل کرتے ہوئے عمران خان کو پاکستان کا وقار یاد کیوں نہیں آیا؟

خان صاحب کا موقف ہے کہ زلفی بخاری کو کابینہ میں شامل کرکے بیرون ملک پاکستانیوں کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ انہیں پاکستان میں خوش آمدید کہا جائے گا۔بیرون ملک پاکستانیوں کو عزت دینا اور انکی حوصلہ افزائی کرنا بہت اچھی بات ہے لیکن زلفی بخاری کی اصل پہچان یہ نہیں ہے کہ وہ بیرون ملک پاکستانیوں کی فلاح وبہبود کے منصوبے بناتے ہیں۔انکی پہچان صرف یہ ہے کہ وہ ہمارے خان صاحب کے انتہائی قریبی دوست ہیں اور 2018ء کے انتخابات سے کچھ دن پہلے خان صاحب نے جو خاموش شادی کی اس میں زلفی بخاری خاموشی سے شریک تھے۔کچھ دیر پہلے حکومت کے ایک وزیر نے فون پر بتایا کہ وزیراعظم عمران خان کا دورہ سعودی عرب بہت کامیاب رہا ہے اور ان شاءاللہ تعالیٰ ہم پاکستان کو معاشی بحران سے نکال لیں گے۔

پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کیلئے عمران خان جو اقدامات کر رہے ہیں وہ لائق تحسین ہیں لیکن کچھ اقدامات دیکھنے میں چھوٹے ہوتے ہیں ان کے اثرات بڑے گہرے اور دیرپا ہوتے ہیں۔ زلفی بخاری کو وزیرمملکت بنانے سے قومی خزانے پر کوئی بڑا بوجھ نہیں پڑے گا لیکن عمران خان کے بہت سے ووٹر یہ سوچیں گے کہ یہ کیسا دھندہ ہے جس میں نواز شریف کسی غیر ملکی شہری کو وزیر بنا دے تو سیکورٹی رسک ہے عمران خان بنا دے تو قومی مفاد کا تقاضا بن جاتا ہے ؟نواز شریف کے دور میں کسی ٹرین کو حادثہ پیش آ جائے تو عمران خان فوری طور پر وزیر ریلوے سعد رفیق سے استعفیٰ مانگتے تھے ۔عمران خان کی حکومت میں ٹرین کو حادثہ پیش آ جائے تو وزیرریلوے شیخ رشید احمد اسکی ذمہ داری بھی پچھلی حکومت پر ڈال دیتے ہیں ۔

اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کی حکومت کو قائم ہوئے ابھی صرف چند ہفتے ہوئے ہیں اور انہیں اپنی پالیسیاں وضع کرنے کیلئے کم از کم چھ ماہ درکار ہیں لیکن اس کا مطلب یہ قطعاً نہیں کہ وہ ایسے فیصلے کرنے لگ جائیں جن کا دفاع نہ وہ خود کرسکیں نہ ان کے ساتھی کرسکیں۔ ایک طویل عرصے کے بعد پاکستان میں ایسی حکومت آئی ہے جسے ہر طرف سے ہر طرح کا مکمل تعاون حاصل ہے۔ خاور مانیکا کی شکایت پر پاکپتن کے ڈی پی او کو تبدیل نہ کیا جاتا تو وزیر اعلیٰ پنجاب کو بھی سپریم کورٹ کے پھیرے نہ لگانے پڑتے۔فی الحال عمران خان کی حکومت کو عدلیہ کی طرف سے ویسی طلبیوں کا سامنا نہیں ہے جیسی طلبیاں ماضی میں ہو رہی تھیں لیکن عمران خان یاد رکھیں کہ اگر انکی حکومت آئین و قانون کی خلاف ورزیاں کرے گی تو ان کے ساتھ بھی وہی ہو گا جو نواز شریف کے ساتھ ہوا۔

عمران خان کو انکی تقریروں اور ان کے پروگرام کی وجہ سے ووٹ نہیں ملے۔انکی اصل طاقت نواز شریف حکومت کی غلطیاں تھیں۔اب نواز شریف اور آصف زرداری کےپاس کوئی ایسی مشترکہ حکمت عملی نہیں جو اپوزیشن کی طاقت بن سکے لیکن عمران خان کی غلطیاں اپوزیشن کی طاقت بن رہی ہیں اور ممکن ہے کہ بہت جلد عمران خان اپنے کچھ اتحادیوں کو کھو کر اپوزیشن کے رحم وکرم پر آ جائیں ۔عمران خان نے اپنے اتحادیوں سے مشورہ کئے بغیر کراچی میں افغان مہاجرین کو پاکستانی شہریت دینے کا اعلان کیا اور اگلے دن جب اختر مینگل نے اس اعلان پر اعتراض کیا تو عمران خان کو کہنا پڑا کہ انہوں نے صرف تجویز دی ہے فیصلہ صلاح مشورے سے کیا جائے گا لیکن اختر مینگل قومی اسمبلی سے واک آئوٹ کر گئے یہ ایک اتحادی کا واک آئوٹ تھا جس کے پانچ ووٹ عمران خان کی اکثریت قائم رکھنے کیلئے بہت ضروری ہیں ۔

اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی نے چھ نکات پر عمران خان کے ساتھ اتحاد کیا۔چھ میں سے پہلا نکتہ لاپتہ افراد کی واپسی کے بارے میں ہے اور آخری نکتہ افغان مہاجرین کی باعزت واپسی کے بارے میں ہے ۔پچھلے دنوں کابینہ کے ایک اجلاس میں انسانی حقوق کی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے تجویز پیش کی کہ لاپتہ افراد کی واپسی کیلئے قانون سازی کی ضرورت ہے تو وزیر قانون فروغ نسیم کو جھٹکا لگا اور انہوں نے یہ تجویز جھٹک دی۔ عمران خان خاطر جمع رکھیں۔

اختر مینگل کے چھ نکات پر عمل نہ ہوا تو وہ زیادہ عرصہ حکومت کےساتھ نہیں رہیں گے اور اگر وہ عمران خان کا ساتھ چھوڑ گئے تو فروغ نسیم انہیں بچا نہیں سکتے۔ پرویز مشرف کے وکیل کو وزیرقانون بنا کر عمران خان نے آسانیاں نہیں مشکلات پیدا کی ہیں اور سونے پرسہاگہ زلفی بخاری بن گئے جن کی تقرری کے بعد ہماری سیاست ایک ایسا دھندہ نظر آتی ہے جس میں سب گندا ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے