کچھ مضامین بعض شعراء کے ساتھ اس طرح نتھی اور منسوب ہو جاتے ہیں اور ان کے انداز اور مزاج کا ایک ایسا اٹوٹ حصہ بن جاتے ہیں کہ ایک دوسرے کے لیے جیسے لازم و ملزوم بن جاتے ہیں اور انھیں اس دائرے سے نکل کر دیکھنا نا ممکن نہیں تو بے حد مشکل ضرور ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر رومان اور خمریات کے شاعر سید عبدالحمید عدم کا یہ حمدیہ اور مبینہ طور پر پنجابی کے مزاحیہ اور تقریباً غیرسنجیدہ شاعر استاد امام دین کا یہ نعتیہ شعر ان کے پورے کلام سے یکسر ہٹے ہوئے محسوس ہوتے ہیں کہ
آگہی میں اک خط موجود ہے
اس کا مطلب ہے خدا موجود ہے
محمدؐ کا جہاں پر آستاں ہے
زمیں کا اتنا ٹکڑا آسماں ہے
عقیدے اور مذہب سے متعلق شعری مضامین عام طور پر جذبے اور عقیدت سے تو معمور اور سرشار ہوتے ہیں مگر بوجوہ ان میں گہری فلسفیانہ باتوں اور تاریخ اور سائنس کی سچائیوں کا ذکر کم کم ہی ملتا ہے‘ سانحہ کربلا‘ جناب امامؓ اور ان کے رفقاء کی عظیم قربانی اور شہادت اور شمر و یزید کے ظلم و ستم پر دنیا کی مختلف زبانوں میں بالعموم اور عربی فارسی اور اردو میں بالخصوص بہت کچھ لکھا گیا ہے بلکہ مرثیے کی تو صنف ہی اس موضوع سے مخصوص ہو کر رہ گئی ہے ۔
یہاں تک کہ کئی غیر مسلم شعرا نے بھی اس واقعے اور جناب حسینؓ سے عقیدت اور محبت کا ذکر اپنی شاعری میں بہت احسن طریقے سے کیا ہے اور یوں شہادت حسینؓ صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے مظلوموں انصاف پسندوں اور حق پرستوں کے لیے ایک بھرپور اور عالمی استعارے کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ اس ضمن میں عدم صاحب ہی کا ایک شعر اپنی سچائی‘ گہرائی اور بے ساختگی کی وجہ سے خاص طور پر میرے دل کو بہت چھوتا ہے کہ اتنے کم لفظوں میں اس عظیم داستان کو اس قدر پرتاثیر انداز میں سمیٹنے کی کوئی اور مثال کم از کم میری نظر سے نہیں گزری۔ انھوں نے کہا
جب خیر و شر میں دقت تفریق ہو گئی
بے ساختہ حسینؓ کی تخلیق ہو گئی
عظیم لوگوں اور ان کے عظیم کارناموں کی تحسین و اعتراف کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ اپنی حد تک ان کے فکر و عمل کی تقلید کی جائے اور اس سے عالم انسانی کو روشناس کرایا جائے کہ یہ لوگ رنگ‘ نسل‘ زبان‘ علاقے یا عقیدے سے اوپر اٹھ کر ایک عالمی اثاثے اور ورثے کی شکل اختیار کر جاتے ہیں۔
آج کی اس پرآشوب اور اختلافات اور مفادات سے گھری ہوئی اس دنیا میں جناب امامؓ کی شہادت‘ قربانی اور پیغام یقیناً ایک ایسے راستے کی طرف رہنمائی کرتے ہیں جہاں انسانیت اپنے اعلیٰ ترین مقام پر نظر آتی ہے کہ جس بات کو آپ حق سمجھتے ہیں اس پر کھڑے ہونا اور استقامت کے ساتھ اس کے راستے پر چلتے رہنا اور بڑی سے بڑی قربانی سے گریز نہ کرنا ہی وہ عظیم اور روشن سبق ہیں جو اس کائنات کی سب سے عظیم ہستی اور وجہ کائنات ہمارے آقائے نامدار رسول پاک حضرت محمدؐ نے ہمیں دیے اور جن کو ان کے پیارے (اور ہمارے محترم) نواسے نے اپنے خون سے کربلا کی ریت پر اس طرح سے لکھا کہ رہتی دنیا تک لوگ ان کو یاد رکھیں گے اور ان سے فیض یاب ہوتے رہیں گے۔ مولانا محمد علی جوہر نے اپنے اس شعر میں اس بات کو کچھ اس طرح سے محفوظ کیا ہے کہ
قتل حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
اب وقت ہے کہ ہم اپنے زمانے کے تقاضوں کے مطابق ایک بار پھر اس تاریخ ساز واقعے کو سمجھنے اور اس عظیم قربانی کی روح تک پہنچنے کی کوشش کریں کہ خیروشر کی یہ جنگ تو ابد تک رہے گی سو ہمارا فرض بنتا ہے کہ نہ صرف خود اس سے سبق اور ہمت حاصل کریں بلکہ دنیا کے تمام باسیوں تک اس کو پہنچائیں کہ غم حسینؓ بے شک ہمارا سہی لیکن ان کا پیغام تو سب کے لیے سانجھا ہے اور محرم الحرام کے یہ دن انسانی تاریخ کا وہ روشن باب ہیں جن کے فیض سے دنیا میں حق و انصاف اور جرات و قربانی کا بول بالا ہے، سو اس موقع پر ہم بھی اپنی طرف سے سلام عقیدت پیش کرنا اپنا فرض اور عین سعادت سمجھتے ہیں.
بھٹک رہی ہے زمیں پہ خلق خدا ہراساں
کہ رہبری کا کمال دنیا سے اٹھ گیا ہے
پھر اہل زر کی تونگری ہی نشان رتبہ وجاہ ٹھہری
ہنروری کا جمال دنیا سے اٹھ گیا ہے
تلاش رزق حلال کس کو ہو اور کیوں ہو
کہ جن کی آنکھوں میں تھی حیا‘ وہ
چراغ مجرم بنے کھڑے ہیں!
وہ جن سے رستوں میں روشنی تھی
وہ لوگ چپ چاپ بجھ گئے ہیں
سروں کو ہاتھوں پہ لے کے چلنے کے مدعی ہیں ہزار لیکن
کسی کے رستے میں کربلا کا سفر نہیں ہے
کہاں گئے اے زمیں وہ راہ وفا کے جویا!
کہ لاکھ اہل نظر ہیں لیکن نظر نہیں ہے!
میں منتظر ہوں ہوا کے رستے میں اس خبر کا
جو روشنی کا پیغام لائے
میں منتظر ہوں گزرتے لمحوں میں اس سحر کا
جو اس سفر کے دیار غم میں کوئی سکوں کا مقام لائے!
زباں پہ کانٹے سے اُگ رہے ہیں
پھر آج شدت وہ پیاس میں ہے
مرے وطن کی فضا عجب اک ہراس میں ہے
حسینؓ تیری تلاش میں ہے
یہ راہ بھولا ہوا قبیلہ حسینؓ تیری تلاش میں ہے