یمن میں 50 لاکھ بچے غذائی قلت کا شکار

صعنا: بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم نے خبردار کیا ہے کہ یمن میں جاری خانہ جنگی سے 50 لاکھ بچوں پر مشتمل پوری ایک نسل شدید غذائی قلت سے دوچار ہے جس کے نتیجے میں ان پر موت کو خطرات منڈلارہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے مشترکہ اتحاد نے سال 2015 میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف جنگ کا آغاز کیا تھا۔

اقوام متحدہ کے بین الاقوامی ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) کے مطابق 2 کروڑ 80 لاکھ افراد پر مشتمل یمنی آبادی جنگ کے باعث بدترین انسانی بحران کا شکار ہے ، جہاں 84 لاکھ افراد بھوک اور غذائی قلت کا شکار ہیں جبکہ 2 کروڑ 20 لاکھ افراد امداد پر انحصار کرتے ہیں۔

سیودی چلڈرن انٹرنیشنل کے سربراہ ہیلے تھرونگ نے کہا کہ ’لاکھوں بچے نہیں جانتے کہ انیہں کب اور کیا اگلے وقت کا کھانا ملے گا‘۔

انہوں نے کہا کہ یمنی بچوں کی پوری نسل سنگین نوعیت کے مسائل سے دوچار ہے جس میں بم، بھوک اور مہلک مرض بیلو ڈیتھ شامل ہے۔

اس حوالےسے بتایا گیا کہ الحدیدہ میں پہلے سے جاری انسانی بحران میں مزید شدت آگئی ہے کیونکہ مذکورہ حصے میں امدادسامان کی ترسیل انتہائی محدود ہو گئی ہے۔

ان کے مطابق ’الحدیدہ سے ترسیل ہونے والی امداد بشمول کھانا اور فیول میں رکاوٹ کے نتیجے میں غذائی قلت جان لیوا ثابت ہو گی‘۔

واضح رہے کہ الحدیدہ یمن کی بندرگاہ ہے جس پر باغیوں کا کنٹرول ہے اور سعودی عرب سمیت اس کے اتحادیوں نے محاصرہ کیا ہوا ہے۔

دوسری جانب نیویارک کی ایک بین الاقوامی ریسکیو کمیٹی نے صحافیوں کو بتایا کہ یمن میں انسانی بحران کی صورتحال انتہائی نازک ہے۔

سابق برطانونی وزیر خارجہ نے یمن میں 3 روزہ قیام کے حوالے سے بتایا کہ’ اتحادیوں اور باغیوں کے تنازعے سے مسائل مسلسل بدترین صورتحال اختیار کرتے جارہے ہیں اس لیے فریقین امن مذاکرات کے لیے جنگی بندی کا اعلان کریں‘۔

یونیسف نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ سبین ہسپتال کے وارڈ میں زیر علاج 20 بچوں میں سے اکثر کی عمر 2 سال سے کم ہے، یہ بچے بھی ان ہزاروں میں ہیں جو گزشتہ تین برس سے جاری جنگ میں شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یمن کے ایک کروڑ 10 لاکھ سے زائد بچے اور ملکی آبادی کے 18برس سے کم عمر 80 فیصد بچے غذا کی کمی، بیماریوں اور بنیادی ضروریات کی عدم فراہمی کی وجہ سے شدید خطرات کا شکار ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے