بھارت: دورانِ پرواز 30 مسافروں کی ناک اور کانوں سے خون جاری

بھارتی شہر جےپور سے ممبئی جانے والی جیٹ ایئرویز کی پرواز کو اس وقت واپس لوٹنا پڑا جب جہاز میں سوار مسافروں کی ناک اور کانوں سے خون جاری ہوگیا۔

امریکی ٹی وی سی این این کا کہنا تھا کہ ڈائریکٹوریٹ جنرل سول ایوی ایشن کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ جہاز کا عملہ مبینہ طور پر کیبن کا پریشرائز بٹن دبانا بھول گیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پرواز کے اڑان بھرتے وقت عملہ کیبن میں دباؤ قائم رکھنے والا بٹن دبانا بھول گیا جس کہ وجہ سے جہاز کے اندر دباؤ بڑھ گیا اور آکسیجن ماسک مسافروں پر آگرے۔

بعدازاں جیٹ ایئرویز کی جانب سے جاری کردہ بیان میں بتایا گیا کہ جہاز میں سوار ایک سو 66 مسافروں اور عملے کے 5 اراکین کو بحفاظت ممبئی پہنچا دیا گیا جن میں کچھ مسافروں کو کان اور ناک سے خون آنے کی شکایت پر ابتدائی طبی امداد فراہم کی گئی۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ فلائٹ 9 ڈبلیو697 کو کیبن میں دباؤ کی کمی کے باعث واپس آنا پڑا تھا تاہم انہوں نے اس دعوے کی تصدیق کرنے سے انکار کیا کہ عملہ پریشر بٹن دبانا بھول گیا تھا۔

جیٹ ایئرویز کا کہنا تھا کہ فلائٹ کے کاک پٹ عملے کو انکی ڈیوٹیز سے واپس بلا کر تحقیقات کا آغاز کردیا گیا اور مسافروں کے لیے متبادل انتظامات کردیے گئے ہیں۔

جہاز میں موجود افراد نے جہاز کے اندر پیش آنے والی اس غیر معمولی صورتحال کی تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کردیں۔

مسافروں میں سے ایک ’دارشک‘ نامی شخص نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ایک ویڈیو پوسٹ کی جس میں تمام نشستوں پر آکسیجن ماسک لٹکے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں جو ہنگامی صورتحال میں خودکار نظام کے ذریعے مسافروں پر آگرتے ہیں۔

واضح رہے کہ جہاز فضا میں اتنی بلندی پر پرواز کرتا ہے جہاں ہوا کا دباؤ عمومی دباؤ سے انتہائی کم ہوجاتا ہے جس کا مطلب یہ کہ اتنی بلندی پر سانس لینے کے لیے آکسیجن کی کمی بھی واقع ہوجاتی ہے، اس وجہ سے جہاز کے اندر ہوا کا دباؤ برقرار رکھا جاتا ہے۔

[pullquote]کیبن پریشر کیا ہوتا ہے؟[/pullquote]

ہم انسانوں کو زندہ رہنے کے لیے آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے، جیسے جیسے ہم بلندی پر جاتے ہیں، ہمیں آکسیجن کی کمی محسوس ہونے لگتی ہے۔

زمین سے اوپر جانے پر ہوا کا دباؤ بھی کم ہونے لگتا ہے۔ اوپر ہوا کا دباؤ کم ہونے پر آکسیجن کے ایٹم بکھرنے لگتے ہیں۔

سمندر کی سطح سے 5.5 کلومیٹر بلندی پر آکسیجن کی مقدار تقریباً نصف رہ جاتی ہے اور تقریباً سات کلومیٹر کی بلندی پر آکسیجن کی سطح ایک تہائی رہ جاتی ہے۔

سمندر کی سطح سے تقریباً 2.5 کلومیٹر بلندی پر پرواز سے انسان کو کئی طرح کی پریشانیاں ہو سکتی ہیں، جیسے سر درد، قے اور جی متلانا۔

سبھی طیارے اندر سے پریشر کو برقرار رکھتے ہیں تاکہ لوگ آرام سے سانس لے سکیں جب کہ جہاز کے باہر دباؤ کافی ہوتا ہے۔

طیارے میں آکسیجن کا سلینڈر نہیں لے کر جا سکتے اس لیے اوپر آسمان میں موجود آکسیجن کو جہاز کے اندر اکٹھا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

طیارے کے انجن سے جڑے ٹربائن باہر کے آکسیجن کو کمپریس کر کے اندر لاتے ہیں، انجن سے ہوکر گزرنے کی وجہ سے ہوا کا درجہ حرارت بہت زیادہ ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے اس سے سانس لے پانا مشکل ہوتا ہے۔

ایسے میں کولنگ ٹیکنالوجی سے اسے ٹھنڈا کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے اس میں نمی کم ہوتی ہے۔

اگر کیبن میں کسی وجہ سے پریشر کم ہوتا ہے تو سیٹ کے اوپر ایک اضافی آکسیجن ماسک کی سہولت موجود ہوتی ہے، جسے ضرورت پڑنے پر مسافر استعمال کر سکتے ہیں۔

اگر کیبن میں کسی وجہ سے پریشر کم ہوتا ہے تو سیٹ کے اوپر ایک اضافی آکسیجن ماسک کی سہولت موجود ہوتی ہے
جہاز کے کن کن حصوں میں پریشر ایریا ہوتے ہیں؟

1: کاک پٹ

2: کاک پٹ کے نچلے حصے میں

3: کیبن میں

4: کارگو کمپارٹمنٹ میں

کیبن پریشر مشینیں کتنی ہوتی ہیں؟

طیارے میں دو کیبن پریشر مشینیں ہوتی ہیں، جو اندر آکسیجن کی فراہمی کو برقرار رکھتی ہیں۔

ایک وقت میں ایک مشین موٹر ہی کام کرتی ہے، جبکہ دوسری ایمرجنسی کے لیے ہوتی ہے۔ یہ دونوں موٹریں آٹومیٹک ہوتی ہیں، جبکہ مزید ایک موٹر ہوتی ہے جو مینوئلی کام کرتی ہے۔

دونوں آٹومیٹک موٹریں بند یا خراب ہونے پر تیسری موٹر کا استعمال کیا جاتا ہے۔

[pullquote]کیا ہوتا ہے پریشر کم ہونے پر؟[/pullquote]

زیادہ بلندی پر پرواز کرنے پر نہ صرف ہمیں سانس لینے میں مشکل ہوتی ہے بلکہ ہمارا دماغ اور جسم ٹھیک طریقے سے کام کرنا بند کر دیتا ہے۔

کوئی ذائقہ چکھنے یا سونگھنے کی حس بھی 30 فیصد تک کم ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہوتی ہے کہ من پسند کھانا بھی جہاز میں ذائقے دار نہیں لگتا۔ نمی کم ہونے کی وجہ سے آپ کو پیاس زیادہ لگتی ہے۔

کیبن پریشر کم ہونے کی وجہ سے خون کے بہاؤ میں نائٹروجن کی مقدار بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے جوڑوں میں درد، لقوا، یہاں تک کہ یہ موت کی وجہ بھی بن سکتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے