دور سے ایک مٹیالی چادر زمین سے اٹھتی آسمان کی طرف جاتی نظر آئے تو آپ سمجھ جاتے ہیں کہ آندھی آنے والی ہے اور اگر آپ کا گزر ایسے مجمع کے پس ہو کہ لوگ جوتے دکھا رہے ہیں، ایک دوسرے کے گربیان گیر اور ”دامن چیر” ہیں، منہ سے ”غیر ملبوس” گالیاں برآمد ہو رہی ہیں، بے ہنگم اچھل کود ہو رہی ہے، ایک سے ایک لش لش لباس کے نمائش ہے، مینا بازار میں کھوئے سے کھوا چلتا ہے تو آپ کو ہر بات سمجھنے میں ذرا دیر نہیں لگتی کہ یہ تحریک اشراف کا جلسہ ہو رہا ہے۔
کراچی میں بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے تحریک اشراف اور جماعت اسلامی کے ریلی میں یہ مناظر البتہ نظر نہیں آئے جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ریلی کے سارے شرکاء کاروں اور گاڑیوں میں سوار تھے۔ کراچی کے شہری اس روز ا ن مناظر سے محروم رہے اور ذوق تماشہ تشنہ رہ گیا البتہ اگلے روز لیاری، داود چورنگی وغیرہ میں محفل ہاو ہو خوب سجی، کچھ نے ”بالمشافہ ”دید کی ، کچھ نے ٹی وی سکرینوں پر۔ ریلی بڑی تھی لیکن بہت بڑی نہیں تھی۔ اس سے بڑی جماعت اسلامی اکیلی نکال سکتی تھی اور تحریک اشارف بھی۔ ڈیفنس۔ بحریہ ٹاؤن وغیرہ کی آبادی کافی ہے البتہ یہاں کے نازک مزاج ”شاہوں” کو لیاری جانے میں کچھ زحمت تو ہوئی ہو گی۔
تحریک اشراف اور جماعت اسلامی کا اتحاد تاریخ ساز ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ کو ن کرے گا البتہ اس پر کوئی تنازعہ نہیں کہ یہ اتحاد روایت شکن بھی ہے اور روایت ساز بھی۔ لگتا نہیں کہ صہبا اور تسبیح کا اتحاد ہو گیا ہے۔ گویا کیٹ واک کے مقام پر جائے نماز بچھا دی گئی ہو یا ڈسکو تھیک میں امیر خسرو کا عارفانہ کلام گایا جا رہا ہو، چاندنی بار میں روح افزا پیا جا رہا ہو۔۔ ارے توبہ۔ چلیے چھوڑئیے اور دعا کیجئے کہ اس اتحاد کو کراچی میں اکثریتی نہیں تو کچھ کم اکثریتی سیٹیں مل جائیں ورنہ زمانہ کی اکہے گا والی بات ہو جائے گی۔ کراچی جانے سے پہلے طوفان خاں نے کہا، موجودہ جمہوریت سے مشرف کی حکومت اچھی تھی۔ یہ دوسری دل کی بات زبان پر آ گئی۔ پہلی یہ تھی کہ اس سے اچھا پاکستان نہ بنتا۔ کراچی میں اس اتحاد کو کامیابی مل جائے تو چلیے ، پورے ملک پر نہ سہی، کراچی کی حد تک تو سنہرا مشرقی دور واپس آ ہی جائے گا۔
جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے لاڑکانہ میں بڑا جلسہ کیا ۔ ان کے جھنڈے نہ ہوتے تو لگتا پیپلز پارٹی کا جلسہ ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ ہمارے کارکنوں پر آزمائش اور ابتلا کا دور آ گیا ہے، ہمارے مدرسے بند کیے جا رہے ہیں اور ہمارے خالص سیاسی کارکنوں کو لاپتہ کیا جا رہا ہے۔ گویا امریکہ کا غضب ناز ل ہو رہا ہے۔ چند ہفتے پہلے ایک سینئر تجزیہ کار نے لکھا تھا کہ مشرف کے دور میں ایک اجلاس امریکی سفارت خانے میں امریکی سفارت کار کی زیر صدارت ہو رہا تھا اور ایجنڈا تھا، پاکستان کا وزیراعظم کون ہو گا۔ امین فہیم مرحوم کا نام مسترد کر دیا گیا۔ کچھ اور نام بھی مسترد کر دیئے گئے ۔ ایک صاحب کو نہ جانے کیا سوجھی کہ یہ سوال داغ دیا، مولانا فضل الرحمن کیسے رہیں گے۔ امریکی سفیر کا پارہ چڑھ گیا، وہ انتے غضب ناک ہوئے کہ سب پریشان ہو گئے۔ خیر قصہ رفع دفع ہو گیا۔ نام پیش کرنے والے نے صفائی دی کہ میں نے تو بس یونہی نام دے دیا تھا۔ امریکی غضب کی تاریخ پرانی ہے۔
یہ دور ابتلا تو چلے گا۔ ابھی تو شروعات ہیں۔ مولانا نے بچنا ہے تو اور سمجھداروں کی طرح تحویل قبلہ کا اعلان کر دیں، اپنے ”کروسیڈر” ہونے کا اعلان کردیں اور ایک بیان اس مضمون کا جاری فرما دیں کہ ہمارے بزرگوں نے پچھلی صدی میں انگریز بہادر کی حکومت کیخلاف مزاحمت کا جو گناہ کبیرہ کیا تھا ہم اس سے بریت کا اظہار کرتے ہیں۔ ایسا کرنے سے ان پر اور ان کی جماعت پر آئی ہوئی آزمائش اگر ختم نہیں تو کم ضرور ہو جائے گی۔ آزمائش شرط ہے۔
ماسکو سے خبر ہے کہ روس کے کسی مشرقی علاقے میں واقع سفاری پارک میں ایک شیر نے بکرے کا شکار کرنا چاہا تو بکرے نے شیر پر جوابی حملہ کیا۔ شیر نے پھر اسے مارنا چاہا تو بکرے نے دوسرا جوابی حملہ کیا۔ شیر آخر کار بکرے سے ڈر گیا اور اس سے صلح کر لی۔
سائبرین ٹائیگر کو ڈرانے والا یہ بکرا ”دہشت گرد” لگتا ہے۔ اور خیال ہے کہ یہ بکرا ضرور چیچنیا یا داغستان سے آیا ہوگا، کسی آزاد مسلمان ملک سے نہیں۔ اس لئے کہ آزاد مسلمان ممالک کے بکرے بالعموم بکری نکل آتے ہیں (یاہوجاتے ہیں) ایک سبق اس ماجرے سے ملا کہ شیر سے دوستی کا طریقہ اس کے آگے لیٹ جانا نہیں، اسے ٹکر مارنا ہے۔ ایک دو ٹکریں اسے ماردی جائیں تو وہ خود بخود دوست بن جاتا ہے۔ اور بکرے کو پتہ چل جاتا ہے کہ یہ اوپر سے شیر ہے، اندر سے بکری ہے، بکرا تو میں ہوں!
بہرحال، آج کل سائبریا کا یہ بکری الاصل شیر شام پر چڑھائی کئے ہوئے ہے اور ترکی پر غرارہا ہے۔ ترکی نے اس کا جہاز مار گرایا، اس کاغصہ شام کی ترک آبادی پر نکال رہا ہے۔ ترک (ترکمان) آبادی شام کے شمال مغرب میں آباد ہے۔ روس کے طیارے اس کی مارکیٹوں، بازاروں، محلوں، مسجدوں اور ہسپتالوں پر بمباری کررہے ہیں۔ ہسپتال خاص نشانہ میں اس لئے کہ پچھلی بمباری کے زخمیوں سے یہ بھرا ہوتا ہے۔ ہر روز صبح سے شام تک ترکمانوں کی لاشیں فضا میں اڑتی ہیں اور ان کے ٹکڑے زمین پر بکھرتے ہیں۔ کوئی ایسا نہیں جو کہے کہ یہ دہشت گردی ہے۔ اس ترکمان علاقے میں داعش کا کوئی وجود نہیں۔ صرف ترک نہتی آبادی ہے، یہی روشن خیالی فرانس کررہا ہے اور یہی امریکہ! اور روس کے لیڈر سرگنی گوار یلوف نے کہا کہ مشہور تاریخی عمارت ”ایا صوفیہ” کو آرتھو ڈاکس چرچ کے سپرد کردیا جائے (روس کا تعلق مسیحیت کے آرتھو ڈاکس سے ہے)۔
دوسرے لیڈر ولادیمیر جیرنووسکی نے کہا، استنبول پر ایٹم بم پھینک دیا جائے۔ (پھرا یا صوفیہ کا کیا بنے گا؟) اگر کسی مسلمان لیڈر نے یہ کہا ہوکہ ماسکو پر ایٹم بم پھینک دیا جائے تو کیسا غل مچتا، بتانے کی ضرورت نہیں۔ خیر ایسا بتانے کی ضرورت بھی نہیں۔ سائبریا کے ان ”ٹائیگر گوٹس” کا جو حال نہتے افغانوں نے کیا تھا، وہی یاد دلانا دینا کافی ہے اور روس کی تلملاہٹ اتنی غیر قدرتی بھی نہیں۔ افغانوں نے ان کی ایمپائر ختم کردی اور روس کو دریائے آموسے بہت پرے دھکیل دیا۔ ان نہتے افغانوں کی وجہ سے مشرقی یورپ کو بھی آزادی نصیب ہوئی۔ روس کا غصہ بجا ہے۔ قربان جائیے ان پاکستانی افلاطونوں پر جو روس کی دوستی سے توقعات لگائے بیٹھے ہیں اور سہانے خواب دکھا رہے ہیں۔ روس کو جب بھی موقع ملا وہ پاکستان سے وہی کرے گا جو آج ترکمانوں سے کر رہا ہے۔
بالآخر ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری ظاہر کر دی گئی۔ اس دوران اخبارات میں عجیب عجیب خبریں آ رہی تھیں کہ مقدمے کا کچھ نہیں بنے گا اس لئے کہ ٹھوس شواہد ہی نہیں ہیں۔ یہ تو اہرام مصر سے بھی بڑا عجوبہ ہو گیا۔ نوے دن کا ریمانڈ اور وہ بھی رینجرز کا کچھ ٹھوس شواہد نہیں لاسکا تو اتنا عرصہ تمام عدالتی نظام کے خلاف مزاحمتی تحریک چلانے اور پھر چوبیسویں ترمیم لا کر پاکستان کو پتھر کے دور میں اٹھا پھینکنے کی ضرورت کیا تھی؟ چلئے، آصف زرداری کی بریت پر صف ماتم بچھانے والوں کو بچھانے کے لئے ایک اور صف مل جائے گی۔
بشکریہ روزنامہ ‘جہان پاکستان’