میں سا ڑھے چار بجے فجر پڑھ کر دوبارہ سو جا تا ہوں ۔ پھر کبھی آٹھ بجے تو کبھی نو بجے اٹھتا ہوں ۔ اٹھ کر سب سے پہلے ڈرا ئنگ روم کے پردے ہٹا تا ہوں اور تھوڑی دیر تک با ہر کا نظارہ کرتا ہوں ، موسم زیادہ ٹھنڈا نہ ہو تو کھڑکی کھول کر تازہ ہوا لیتا ہوں۔ یہ ہفنے کا دن تھا ۔ جب میں نے پر دے ہٹا ئے تو موسم بہت خو شگوار تھا، میں نے کھڑکی کھولی تازہ آکسیجن اپنے پھیپڑوں میں بھرنے لگا ۔ میں ساتویں منزل پر رہتا ہوں ۔ ہمارے اپارٹمنٹس کے بیڈ روم کی کھڑکی پیچھلی طرف یعنی سی ٓآر آئی دفتر کی طرف کھلتی ہے جبکہ ڈرا ئنک کی لوگوو روڈ کی طرف کھلتی ہے۔ آج چو نکہ چھٹی تھی اسلئے سڑک پر گا ڑیا ں معمول سے کم تھیں۔ تاہم فٹ پاتھ پر لوگ زیادہ تھے کیونکہ چھٹی کے دن زیادہ لوگ باہر نکلتے ہیں۔
بچپن سے ستمبر میرا پسندیدہ مہینہ رہا ہے اور مجھے ستمبر کی صبحیں بہت دلکش لگتی ہیں۔ بیجنگ میں ستمبر کا مہینہ پاکستان کی نسبت زیادہ خو شگوار ہوتا ہے کیونکہ موسم نسبتا ٹھنڈا ہوتاہے اور ہوامیں نمی بھی نہیں ہوتی۔ اکثر ہلکی ہلکی ہوا چل رہی ہوتی ہے ۔ اس سال تو بیجنگ میں اگست میں بھی خوب بارشیں ہوئیں جس سے موسم اور خوشگوار ہوگیا۔ اچانک میری نظر کچھ مرد و خو اتین پر پڑی جن کے ہاتھ میں دو شاخی سٹکس تھیں یہ لوگ دو دو کرکے تین تین کرکے فٹ پاتھ پر گشت کررہے تھے اور جہاں کہیں کا غذ ، سگریٹ یا کسی بھی قسم کے کوڑے کا ٹکڑا دیکھ رہے تھے سٹک کے دو نو کوں میں پکڑ کر ہاتھوں میں پکڑے شاپر میں ڈا ل رہے تھے ۔ یہ عمل میں پہلے بھی دیکھتا تھا لیکن یہ کام صفائی کا عملہ کرتاتھا آج میرے لیے حیرانگی کی بات یہ تھی کہ عام لوگ، عام شہری یہ کام کررہے تھے ۔ میرا تجسسس بڑھا تو میں نیچے اترا اور ان لوگوں کو قریب سے دیکھا جو آج اپنے شہر کو صاف ستھرا رکھنے کی مہم میں حصہ لے رہے تھے ۔ مجھے یا د ہے کا لج میں گریجویشن کی سطح پر کچھ دن کیلئے ہم لوگ بھی سوشل ورک میں حصہ لیتے تھے جن میں صفائی ستھرائی اور پودوں کی دیکھ با ل وغیرہ شامل تھی۔
میں نے ہمارے شعبہ اردو کے سینئیرچینی ساتھی لیو صاحب سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ میں بھی کبھی شاپر اٹھا کر رضا کارانہ طور پر کوڑا اکٹھا کرکے ٹکا نے لگا تا ہوں، یہ مجھے اچھا لگتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دراصل یہ کام بعض افراد گروہ کی شکل میں بھی کرتے ہیں ۔میرے دل میں حسرت پیدا ہوئی کہ کاش ہم بھی ان بڑے بڑے بھلائی کے کاموں ،جو اکثر ہماری دسترس سے باہر ہوتے ہیں کی بجائے اس طرح کے چھوٹے چھوٹے کاموں سے شروعات کریں جو انتہائی ضروری ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ چین کے ریاستی کونسل کا ایک ادارہ خصوصی طور پر لوگوں کے احساس شہریت کو پروان چڑھانے کیلئے کام کرتاہے جو شہر کی آباد کاری سے لے کر تعمیرات اور صفا ئی ستھرائی اور تزئین و آرائش تک میں تہذیبی اقدار کو دیکھتا ہے ۔ ایک اور چینی دوست نے مجھے بتایا کہ اس وقت ہمارے ضلع یعنی شی جنگ شن میں خوبصورت تہذیب کی تعمیر کی مہم چل رہی ہے جس میں مختلف اداروں کے افراد بھی حصہ لے رہے ہیں۔ جس کا مقصد لوگوں کو اس حوالے سے ایجوکیٹ کرنا ہے ۔ لیو صاحب نے بتایا کہ اس حوالے سے مختلف شہروں کے درمیان مقابلے بھی ہوتے ہیں جس میں جیتنے والے شہروں کوخو بصورت او تہذیب یافتہ شہروں کے ٹائٹل دیے جاتے ہیں۔
یہاں سڑکوں ، محلوں کی صفائی کیلئے ایک مربوط اور جا مع نظام موجود ہے ۔ جن میں سڑکیں دھونے سے لے کر مشینی جاڑو سے صفائی تک اور کو ڑا کرکٹ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اٹھانے سے لے کر انہیں کوڑے دان میں پھینکنے تک اور پھر انہیں ٹھکانے لگانے تک ہر کام انتہائی منظم انداز میں کیا جا تاہے ۔ اور اس کے بعد جو کوڑا ری سائیکبل ہوتا ہے اسے ری سائیکل مراکز پہنچایا جا تاہے ۔حکومت کی کئی سطحین اس کام میں اپنی زمہ داریاں نبھا تی ہیں تاہم مفامی حکومت یعنی کمیونٹی کی سطح کی حکومت اس میں بنیادی کراد ر اد اکرتی ہے۔ اس بارے انشا اللہ کسی اور دن تفصیلی طور پر آگا ہ کروں گا۔
اس دن میں بیجنگ کے چاو ینگ ضلع میں ایک کام سے گیا تھا۔ میرے پیارے دوست محمد جواد علامہ اقبال اپن یو نیوسٹی میں پروڈیوسر ہیں جواد صاحب کی بڑی خوبی یہ ہے کہ دوستی خوب نبھاتے ہیں ان کے دوست ملک تو کیا دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں بڑے خلوص سے ان سے رابطہ رکھتے ہیں۔ میری خوش قسمتی ہے کہ میں بھی ان کے دوستوں کی فہرست میں شامل ہوں۔ اس دن ان سے تھوڑی دیر بگپ شپ کے بعد میں نے کہا چلیں آپ کو چاو ینگ کی سیر کراتے ہیں ۔ لہذا آڈیو کال کاٹ کر ویڈیو کال کردی ۔ ان کے پاس۔طیب صاحب بھی ۔بیٹھے تھے طیب صاحب بھی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں پروڈیوسر ہیں میں اس دن ان کا قائل ہوگیا جس انہوں نے کیمسٹری لیب میں جانے کیلٗے پروٹو کو ل پر اپنی پروڈیوس کردہ ایک ویڈیو مجھے دکھائی جس میں ڈرون کیمرے سے بھی شوٹنگ کی گئی تھی طیب صاحب چیزوں کو نہ صرف ایک کیین آبزرور کی طرح دیکھتے ہیں بلکہ ان کو اچھی پروڈکشن میں ڈھلنے کا فن بھی خوب جانتے ہیں ۔
ان کے ساتھ تقریبا دس منٹ تک بات ہوتی رہی اور ساتھ چاو ینگ کی سیر بھی ، اس دوران میں ایک چھوٹی سڑک سے ہوتا ہوا بڑی سڑک پر آیا راستے میں ایک پارک ،بس سٹاپ اور ایک چوک سے بھی گزرا۔ مجھے آخر میں طیب کہتے ہیں شا کر بھائی ایک بات بتائیں میں پچھلے دس منٹ سے آپ کے ساتھ ہوں اس دوران میں نے کہیں کوئی گندگی نہیں دیکھی ۔ کہتےہیں کمال صفائی ہے ۔ میں نے کہا ایسا ہی ہے ہم جب یہاں آرہے تھے توٖ بنیادی استعمال کی ضروت کی چیزوں میں پالش کے ڈبے بھی لے کر آئے تھے کہ جوتے گندے ہوں گےتو صاف کرکے پالش کیا کریں گے لیکن نہ یہاں گردہے نہ مٹی اڑتی ہے نہ کیچڑ نہ کوئی اور ایسی چیز جس سے آپ کے جوتے گندے ہوں یہاں آپ جو بھی کپڑے پہنیں کئی دنوں تک صاف ستھرے رہتے ہیں ۔ جگہ جگہ سڑکوں، گلیوں کے کنارے ڈسٹ بن نصب ہیں اسی میں کوڑا پھینکا جاتاہے ۔سب سے بڑھ کر یہ ہے ہر شہری صفائی برقرار رکھنے میں اپنی ذمہ داری نبھاتا ہے۔ ان سب باتوں خوشگوار اثر پڑتا ہے ،آپ تازہ دم محسوس کرتے ہیں۔اور باہر جاتے ہیں تو اچھا محسوس کرکے واپس آتے ہیں ۔
صفائی ایک بنیادی انسانی اور اخلاقی وصف ہے اوریہ وصف نہ صرف چینیوں میں انفرادی سطح پر موجود ہے بلکہ یہاں کے اجتماعی نظام میں اسے جز لا ینفک کی طرح پرویا گیا ہے ۔ جو اس نظام کی خوبصورتی اور دلکشی میں اور اضافہ کرتی ہے۔