انیس اور بیس نومبر کو نئی دہلی میں جناح انسٹی ٹیوٹ اور سینٹر فار ڈائیلاگ ایند ری کنسلیشن(CDR) کے زیراہتمام ہونیوالے اس دو روزہ ڈائیلاگ میں افغانستان کے حالات اور دونوں ممالک کے میڈیا کے موضوعات پر اس طالب علم نے بولنا تھا۔ افغانستان کے موضوع پر جو کچھ عرض کیا اسکا مختصر خلاصہ یوں تھا کہ ’’ہندوستان اور پاکستان ، یوں افغان عوام کے مجرم ہیں کہ دونوں اپنی مشرقی سرحد کے تنازعات کی جنگ افغان سرزمین پر ، افغانوں کے کاندھوں کو استعمال کر کے اور ان کے خون کو بہا کر لڑ رہے ہیں لیکن پاکستان کا جرم نسبتاً یوں کم ہے کہ پاکستان، افغانستان کے حالات سے پہلے بھی متاثر ہوا اور آج بھی متاثر ہو رہا ہے لیکن ہندوستان دور سے آکر ٹانگ اڑا رہا ہے۔ ڈیورنڈ لائن کا تنازع افغانستان نے برقرار رکھا ہے اور اپنے مہاجرین کو افغان حکومت واپس نہیں لے جا سکتی ۔ اب جن دو ممالک کے درمیان روزانہ تیس سے پچاس ہزار لوگ بغیر ویزے اور پاسپورٹ کے آ جا رہے ہوں، تو وہ ایک دوسرے کے معاملات سے کس طرح لاتعلق رہ سکتے ہیں۔ اگر پاکستان چاہے بھی تو اس بارڈر اور روزانہ ہزاروں لوگوں کے بغیر دستاویزات کے سفراور طالبان کی آمد ورفت کو کیسے روک سکتا ہے لیکن ہندوستان کو افغانستان کے ساتھ ایسا کوئی مسئلہ درپیش نہیں۔
پاکستان نے افغان طالبان کے ساتھ بے وفائی کر کے امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی مدد کی تھی اور2003ءتک افغانستان سیاسی استحکام کی طرف بڑھ رہا تھا لیکن جب امریکہ اور نیٹو نے پاکستان کے خدشات اور مفادات کو یکسر نظرانداز کیا اور افغانستان کو سنبھالے بغیر امریکہ نے عراق پر چڑھائی کا فیصلہ کیا تو چین، روس اور ایران کی طرح پاکستان کے بھی خدشات بڑھ گئے۔ مذکورہ تین ممالک نے بھی امریکہ کے ساتھ قلبی تعاون سے ہاتھ کھینچ لئے خود ایرانی انٹیلی جنس نے بھی طالبان اور القاعدہ سے تعلقات استوار کرنے شروع کئے ۔ اس تناظر میں پرویز مشرف کی حکومت نے بھی ڈبل گیم شروع کیا (اگرچہ ذاتی طور پر میں پھر بھی اس کو درست نہیں سمجھتا تھا) ۔ گویا پاکستان کا ڈبل گیم ہندوستان سے متعلق نہیں بلکہ امریکہ اور افغان حکومت کے رویے کے ردعمل میں تھا لیکن ہندوستان نے افغانستان میں جو کچھ کیا اور کررہا ہے، اس کا محور و مرکز پاکستان ہے۔ لیکن ہندوستان کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ وہی غلطی دہرا رہا ہے کہ جو ماضی میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے کی تھی۔ جس طرح ماضی میں عسکریت پسندی کی سپورٹ کے ذریعے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے گلے کے پھندے تیار کئے، اسی طرح ہندوستان آج خطے میں اپنے گلے کے پھندے تیار کر رہا ہے۔
ہندوستان کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ خطے میں آگ بھڑکی رہے گی تو اس کے شعلے ہندوستان تک بھی پہنچیں گے اور جو مذہبی عسکریت پسند ہیں وہ القاعدہ کے ساتھ ہوں یا تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ، ان کی آخری منزل اور ٹھکانہ ہندوستان ہی ہے۔ وہ جس حدیث مبارک کو اپنی جدوجہد کی بنیاد بنا رہے ہیں، کا نام حدیث ہند ہے اور وہ اپنے جہاد کو غزوہ ہند کا نام دیتے ہیں۔ اگر پاکستان راہ میں نہ رہے تو یہ لوگ ہندوستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے میں دیر نہیں لگائیں گے ۔ اس لئے ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں کو چاہئے کہ وہ باز آجائیں اور افغانستان کو اپنی جنگ کا میدان بنائے رکھنے کی بجائے اسے باہمی تعاون کا میدان بنا دیں۔ دونوں عقل سے کام لیں تو افغانستان باہمی جنگ کی بجائے ان کےمابین صلح اورباہمی تعاون کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ افغان حکومت اور طالبان کے مذاکراتی عمل کیلئے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانا (بعض ہندوستانی شرکاء نے مجھ سے پہلے خطاب میں ایسا کیا تھا) بھی درست نہیں۔ یہ عذر بنایا گیا کہ اگر ملاعمر کے انتقال کی خبر مری مذاکرات کے دوسرے مرحلے کے بعد سامنے لائی جاتی تو افغان حکومت کیلئے خفت کا موجب بنتی لیکن کیا یہ اس کیلئے اور امریکہ وغیرہ کیلئے معمولی خفت ہے کہ اس کے مخالف گروپ کے سربراہ کے انتقال کا انہیں ڈھائی سال تک پتہ نہ چل سکاحالانکہ ماضی میں ملا عمر کی انتقال کے دعوے افغان انٹیلی جنس ہی کرتی رہی۔
طالبان کا جو دھڑا ملامحمد عمر کے انتقال کا دعویٰ کر کے کافی عرصے پہلے الگ ہو گیا تھا، وہ افغان انٹیلی جنس کے زیراثر ہے۔ اس لئے یہ دعویٰ سراسر جھوٹ ہے کہ افغان انٹیلی جنس کو ملامحمد عمر کے انتقال سے متعلق کچھ معلوم نہیں تھا۔ لیکن اگر ہم مان بھی لیں کہ مری مذاکرات پاکستان کی غلطی سے ناکام ہوئے تو بھی سوال یہ ہے کہ قطر مذاکرات کس کی وجہ سے ناکام ہوئے۔ پہلے مرحلے کی حامد کرزئی صاحب نے جھنڈے اور امارت اسلامی کے نام کی وجہ سے مخالفت کر دی اور احتجاجاََ قطر سے اپنے سفیر کو بھی واپس بلا لیا جبکہ دوسرا سلسلہ اس لئے ناکام ہوا کہ امریکہ نے افغان طالبان قیدیوں کی گوانتانامو بے سے رہائی کا وعدہ پورا نہیں کیا۔ سب سے بڑی وجہ جس کا کوئی ذکر نہیں کرتا یہ ہے کہ اس وقت بدقسمتی سے افغانستان میں کوئی پیس لابی (Peace Lobby) ہےہی نہیں۔ غیرپختون افغانوں سے بڑھ کر افغان حکومت میں شامل پختون بھی طالبان کے ساتھ مفاہمت کے دلی خواہش مند نہیں ہیں۔ کیونکہ طالبان کو حصہ ڈاکٹراشرف غنی جیسے پختون افغانوں کو دینا ہو گا نہ کہ رشید دوستم اور عبداللہ عبداللہ جیسے لوگوں کو۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مری مذاکرات کے سب سے بڑے مخالف حامد کرزئی صاحب تھے اور بعض لوگ یہ رائے رکھتے ہیں کہ اسی سوچ کے تحت شاید ملا محمد عمر کی موت کی خبر لیک کر کے اس کو خود موجودہ افغان حکومت نے ناکام بنا دیا۔‘‘
میڈیا کے سیشن میں اظہار خیال کرتے ہوئے عرض کیا کہ ’’دونوں ممالک (پاکستان اور ہندوستان) کے میڈیا کا کردار انتہائی منفی ہے۔ دونوں پاپولرازم کا شکار ہو کر جنگی فضا پیدا کر رہے ہیں اور اس طرح کے میڈیا کے ہوتے ہوئے نہ صرف یہ کہ تعلقات کی بہتری کا امکان نہیں بلکہ جنگ کا خطرہ بھی موجود ہے اور مجھے خدشہ ہے کہ حکومتوں کے نہ چاہتے ہوئے بھی یہ میڈیا کسی وقت پاکستان اور ہندوستان کی جنگ کرا سکتا ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ ابتداء میں حکومتیں اور حکومتوں کے طاقتور عناصر میڈیا کو اپنی راہ پر لگا دیتے ہیں۔ تب میڈیا حکومتوں کے مہرے کا کردار ادا کرتا ہے لیکن میڈیا ان تصورات کو عوام میں لے جاتا ہے اور پھر میڈیا پاپولراز م کی وجہ سے خود ان عوامی تصورات کا یرغمال بن جاتا ہے ۔ میڈیا اگر چاہے بھی تو پھر پیچھے نہیں ہٹ سکتا ۔ دوسری طرف پھر ایک مرحلہ ایسا آجاتا ہے کہ حکومتیں اور اسٹیبلشمنٹ اس میڈیا کی یرغمال بن جاتی ہیں ، جس کو کسی زمانے میں خود انہوںنے اس راستے پر لگایا ہوتا ہے۔
میرے نزدیک ہندوستان اور پاکستان کے معاملے میں اب یہی ہورہا ہے۔ ہندوستانی میڈیا کو پاکستان دشمنی کا زہر خود یہاں کی حکومت اور پاکستان مخالف لابی نے منتقل کیا اور اسی میڈیا نے اس کو عوامی سطح پر پھیلا دیا۔ اب میڈیا چاہے بھی تو عوامی موڈ کی وجہ سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا اور حکومت چاہے بھی تو اپنے میڈیا کے خوف سے پاکستان کو کوئی رعایت نہیں دے سکتی۔ اسی طرح پاکستانی میڈیا کو اس راستے پر اس کی اسٹیبلشمنٹ نے لگادیا ہے لیکن اب پاکستانی میڈیا عوامی خوف سے اور اسٹیبلشمنٹ ، میڈیا کے خوف سے کوئی رعایت نہیں دے سکتی۔ ان حالات میں غیرمعمولی فیصلے کرنے والی انقلابی سوچ کی حامل مقبول ترین قیادت ہی ہوا کے مخالف رخ جا سکتی ہے لیکن وہ قیادت اس وقت ہندوستان میں نظر آتی ہے اور نہ پاکستان میں۔ سردست دونوں ملکوں کا جنگ کا بھی کوئی ارادہ نہیں لیکن یہ خطرہ اپنی جگہ موجود ہے کہ کسی وقت حکومتوں کے نہ چاہتے ہوئے، غیرارادی طور پر یہی میڈیا ان دونوں کو لڑوادے اور خاکم بدہن اگر ممبئی جیسا کوئی واقعہ رونما ہوا تو یہ میڈیا جنگ کرائے بغیر اپنی حکومتوں کو نہیں چھوڑے گا۔ تاہم اگر انصاف سے کام لیا جائے تو یہاں بھی پاکستانی میڈیا کا جرم ،بھارتی میڈیا کی نسبت کم ہے۔
ہم اگر میڈیا گروپس کے لحاظ سے دیکھیں تو پاکستان میں دونوں بڑے میڈیا گروپس یعنی جنگ گروپ اور ڈان گروپ، پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ناقدر ہے ہیں۔ لیکن ہندوستان کے بڑے میڈیا گروپس میں ایک بھی اپنی حکومت کی جنگجویانہ پالیسیوں کا ناقد نہیں حالانکہ مضبوط پارلیمنٹ ، مضبوط عدلیہ اور مضبوط سول سوسائٹی کا تحفظ ہونے کی وجہ سے ہندوستانی میڈیا کیلئے یہ کام ، پاکستانی میڈیا کی بہنسبت بہت آسان ہے۔ اسی طرح اگر بڑے اینکرزمیں دیکھا جائے تو پاکستان میں اگر پچاس فیصد اینکرز جنگجویانہ سوچ پھیلانے والے ہیں تو پچاس فیصد برعکس بات بھی کرتے ہیں لیکن ہندوستانی اینکرز میں یہ تناسب دو فی صد بھی نہیں۔ اگر کالم نگاروں کی طرف آجائیں تو پاکستانی سائیڈ پر جنگ کی بجائے امن کی بات کرنے والوں کا تناسب پچاس فی صد سے بھی زیادہ ہے لیکن ہندوستان میں یہ تعداد، آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ۔ پاکستانی میڈیا ، ایک جنگجویانہ ماحول اور سوسائٹی میں کام کر رہا ہے لیکن ہمارے میڈیا میں جنگجویانہ فکر کے علمبردار زیادہ سے زیادہ پچاس فی صد ہوسکتے ہیں لیکن جمہوری اور سیکولر ماحول میں کام کرنے والا بھارتی میڈیا مجموعی طور پر جنگجویانہ سوچ کا علمبردار ہے ۔ یوں بھی اگر مجرم دونوں جانب ہیں تو ہم کم اور آپ ہندوستانی زیادہ مجرم ہیں ۔
‘‘ بشکریہ: روزنامہ”جنگ”