عمران خان نوے کی دہائی سے سیاسی میدان میں تھے، تب وہ زیادہ پاپولر تھے، ان کی شخصیت کے تضادات بھی سامنے نہیں آئے تھے لیکن 2012تک کسی نے ان کو قومی لیڈر اور 2018تک وزیراعظم بنانے کا نہیں سوچا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کو وزارتِ عظمیٰ کے لئے آپشن بنانے میں آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کی ناکامیوں نے بنیادی کردار ادا کیا۔ وہ دونوں اگر میثاقِ جمہوریت پر عمل کرتے، اپنے اپنے ادوار میں بہترین حکمرانی کی مثال پیش کرتے اور سب سے بڑھ کر اگر مقتدر طاقتوں کو صحیح انداز میں ڈیل کرتے تو عمران خان کبھی بھی وزارتِ عظمیٰ کے لئے آپشن نہ بنتے۔ اس میں تو دو آراء ہو سکتی ہیں کہ میثاقِ جمہوریت سے انحراف میں پہل پیپلز پارٹی نے کی یا نون لیگ نے، یا پھر یہ کہ زیادہ انحراف ایک نے کیا یا دوسرے نے، لیکن اس میں دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ دونوں نے میثاقِ جمہوریت کو ”مذاقِ جمہوریت“ بناکے رکھا۔ میاں نواز شریف نے تو تین اضافی ”جرم“ کئے۔
پرویز مشرف پر مقدمہ چلانے کی کوشش کی۔ ہندوستان کے ساتھ تعلقات کے ضمن میں روایت اور حکمت سے ہٹ کر عجلت دکھائی اور افغانستان اور امریکہ سمیت خارجہ پالیسی کو اپنے ہاتھ میں لے کر بغیر کسی مناسب ٹیم اور تیاری کے سمت تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ دھرنوں اور لاک ڈائون کی صورت میں انہیں سبق سکھانے کی کوشش ہوئی لیکن سبق سیکھنے کے بجائے باز نہیں آئے اور جنرل راحیل شریف کے دور کے اقدامات کا حساب جنرل قمر جاوید باجوہ کے دور میں چکانے کی کوشش کی۔ ملک پاکستان تھا، جانشین اور بھائی شہباز شریف تھے اور پارٹی مسلم لیگ تھی لیکن انہوں نے طیب اردوان بننے کی کوشش کی چنانچہ انہیں اور ان کے خاندان کو نمونہ عبرت بنا دیا گیا۔ دوسری طرف آصف علی زرداری نے میاں نواز شریف کی دشمنی یا پھر لاڈلا بننے کی کوشش میں میثاقِ جمہوریت کی ایسی تیسی کردی۔ بلوچستان حکومت گرانے کی سازش میں شریک رہے۔ سینیٹ انتخابات میں غیرجمہوری قوتوں کا کارندہ بنے۔ سندھ حکومت ان کی کمزوری ہے اور انتخابات میں ان کی اس کمزوری کا علاج کرلیا گیا چنانچہ انتخابات کے بعد انہوں نے اپوزیشن کو اپوزیشن بننے ہی نہیں دیا۔
انتخابات کے فوراً بعد مولانا فضل الرحمٰن نے جو اے پی سی بلائی، اس میں تمام جماعتوں بشمول مصطفیٰ کمال کی پی ایس پی کے، کی یہ رائے تھی کہ انتخابی نتائج کو مسترد کرکے اسمبلیوں میں جانے سے گریز کرنا چاہئے لیکن پیپلز پارٹی اسمبلیوں میں جانے پر مصر تھی اور ان کی دیکھا دیکھی نون لیگ نے بھی ان اسمبلیوں میں جانے کا فیصلہ کیا جن کو وہ دھاندلی کی پیداوار قرار دے رہے تھے حالانکہ اس وقت اگر جے یو آئی اور جماعت اسلامی جیسی مذہبی جماعتوں اور بلوچستان اور پختونخوا کی قوم پرستوں جماعتوں کو پیپلز پارٹی اور نون لیگ جیسی قومی جماعتوں کی چھتری میسر آجاتی تو وہ ملک ہلا کر رکھنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔
یوں پاکستان کو ایک ایسے بدقسمت دور میں داخل ہونا پڑا کہ حکومت بھی جعلی اور اپوزیشن بھی جعلی۔ حکومت بھی اخلاقی جواز سے محروم اور اپوزیشن بھی اخلاقی جواز سے محروم۔ حکومت ناتجربہ کار اور مسخروں کا مجموعہ جبکہ اپوزیشن بزدلوں اور مصلحت پسندوں کا ٹولہ۔ یہی وجہ ہے کہ دو سال میں پاکستان کا وہ برا حشر ہو گیا کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی قیادت کی خام خیالی تھی کہ اس تابعداری کے بعد ان کی جان خلاصی ہو جائے گی لیکن افسوس کہ ان تابعداریوں کے بعد بھی ان کو نہیں بخشا گیا۔ زرداری صاحب تو کیا ان کی بہن کو بھی جیل میں ڈال دیا گیا۔ دوسری طرف نواز شریف اور ان کی بیٹی کے ساتھ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو بھی اندر کرلیا گیا۔ چنانچہ ان دونوں جماعتوں نے مجبوراً اپوزیشن بننے کیلئے تیار ی کرلی۔ اس سے حوصلہ پاکر مولانا فضل الرحمٰن بھی میدان میں نکل آئے لیکن یہاں دونوں جماعتوں کو پھر دانہ ڈالا گیا۔
زرداری صاحب اور ان کی بہن کو رہائی ملی اور میاں نواز شریف کو باہر بھجوا دیا گیا۔ چنانچہ دونوں نے ایک بار پھر جعلی اپوزیشن بن کر تابعداری کی سیاست شروع کردی لیکن عمران خان سمجھ رہے تھے اور ٹھیک سمجھ رہے تھے کہ ان دونوں کے ساتھ مقتدر حلقوں کی دوستی ہو جانے کا مطلب یہی ہوگا کہ ان کی چھٹی ہورہی ہے چنانچہ انہوں نے ایسی فضا بنا دی کہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ڈیل کی بعض شقوں پر بھی عمل نہیں ہوسکا اور پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی۔ اب وہ دونوں (زرداری اور نواز شریف) یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کے ساتھ وعدہ خلافی ہوئی جبکہ دوسرا فریق (عمران خان نہیں) سمجھ رہا ہے کہ اس کے ساتھ وعدہ خلافی ہوئی۔ چنانچہ اب دونوں جماعتیں پھر حقیقی اپوزیشن بننے کا تاثر دینے لگیں اور اسی مقصد کیلئے اے پی سی بلائی گئی۔ اس اے پی سی کے نتیجے میں اپوزیشن کا ایک اتحاد بنانے کا فیصلہ ہوا اور پہلی مرتبہ اپوزیشن کی طرف سے یہ متفقہ مطالبہ سامنے آیا کہ دوبارہ انتخابات کرائے جائیں۔ میاں نواز شریف نے تو اپنی تقریر ایسی کر دی کہ خود ان کی جماعت کے لوگ بھی حیران اور پریشان ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کارکنوں کو کیسے اعتماد دلایا جائے اور اپوزیشن کی چھوٹی جماعتوں یا جینوئن اپوزیشن کو کیسے اعتماد دلایا جائے کہ دونوں بڑی جماعتیں دوبارہ ڈیل کرکے جعلی اپوزیشن نہیں بنیں گی؟
میرے نزدیک یہ اعتماد صرف اور صرف اس صورت میں بحال کیا جا سکتا ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ اسمبلی توڑ کر اپوزیشن کی تمام جماعتوں کے ساتھ اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کرلے لیکن سردست پیپلز پارٹی اس کیلئے تیار نظر نہیں آتی۔ اے پی سی میں مولانا اور کئی دیگر لوگوں نے بھرپور کوشش کی اور نون لیگ بھی تیار ہو گئی لیکن پیپلز پارٹی معاملے کو ٹالتی رہی تاہم جب تک اپوزیشن یہ کام نہیں کرتی ان کی صرف انقلابی تقریروں یا قراردادوں کو سیریس نہیں لیا جائیگا۔ اسمبلیوں کو دھاندلی کی پیداوار اور جعلی بھی قرار دیا جائے اور اس کا حصہ بھی رہیں تو یہ کام سنتِ پی ٹی آئی کو تازہ کرنے کے مترادف ہے ۔ پی ٹی آئی دھرنا دے رہی تھی لیکن کے پی اسمبلی توڑنے کو تیار نہیں تھی۔
یوں اب اگر اپوزیشن بھی ویسا کررہی ہے تو اخلاقی جواز سے محروم رہے گی۔ تجربے نے ثابت کیا ہے کہ سو جلسوں اور دھرنوں سے حکومت اتنی نہیں ہل سکتی جتنی کہ تمام اپوزیشن کے استعفوں سے ہل جائے گی۔ یہ لوگ کچھ بھی کرلیں لیکن اگر استعفے نہیں دیتے تو قوم ماضی کے تجربات کی بنیاد پر اپوزیشن کے بارے میں شک کا اظہار کرتی رہے گی۔ اپوزیشن کو یاد رکھنا چاہئے کہ میاں نواز شریف نے اے پی سی میں جو تقریر کی اور قرارداد میں جو بعض مطالبات کئے گئے ہیں، ان کی وجہ سے سرپرست حلقے پی ٹی آئی کی قربت پر مجبور ہو گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نواز شریف کی تقریر کے بعد وہ حلقے جس قدر ناراض ہیں، پی ٹی آئی کی صفوں میں اس قدر جشن کا سماں ہے۔ یوں دھمکیاں دے کر اب اگر اپوزیشن نے سنجیدگی نہ دکھائی تو نہ صرف عمران خان کی حکومت مزید مضبوط ہوگی بلکہ اپوزیشن بالخصوص نون لیگ اور پیپلز پارٹی کو ایسی مار پڑے گی کہ وہ ماضی کی تمام مار بھول جائیں گے۔ البتہ استعفے دے کر اگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) نے چند ماہ کیلئے بھی جینوئن اپوزیشن کا کردار ادا کیا تو پی ٹی آئی کی حکومت ریت کا ڈھیر ثابت ہوگی۔