وبا اور بعد ازوبا دور میں ہیلتھ سلک روڈ کی اہمیت

کووڈ-19 نے اہل دنیا کی زندگی کے تمام پہلوؤں کو متاثر کیاہے، طرز معاشرت بدل گئی ہے، لوگوں کی بڑی تعداد کو لمبے عرصےتک اپنے گھروں تک محدود رہنا پڑا ہے، جس کی وجہ سے میل جول میں کمی آئی ہے، معمول کی سرگرمیاں معطل رہی ہیں، نقل وحمل میں خلل پڑاہے، دفتروں اور کام کی جگہ پر کام کرنے کے بجائے گھروں سے کام اور تعلیمی اداروں کے بجائے پڑھائی کاسلسلہ آن لائن رہا ہے، بلاشبہ وبا نے تمام شعبوں پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ یہ اثرات صرف افراد اور معاشروں٘ تک محدود نہیں ہیں، بین الاقوامی روابط اور تعاون پر بھی اثر پڑا ہے۔ مختلف ممالک کے درمیان تبادلے کم ہوگئے ہیں اور نقل وحمل محدود ہونے کی وجہ سے تجارت کم ہوگئی ہے، لیکن یہ حقیقت بھی خوب آشکارا ہوگئی ہے کہ اس وقت دنیا کو تعاون کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے اور ایسے میں بین الاقوامی پلیٹ فورمز اور ان کے متحرک ہونے کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے ۔ اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں اسی حقیقت کی گو نج سنائی گئی ہے ، تاہم اقوام متحدہ کے بعض اہم رکن ممالک اس ادارے کے تحت عالمی یکجہتی ، تعاون اور کثیرالجہتی کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کررہے ہیں۔ دنیا کے ترقی پذیر ممالک کی خوش قسمتی ہے کہ ان کے پاس تعاون اور ترقی کے دیگر اہم پلیٹ فورمز موجودہیں۔ ان پلیٹ فورمز میں ایک انتہائی اہم بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو ہے ۔

بیلٹ اینڈ روڈ کے پیچھے چینی صدر شی جن پھنگ کا بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کے قیام کا خواب ہے۔ وبا نے دو شعبوں کی اہمیت کو مزید اجاگر کیاہے، پہلا حفظان صحت اور دوسرا معیشت، بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو کے بینر تلے صحت کی شاہراہ ریشم اور ڈیجیٹل سلک روڈ کے تحت بی آر آئی سے وابستہ ممالک میں ان شعبوں پر توجہ دینے کیلئےاور ان ممالک کی مدد کیلئے تعاون کاسلسلہ جاری ہے تاکہ نہ صرف انسداد وبا میں ان ممالک کی مدد کی جاسکے بلکہ ان شعبوں میں صلاحیت کو بھی بہتر بنایا جاسکے ۔

صحت عامہ کے بحران معاشروں کے لئے ہمیشہ مشکل چیلنج ثابت ہوئے ہیں ، کیونکہ عوام کی صحت تمام ممالک کے لئے اولین حیثیت رکھتی ہے۔ کوویڈ ۔۱۹ کی وجہ سے ، لاکھوں افراد اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ، اور بہت سارے بچے یا تو اسکول چھوڑ چکے ہیں یا اسکول نہیں جاسکے ہیں ، جس کی وجہ سے ان میں نفسیاتی پیچیدگیا پیدا ہوگئی ہیں۔

ترقی پذیر ممالک میں تو صورتحال خاص طور پر خراب معلوم ہوتی ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ سے وابستہ ممالک میں سے بیشتر وبا پھیلنے سے پہلے ہی ترقی پذیر ہیں ، جنہیں صحت عامہ کے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق افریقہ میں صرف 3 فیصد ادویات مقامی طور پر تیار کی جاتی ہیں ، اور دنیا کی 70 فیصد آبادی میں مناسب طبی خدمات کا فقدان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی صحت کی دیکھ بھال میں تعاون کو بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا ایک بنیادی کام سمجھا جاتا ہے۔

بیلٹ اینڈ روڈ "صحت کی شاہراہ ریشم” تصور کے تحت صحت سے متعلق بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کا کام کرتا ہے۔ اس حوالے سے پہلی ترجیح وائرس کے پھیلاؤ کو روکنا اور پوری دنیا میں صحت عامہ کی حفاظت کرنا ہے۔ چونکہ وبا کے بعد کے دور میں ، اس شعبے میں عالمی اور علاقائی تعاون کی ضرورت میں تیزی سے اضافہ ہوگا ، اسلئے صحت کی شاہراہ ریشم کے تحت عوامی صحت کے انفراسٹرکچر کی تعمیر کو تیز کرنے اور عالمی عوامی صحت کے نظام کو مزید موثر اور پائیدار بنانے پر توجہ دی جائیگی ۔

اس مقصد کے حصول کیلئے تمام ممالک میں کاروباری اداروں کو مکمل طور پر متحرک کرنا ضروری ہے تاکہ صحت کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر میں ہاتھ بٹا یا جائے ، اور متعدی بیماریوں سے لڑنے ، زچگی اور بچوں کی صحت کو بہتر بنانے اور ویکسین تیار کرنے کیلئے بین الاقوامی تعاون کو مزید تقویت ملے۔ اس سلسلے میں صحت کے شعبے کو متعلقہ سازو سامان اور سہولیات مہیا کرنے کی ضرورت ہوگی ، جن میں صحت کی تعلیم اور عملے کی تربیت شامل ہے۔

چین بیلٹ اینڈ روڈ کے تحت ان تمام شعبوں پر توجہ دے رہاہے اور بیلٹ اینڈ روڈ سے وابستہ ممالک کے ساتھ صحت کی شاہرہ ریشم تعمیر کررہاہے تا کہ عوام کی حفظان صحت کو یقینی بنایا جاسکے اور ان ممالک میں صحت عامہ سے متعلق مسائل کو حل کیا جاسکے تاکہ بنی نوع انسان کا صحت مند معاشرہ تشکیل پاسکے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے