ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی

گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پہ ایک نیوز اینکر کی تصویر وائرل ہوئی جسے چند "یار لوگوں” نے مختلف کیپشنز کے ساتھ اور کہیں کہیں بطور مِیم پوسٹ کرتے ہوئے نفسیاتی گھٹن کا مظاہرہ کِیا ۔ اس معاملے پہ ایک مخصوص طبقہ ء فکر کے افراد نے خاتون کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش فرمائی۔ چند آزادیء اظہار کے علم برداروں نے اس تصویر کو اینکر کا "ذاتی فعل” قرار دیتے ہوئے پدر سری سماج کو ہی موردِ الزام ٹھہرایا۔ یوں ایک بار پھر مردوں کو آئینہ دکھانے کا موقع اس مٹھی بھر جماعت کو مل گیا۔ چوں کہ آزادی ء رائے سب کا بنیادی حق ہے، ایسے میں چند گزارشات اس لیے لکھنا بھی ضروری تھیں کہ ہر واقعے پہ خاموش رہنا اور اندر ہی اندر سلگتے رہنا بھی درست نہیں۔

پہلی بات جس پہ کوئی دوسری رائے سامنے نہیں آتی کہ انسانی نفسیات اور سوچ پہ براہِ راست اثر انداز ہونے والی چند نمایاں انواع میں سے ایک میڈیا بھی ہے۔ اب سے دس برس پہلے ہمارے بچے چِپس کھاتے تھے مگر اب Lays کھاتے ہیں۔ پہلے پہل چاکلیٹ کھائی جاتی تھی مگر اب Dairy Milk کھلانے کی فرمائش کی جاتی ہے۔ آج ہمارے ہاں ڈیٹرجنٹ کی بجائے Ariel اور Surf Excel استعمال کِیا جاتا ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔ گھنٹے بعد خبریں پڑھتی سجی سنوری اینکر جب سکرین پہ آتی ہے تو ایک دم چینل سرچنگ کرتے ہاتھ بھی کچھ دیر تماشا دیکھنے کو رک ہی جاتے ہیں۔مڈل کلاس گھرانوں کی کچے ذہن کی لڑکیاں اب بھی نیوز اینکر کے بالوں کا سٹائل، کپڑوں کے ڈیزائن اور بات کرنے کے انداز کو اپنانے کی خواہاں نظر آتی ہیں۔اِن تمام اثر انگیزیوں کے ہوتے ہوئے اگر آپ نیم عریاں لباس میں سکرین پہ آئیں گے تو سوال تو اٹھیں گے۔

چند نام نہاد لبرل اذہان نے اس مسئلے کو بھی مردوں کی سوچ کی خرابی بتاتے ہوئے یہ وضاحت پیش کی کہ اس میں برائی کیا ہے۔ کیا مرد زیرِ قمیص بنیان کا استعمال نہیں کرتے؟ اس کو” لائٹ موڈ” میں لِیا جائے سوچ بڑی کی جائے اور "کُول” رہا جائے۔ جی ٹھیک ہے ہم ہو گئے Cool مگر ایک بات کہنا بے حد ضروری ہے کہ ہر صحت مند سماج کے چند قوانین ہوتے ہیں۔ ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے پہ چالان کی ادائیگی کی جاتی ہے بالکل اسی طرح ایک طے شدہ ڈریس کوڈ کو چھوڑ کر ہنس کی چال چلنے والوں کو اکثر منہ کی کھانا پڑتی ہے۔

جہاں تک ایک نیوز اینکر کے نیم عریاں لباس پہننے کی حمایت کی بات ہے تو اس کا مطلب ہے آپ کے نزدیک ہر شخص کو تمام قول و فعل کی مکمل آزادی ہے۔ آپ زبان پہ کتے باندھ لینے یا بے ہودہ لباس پہن لینے کو شخصی آزادی سمجھتے ہیں۔یوں تو آپ کا یہ موقف بھی ہوگا کہ ایک دہشت گرد بھی کُھلے عام قتل و غارت کرنے کے لیے آزاد ہے۔ کیونکہ یہ اس کا بھی ذاتی فعل ہے۔ میرے نزدیک میڈیا کارکنان کا قابلِ اعتراض لباس زیبِ تن کرنا بھی سماجی دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔

اب اگر بات کی جائے کہ ہر بات میں مقابلہ ہمیشہ مردوں سے ہی کرنا ہے تو یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے پہ اثر انداز ہونے والے لوگ ایسی سوچ کو پروان چڑھائیں جس میں عورت فکری اعتبار سے ترقی یافتہ مردوں کے مدِ مقابل کھڑی ہو۔ ایک بلند سوچ کی مالک باوقار عورت ہر جگہ ذہنی طور پہ ترقی کرتی ملے گی۔ اس کے نظریات و افکار سستےنعروں سے کہیں زیادہ پختہ اور حتمی ہوں گے۔ عورت کی آزادی کا نعرہ لگانے والوں کا نقطہء نظر کبھی بھی اس کے لباس کے اختصار کی آزادی نہیں رہا۔

پیشے کے اعتبار سے ہر ادارے میں چند ضوابط کی پیروی کرنا امرِ لازم ٹھہرتا ہے۔ اگر میڈیائی دنیا میں آپ کے مرد کولیگ گرمی سردی تھری پیس پہن کر اپنے ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی نہیں کر رہے تو آپ کس برابری کا راگ الاپ رہی ہیں۔ اس کا مطلب ہے آپ اپنے پیشے سے انصاف کرنے کی بجائے عورت کارڈ استعمال کر رہی ہیں۔ اس سے آپ کو وقتی کامیابی تو ضرور مل سکتی ہے لیکن دیگر کئی مڈل کلاس لڑکیاں میرٹ پہ ہوتے ہوئے بھی اپنے جائز حقوق سے محروم ہو جاتی ہیں۔

حقیقی بات تو یہ ہے کہ مشرقی عورت کو آزادی کا اصل معنی صحیح طور پہ معلوم بھی نہیں اور دعویٰ کرتی ہیں فیمن اسٹ ہونے کا۔ سچ تو یہ ہے کہ آزادیء نسواں کی بات کرنے والی کو ابھی تک علم ہی نہیں ہے کہ اس کے کیا کیا حقوق ہیں۔ حقیقی معنوں میں اپنے حقوق و فرائض کا علم رکھنے والی ہر خاتون کو ہمیشہ ذہنی و تخلیقی سطح پہ ترقی کرتا دیکھا گیا ہے۔

کیا میڈیا روم میں داخل ہونے سے پہلے میک اپ کی تہوں کو درست کرتے ہوئے وہاں موجود کسی نے بھی لباس کے غیر مناسب پن پہ دھیان نہ دیا تھا؟ او اچھا۔۔۔۔ دیکھا تو تھا مگر ریٹنگ کی جنگ نما دوڑ میں دوڑتے ہوئے سوچا تھا کہ محبت اور جنگ میں سب "جائز” ہے۔

چند ایک حقیقی لبرلز کو چھوڑ کر کثیر تعداد ایسے لوگوں کی ملے گی جنھیں لبرل ازم کی الف ب کا پتہ ہے نہ ہی فیمنسٹ ہونے کے دعوے دار لفظ فیمنزم کا مفہوم جانتے ہیں۔ ان کے نزدیک عورت کی آزادی سے مراد محض دوسروں کی عورت کی آزادی ہے۔ اپنے گھر کی عورت کو یا تو وہ عورت نہیں مانتے یا اس کی آزادی سے خوف زدہ ہیں۔ سوشل میڈیا پہ خواتین کی تصویروں پہ "ہارٹ ری ایکٹ” کرنے والے افراد میں سے کتنے ہیں جنھوں نے اپنے گھر کی عورت کو بھی یہ اجازت دے رکھی ہے کہ وہ اپنی تصویریں اپ لوڈ کرے اور دوسرے مردوں سے بھی یونہی "دلی داد” وصول کرے۔ اسی لیے ایسے ہر موقعے پہ بلاوجہ عورت کو مظلوم بنا کر پیش کرنا ایک لایعنی سی بات لگتی ہے۔

یہاں ایک بات کی وضاحت کرنا بے حد ضروری ہے کہ مذکورہ بالا تمام باتوں سے اختلاف رکھنا آپ کا بنیادی حق ہے۔ اختلافِ رائے ہی مکالمے کو جنم دیتا ہے اور اسی سے ہی مسائل سلجھتے آئے ہیں۔ روشن خیالی اور عریانیت کو فروغ دینے میں ذمین آسمان کا فرق ہے۔ مجھے کہنے دیجیے کہ کسی بھی کلچر کے بنائے گئے قوانین کی خلاف ورزی کر کے آپ سستی شہرت تو حاصل کر سکتے ہیں مگر آنے والی نسلوں کو خیال اور سوچ کے زینے چڑھانے میں بری طرح ناکام رہیں گے . اب اگر آپ اس سلسلے میں مغرب کی خواتین کی آزادی کی دلیل لائیں گے تو بتاتی چلوں کہ مغرب کی عورت ہم سے کہیں آگے ہے۔ سائنس سے لے کر ادب تک درجنوں ایسے نام ملیں گے جس میں وہاں کی عورت تخلیقی اور ذہنی سطح پہ ترقی کرتی نظر آئے گی۔ آپ اگر واقعی مشرقی عورت کو آزاد کروانا چاہتے ہیں تو دیہات میں رہنے والی اس عورت کی آزادی کی وجہ بنیں جو صدیوں سے سماج کی فرسودہ روایات کی بھینٹ چڑھ کر کہیں ونی، کہیں وٹہ سٹا، کہیں "زبان دے دی ہے” اور اکثر اوقات جینے کے بنیادی حقوق تک سے محروم نظر آتی ہے۔ سماجی اقدار کو پامال کرنے والے ایسے افسوس ناک واقعات پہ جب سوچنے والا طبقہ اندھا دھند حمایت کرے گا تو اس سے آپ اخلاقی زوال کا باعث تو بن ہی رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ حقیقی طور پہ مشرقی عورت کے بنیادی حقوق غصب کروانے میں سب سے بڑے مجرم بھی آپ ہی ہوں گے۔

نوٹ: ان تمام دلائل کو موٹروے سانحہ اور اس جیسے دیگر شرم ناک واقعات سے جوڑ کر الجھایا نہ جائے۔ ایسے تمام واقعات پہ میرا بھی وہی موقف ہے جو ہر سنجیدہ فکر رکھنے والے کسی دوسرے فرد کا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے