مفاہمت کی موت

مفاہمت کی سیاست کا باب بند ہوا۔ ہم اس وقت بندگلی میں کھڑے ہیں۔

شہباز شریف صاحب نے اس مفاہمت کی بہت بھاری قیمت ادا کی۔ ہم جیسوں کے طعنے سنے۔ مخالفین کے استہزا کا موضوع بنے۔ بڑے بھائی نے ڈانٹ بھی پلائی ہوگی۔ اس سب کچھ کے باوجود انہوں نے مفاہمت کا علم تھامے رکھا۔ صلے میں ان کو کیا ملا؟ بیٹا پنجاب اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف ہوتے ہوئے بھی پابندِ سلاسل ہے۔ خود اس عمر اور بیماری میں گرفتار ہیں۔ فریقِ ثانی نے زبانِ حال ہی نہیں، زبانِ قال سے بھی بتادیا کہ غیر مشروط اطاعت کے سوا شریف خاندان کے پاس کوئی راستہ نہیں۔ یوں شہباز شریف صاحب کا بیانیہ دم توڑ گیا۔

شہباز شریف پرکرپشن کا ایک الزام بھی تادمِ تحریر ثابت نہیں ہوا۔ احد چیمہ کو پکڑا گیا۔ اخبارات کی سرخیاں، کئی ماہ چیختی چنگھاڑتی رہیں کہ شہباز شریف کا ‘فرنٹ مین‘ وعدہ معاف گواہ بن گیا۔ دیانت کے پیکر صحافی چیمہ صاحب کی کرپشن کی ہوشربا داستانیں سناتے اور یہ بھی بتاتے رہے کہ ان کی ہر ‘کرپشن‘ کا کھرا شہباز شریف تک پہنچتا ہے۔

دوسال بعد پتا چلاکہ جو سنا‘ محض افسانہ تھا۔ نیب احتساب عدالت میں درخواست گزار ہواکہ ہم ایک مقدمہ واپس لیتے ہیں۔ مقدمہ تو واپس ہو جائے گا لیکن احد چیمہ کے دوسال اورعزت کیسے واپس آئیں گے؟ اس سوال کا جواب اس نظامِ احتساب پر قرض رہے گا۔

احد چیمہ کا ایک مقدمہ ختم ہوا لیکن شہباز شریف کی آزمائش ختم ہونے کو نہیں آ رہی۔ میں نے بہت عرصہ پہلے لکھا تھاکہ نفرت کا ہدف صرف نوازشریف اور ان کی بیٹی نہیں، پورا شریف خاندان ہے۔ یہ چوہے بلی کا کھیل ہے جو شہباز شریف صاحب کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے۔ نمرود کی خدائی میں، وہ سمجھتے تھے کہ بندگی میں بھلا ہو گا۔ اسی غلط تجزیے کے باعث تنقید کا ہدف بنے۔

شہباز شریف کی گرفتاری کا صاف الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ مفاہمت کی سیاست اب نہیں ہو گی۔ اپوزیشن جماعتوں کو ہدایات کا تابع بن کر جینا ہوگا۔ پارلیمنٹ میں کوئی مسودہ قانون آئے تو بغیرکسی اعتراض کے منظورکریں۔ وزیراعظم اور وزرا دشنام دیں تو خندہ پیشانی سے برداشت کریں۔ جیل میں ڈال دیا جائے تو خاموشی سے قبول کریں۔ انہیں احتجاج کا کوئی حق نہیں۔ پیغام ملا کہ دو بندے بھی مال روڈ پر نکلے توجیل پہنچا دیے جائیں گے۔

یہ ہدایات اتنی واضح ہیں کہ گویا دیوار پر لکھ دی گئی ہیں۔ سیاست کی گلی سے گزرنے والاہر راہی آسانی سے پڑھ سکتا ہے۔ شہباز شریف صاحب کی گرفتاری نے تو کوئی ابہام باقی رہنے ہی نہیں دیا۔ جب معاملہ یہاں تک آ پہنچے تو قومیں بندگلی میں جانکلتی ہیں۔ ایسے موقعوں پر تصادم ناگزیر ہو جاتا ہے۔ نفرت حد سے بڑھ جائے تو یہاں پہنچا کر دم لیتی ہے۔

سیاست میں فریقین جب بندگلی میں آنکلیں توریاست کا کوئی ادارہ ثالث کا کردار ادا کرتا ہے۔ ثالث بالخیر، جس پر دونوں فریق اعتماد رکھتے ہوں۔ آج ملک میں کوئی ثالث نہیں ہے۔ جو ثالث ہو سکتے تھے، وہ فریق بن چکے۔ جب معاملہ یہاں تک پہنچ جائے تو کسی ایک فریق کو ختم ہونا ہوتا ہے یا پھر ڈبل ناک آوٹ (double knockout) پر کھیل تمام ہوتا ہے۔

یہ تقسیم اب نچلی سطح تک پہنچ چکی ہے۔ ایسا نہیں کہ یہ اقتدار کی حریفانہ کشمکش کے چند کھلاڑیوں تک محدود ہے۔ اس تقسیم کے اثرات شہروں اور قصبوں تک پھیل چکے۔ اب یہ نہیں ہوگا کہ یہ معرکہ چند خاص ایوانوں ہی میں لڑا جائے گا‘ یہ گلی بازار میں برپا ہوگا۔ جس کو اس بات میں شک ہے، اس کو چاہیے کہ تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھے۔
سوال یہ ہے کہ اگر ملک میں کوئی ثالث موجود نہیں تو کیا بیرونِ ملک سے پاکستان کا کوئی دوست ثالث بن سکتا ہے؟

امکان کی حد تک، میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں۔ ایسا پہلے بھی ہو چکا۔ 1960ء کی دہائی میں جب مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کو موت کی سزا سنائی گئی تومسلم دنیا کے کئی سربراہوں نے مداخلت کی اور حکومت کو اس سے باز رکھنا چاہا۔ اسی طرح جب 1977ء میں بھٹو صاحب اور قومی اتحاد کے درمیان اختلاف تصادم تک جاپہنچا تو سعودی عرب نے ثالث کا کردار ادا کیا تھا۔ سعودی سفیر ریاض الخطیب بہت متحرک رہے۔ پھر جب ذوالفقار علی بھٹو صاحب کو موت کی سزا سنائی گئی تب بھی بہت سے مسلم ممالک کے رہنماؤں نے جنرل ضیاالحق کو اس سے روکنا چاہا۔ اس لیے اگر اس بار ایسا ہوتا ہے تو یہ کوئی انہونی نہیں ہو گی۔

یہ کسی قوم کی بدقسمتی ہے کہ جب اس کے افرادکے مابین اختلاف ہو جائے تو کوئی ایسا ادارہ یا شخصیت موجود نہ ہو جو ثالث کاکردار ادا کر سکے۔ اس سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ جنہیں ثالث ہونا چاہیے، وہ فریق بن جائیں۔ جدید ریاست کا تصور اقتدار کو کئی مراکز میں منقسم کرتا ہے۔ یہ حکیمانہ تقسیم ہے۔ اس کا پسِ منظر یہ ہے کہ کوئی فرد یا ادارہ اس طرح مطلق العنان نہ ہوکہ اختیارات ایک جگہ مرتکز ہو جائیں اور وہ دوسروں کے حقوق غصب کر ڈالے۔

ماضی میں یہ مقام شخصیات کو حاصل ہوتا تھا۔ کوئی عالمِ دین، کوئی سماجی شخصیت، کوئی صحافی اپنی بصیرت، حسنِ کردار اور خیر خواہی کے سبب سے سماج میں یہ مقام حاصل کر لیتا تھاکہ سب کے لیے یکساں محترم بن جاتا تھا۔ افسوس کہ آج ہمارے ہاں کسی ادارے کو یہ حیثیت حاصل ہے اور نہ کسی شخصیت کو۔ ہم رجال کے ایسے قحط سے پہلے کبھی نہیں گزرے تھے۔

میں اس صورتحال کا ذمہ دار کسی طور اپوزیشن کونہیں ٹھہراتا۔ شہباز شریف صاحب، پہلے ذکر ہوچکا کہ مفاہمت کی راہ پر اتنا آگے نکل گئے کہ خودکو مذاق بنالیا۔ اسی طرح پیپلزپارٹی نے بھی کبھی تصادم کا راستہ نہیں اپنایا۔ آصف زرداری صاحب کی یہ خدمت یاد رکھی جائے گی کہ ماضی میں جب بے نظیر بھٹو کو قتل کیاگیا تو انہوں نے سندھ کے جذبات کو بے کنار نہیں ہونے دیا۔ المیہ یہ ہے کہ سیاست دانوں نے ہمیشہ ملک کیلئے اپنی انا اور جذبات کی قربانی دی مگر جواباً ان کے گلے میں غداری کے تمغے ڈالے گئے۔ کرپشن کے پروپیگنڈے میں الجھے لوگ کبھی ان باتوں کا ادراک نہیں کر سکتے۔

آج اگر ہم اس بندگلی سے بغیر تصادم کے نکلنا چاہتے ہیں تو اس کا واحد راستہ نئے انتخابات ہیں۔ یہ نظام پکار پکار کرکہہ رہا ہے کہ اس میں بڑے تنازعات کو حل کرنے کی صلاحیت ہی نہیں۔ یہ اس معاملے میں بانجھ ہو چکا۔ جس نظام میں کوئی ثالث نہ ہو، وہاں تنازعات حل ہو ہی نہیں سکتے۔ سطحی نگاہیں ابھی تک عمران خان اور نوازشریف سے آگے بڑھ کر معاملات کو نہیں دیکھ رہیں۔ معاملہ اس سے کہیں آگے بڑھ چکا۔

اس لیے میں پوری سنجیدگی سے یہ سمجھتا ہوں کہ اس نظام کا خاتمہ پاکستان کو فساد اور بدامنی سے محفوظ رکھنے کیلئے ناگزیر ہے۔ اس کا واحد، پُرامن اور آئینی راستہ نئے انتخابات ہیں۔ اگر عمران خان اسمبلیاں توڑنے اور نئے انتخابات کا اعلان کر دیں تو وہ ایک بار پھر سیاستِ دوراں سے متعلق ہو جائیں گے۔ اس لیے اگر وہ ایک سیاست دان بن کر سوچیں تو یہ بات ان کے مفاد میں ہے۔

اِس وقت اپوزیشن کے ہاتھ میں کچھ نہیں۔ جو کچھ ہے فریقِ ثانی کے ہاتھ میں ہے۔ اپوزیشن کے پاس احتجاج کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ بندگلی میں احتجاج کتنا خطرناک ہوتا ہے، کاش، میں اسے لفظوں میں بیان کر سکتا۔ اصول واضح ہے کہ جس کے پاس جتنا اقتدار ہے، وہ اتنا ہی ذمہ دار ہے۔ تاریخ بھی اسی بنیاد پر لوگوں کے بارے میں فیصلہ دے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے