ہماری تہذیب میں ڈاکٹر کو مسیحا کہتے ہیں اور یہ ہماری تہذیب کا وہ رخ ہے کہ جو عالمی تہذیب میں اور کہیں نظر نہیں آتا ۔لیکن افسوس صد افسوس کہ مسیحاؤں کو کہ جو ہمارے مریضوں کے لئے اللہ کے حکم سے شفا مہیا ہو نے کا ذریعہ بنتے ہیں ، اور انسانی درد میں جن کے دل ہر وقت جذب رہتے ہیں ،اور جب وہ مریضوں کا علاج کرتے ہیں تو خود کو بھول جاتے ہیں اور اس مریض کی جو تکالیف ہیں اسے اپنی ذاتی تکلیف سمجھ لیتے ہیں اور اس کے علاج کے لیے اپنا وقت صرف کرتے ہیں اپنا ایمانی جذبہ استعمال کرتے ہیں ۔ اس لئے ڈاکٹر اور ہسپتال میں کام کرنے والاسارا عملہ ، یہ سب لوگ انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں ان کا احترام ہم پر فرض ہے ۔ افسوس کہ ہمارے ہاں اس فرض میں کوتاہی رفتہ رفتہ عام ہوتی جارہی ہے۔
آج کل آئے روز ٹیلی ویژن پر ایسی خبریں دیکھنے کو مل جاتی ہیں کہ جیسے کوئی مریض آتا ہے ، سسکتا بلکتا ہوا ، تو اس کے ساتھ لواحقین، جو کہ اسے ہسپتال لے کر آتے ہیں وہ اللہ سے دعا مانگ رہے ہیں کہ ہمارے مریض کو شفا مل جائے۔ اچانک وہ ہسپتال میں غیظ و غضب سے بھرا ہوا کوئی ہجوم دیکھتے ہیں جیسے انسان ہی نہیں بلکہ جانوروں کا کوئی ریوڑ ہے جو ہسپتال میں گھس آیا ہے۔ معلوم کرو تو پتہ چلتاہے کہ ان کے مریض کی طبعیت بگڑی یا وہ وفات پاگیا اور اب یہ اس کا سارا الزام ہسپتال اور ڈاکٹر پہ لادے ہوئے یہاں چڑھائی کرچکے ہیں۔
ایسے مناظر دیکھ کر مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم بحیثیت قوم تہذیب و شائستگی اور اسلام کی حکمت سے بہت دور ہو چکے ہیں کیونکہ اسلام کی حکمت میں تو جو لوگ دوسرے انسانوں کو ان کی تکالیف میں شفا بخشنے کا کام کر رہے ہیں اور اپنے کام میں سرگرم ہیں وہ لوگ انسانیت کے مسیحا ہیں ۔
صدافسوس !کہ ہم اپنے مسیحاؤں کو وہ عزت نہیں دے پا رہے جس کے وہ مستحق ہیں ۔ ہمہ وقت دل سے یہی دعا کرتا رہتا ہوں کہ اے کاش ہمارے ہم وطنوں کو اس حد تک تہذیب اور شائستگی کا رویہ نصیب ہو کہ وہ اپنے مسیحاؤں کو اپنا مسیحا سمجھ سکے نہ کہ انہیں اپنا دشمن سمجھتے رہیں۔
پروفیسر فتح محمد ملک