وزیراعظم عمران خان کے مُقدمات سُننے سے روکنے کے لیے سُپریم کورٹ کے چار ججز بشمول چیف جسٹس گلزار احمد کے تحریری حُکمنامہ کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسی نے اختلافی نوٹ جاری کردیا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کا اختلافی نوٹ جہاں سُپریم کورٹ کے غیر معمولی حُکمنامہ کو آئین ، قانون اور سُپریم کورٹ کے متعدد فیصلوں کی روشنی میں غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیتا ہے وہیں وہ سُپریم کورٹ کے اندرونی معاملات سے بھی پردہ اُٹھاتا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسی اپنے اٹھائیس صفحات کے اختلافی نوٹ کا آغاز اِن جملوں سے کیا کہ ” یہ معاملہ تب شروع ہوا جب سُپریم کورٹ نے وزیرِ اعظم عمران خان سے منسوب ایک خبر کا نوٹس لیا جو آئین سے مُتصادم تھی لیکن اِس کا انجام بہت ہی غیر مُتوقع ہوا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی لِکھتے ہیں کہ وزیراعظم کے خلاف الزام کی تحقیقات تو نہ کی گئیں بلکہ سُپریم کورٹ کے ایک جج کی سرزنش کرتے ہوئے اُسکو اپنی آئینی ذمہ داریاں ادا کرنے سے روک دیا گیا۔
سینیارٹی لِسٹ میں چوتھے نمبر پر موجود اور دو ہزار تےیس میں پاکستان کے چیف جسٹس بننے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بتاتے ہیں کہ تین فروری دو ہزار اکیس کو میرے اور جسٹس مقبول باقر پر مُشتمل دو رُکنی بینچ نے وزیراعظم عمران خان سے متعلقہ اٹھائیس جنوری کو ڈان میں چھپنے والی ایک خبر کا نوٹس لیا۔ خبر کے مُطابق وزیراعظم نے ممبران اسمبلی کو پچاس کروڑ فی کس فنڈ دینے کا اعلان کیا تھا اور یکم فروری کو اِس خبر پر ڈان اخبار نے ایک ایڈیٹوریل بھی لکھا لیکن وزیراعظم یا حکومت نے اِس خبر کی کسی بھی موقع پر تردید نہ کی۔ اختلافی نوٹ کہتا ہے کہ اسمبلی ارکان کو یوں فنڈز دینا سُپریم کورٹ کے دو ہزار چودہ کے فیصلہ کی خلاف ورزی تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسی لِکھتے ہیں کہ آرٹیکل دو سو چار سُپریم کورٹ کو اختیار دیتا ہے کہ وہ ایسے کسی بھی شخص کے خلاف کاروائی کرے جو عدالت کے کسی بھی فیصلہ کی حُکم عدولی کرے اور ججز کا حلف اس بات کا مُتقاضی ہے کہ ہم آئین کا دفاع اور حفاظت کریں۔
جسٹس قاضی فائز عیسی لکھتے ہیں کہ ہم نے اِس معاملے پر اٹارنی جنرل سے وضاحت طلب کی ہے کہ کیا یہ اراکینِ اسمبلی کو فنڈز جاری کرنا آئین اور عدالتی فیصلوں سے مُطابقت رکھتا ہے؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بتاتے ہیں کہ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ ایسی کسی چیز کی نمائندگی نہیں کریں گے جو خلافِ آئین یا عدالتی فیصلوں کے خلاف ہو۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ وفاقی اور تمام صوبائی حکومتوں کو نوٹس کرکے انہوں نے معاملہ چیف جسٹس گلزار احمد کو غور کرنے کے لیے بھجوا دیا تاکہ اگر واقعی کُچھ خلافِ قانون ہے تو چیف جسٹس بینچ کے سامنے مُقرر کردیں۔
پیرا تین میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ لکھتے ہیں کہ دس فروری کو چیف جسٹس نے معاملہ دو رُکنی بینچ کے سامنے مُقرر کے کرنے کی بجائے جسٹس مقبول باقر کو باہر کرتے ہوئے اپنی سربراہی میں پانچ رُکنی بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مُقرر کردیا اور اِس بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس مُشیر عالم، جسٹس عُمر عطا بندیال، میں (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ) اور سنیارٹی لِسٹ میں ساتویں نمبر پر موجود جسٹس اعجاز الاحسن شامل تھے۔ یہاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک انکشاف اپنا خط سامنے لاکر کیا کہ انہوں نے جسٹس مقبول باقر کر بینچ سے ہٹانے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے لِکھا کہ اِس مرحلہ پر جب کہ دو ججز اِس معاملہ کی سماعت کررہے تھے ، آپ نے خود سمیت دیگر ججز کو اِس بینچ میں شامل کرکے دراصل سرِعام اپنے دو ججز پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے اور نہ صرف اِس عدالت کے دو ججز کی ساکھ کو مُتاثر کیا ہے بلکہ اُنکی تضحیک بھی کی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ خط میں چیف جسٹس کو مزید لکھتے ہیں کہ میں نے آئین کے دفاع اور تحفظ کی بھاری ذمہ داری کی وجہ سے اور اِس ادارے کی خودمُختاری کی خاطر میں کُھلی عدالت میں بینچ کے قیام پر اعتراض نہیں کررہا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ لِکھتے ہیں کہ معزز چیف جسٹس گلزار احمد نے میرے خط کا جواب نہیں دیا اور نہ ہی مُجھے میرے سوالات کا زبانی جواب دیا کہ جسٹس مقبول باقرکو بینچ سے کیوں علیحدہ کیا گیا اور یوں دو رُکنی بینچ کے سامنے زیرِ سماعت معاملہ کو پانچ رُکنی بینچ کے سامنے مُقرر کردیا گیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ یوں ایک بینچ کے سامنے زیرِ سماعت مُقدمہ پر نیا بینچ بنانا نامناسب عمل ہے جو غیر ضروری طور پر سوالات پیدا کرتا ہے اور لوگوں سوچتے ہیں کہ آخر اِس معاملہ میں ایسی غیر معمولی دلچسپی کیوں لی گئی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کہتے ہیں کہ سوالات کے جواب نہ ملنے سے لوگوں کا عدالتی نظام کی ساکھ اور غیر جانبداری پر اعتماد میں کم ہوجاتا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ لکھتے ہیں کہ دس فروری کو پہلی سماعت کے بعد حُکم دیا گیا کہ خبر کی واشگاف اور واضح تردید اگلے دِن یعنی گیارہ فروری کو جمع کروائی جائے اور سماعت ایک روز کے لیے موخر کردی گئی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ واضح کرتے ہیں کہ دس فروری کے حُکمنامہ میں کہیں بھی نہیں کہا گیا کہ ایک جج کو وزیراعظم سے مُتعلقہ مُقدمات نہیں سُننا چاہیے اور نہ ہی کسی کو بشمول اٹارنی جنرل خالد جاوید خان اور صوبایی حکومتوں کے ایڈوکیٹ جنرلز کو میری بینچ میں موجودگی پر کوئی اعتراض تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کہتے ہیں کہ یوں جانبداری کی کمی اور تعصب کی جو بات مُجھ سے منسوب کی گئی اُس میں کوئی واقعاتی حقیقت نہیں ہے۔
اِس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بتاتے ہیں کہ کیسے اُنہیں اگلے روز سماعت سے قبل ایک نامعلوم وٹس ایپ نمبر سے چوہدری سالک حُسین کے حلقہ این اے پینسٹھ چکوال میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے فنڈز جاری ہونے کی دستاویزات موصول ہوئیں جو انہوں نے ساتھی ججز سے بھی شیر کیں اور اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ کیا وہ معلوم کرسکتے ہیں یہ دستاویزات مُصدقہ ہیں یا نہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کہتے ہیں کہ اگر وفاقی اور پنجاب حکومت دستاویزات کو غیر مُصدقہ قرار دے دیتے تو معاملہ وہیں ختم ہوجاتا اور اگر کہتے کہ دستاویزات مُصدقہ ہیں تو پوچھا جاسکتا تھا کہ عدالتی فیصلہ میں پابندی کے باوجود یہ فنڈز کیوں جاری کیے گئے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ اٹارنی جنرل صرف ایک فون کال کرکے دستاویزات کے مُصدقہ یا غیر مُصدقہ ہونے کا معلوم کرسکتے تھے لیکن اٹارنی جنرل کی طرف سے ہچکچاہٹ نے شکوک پیدا کیے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ اٹارنی جنرل نے دستاویزات کی تصدیق کرنے کی بجائے جج پر شکایت کُنندہ ہونے کا الزام لگا دیا اور مزید حیرت کی بات ہے کہ چیف جسٹس گلزار احمد نے اٹارنی جنرل کے الزام سے اتفاق کرتے ہوئے فوری طور پر میرے خلاف یکطرفہ حُکمنامہ جاری کردیا کہ مُجھے وزیراعظم سے متعلقہ امور کی سماعت نہیں کرنی چاہیے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس گلزار احمد کے اِس عمل کو عدالتی تحمل اور خوبصورت روایات کے خلاف قرار دیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اٹارنی جنرل کی طرف سے خود پر شکایت کُنندہ کے الزام کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے صرف دستاویزت کی تصدیق کا پوچھا اور بارہا کہا کہ مُجھے نہیں معلوم یہ دستاویزات مُصدقہ ہیں یا نہیں؟ اور بہتر ہوتا اٹارنی جنرل اُن دستاویزات کی تصدیق کی کوشش کرتے نہ کہ جج پر شکایت کُنندہ ہونے کا الزام لگاتے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آگے چل کراُس دِن کے سماعت کے افسوسناک اختتام کے بارے میں لکھتے ہیں کہ گیارہ فروری کی سماعت چیف جسٹس نے یکطرفہ طور پر اچانک نمٹا دی اور ساتھی ججز سے مشاورت کے بغیر ریمارکس دے دیے کہ ایک جج کو وزیراعظم سے متعلقہ امور نہیں سُننے چاہیے اور چیف جسٹس کے سیٹ سے اُٹھ جانے کے بعد باقی ججز بھی مجبوری میں اپنی نشستوں سے اُٹھ کر اُنکے پیچھے چل دیے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کہتے ہیں کہ اُنہیں میڈیا کے ذریعے شام کو پتہ چلا کہ جِس بینچ کا وہ حصہ تھے اُس نے حُکمنامہ جاری کردیا ہے جو نہ تو اُنہیں پڑھنے کے لیے بھیجا گیا اور نہ ہی اُن سے دستخط یا اختلافی نوٹ لینے کے لیے اُنہیں دکھایا گیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کہتے ہیں کہ اِس وجہ سے اُنہوں نے اگلی صُبح یعنی کہ بارہ فروی کو رجسٹرار سُپریم کورٹ کو خط لکھ کر اِس فیصلہ کو طے شُدہ روایات سے ہٹ کر جاری کرنے پر سوال اُٹھایا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اِس موقع پر سُپریم کورٹ میں ایک افسوسناک طرزِ عمل کی طرف اشارہ کرتے ہیں رجسٹرار سُپریم کورٹ نے سُپریم کورٹ کے ایک جج کی طرف سے لِکھے گیے خط کا جواب بھجوانے کی بجائے اُن کو صرف درج ذیل چار سوالات کا جواب دیا کہ
اُنہیں حُکمنامہ یا فیصلہ کیوں نہیں بھیجا گیا؟
فیصلہ بینچ کے سینیر جج کو بھیجنے کے سُپریم کورٹ کے طے شدہ طریقہ کار پر عمل کیوں نہیں کیا گیا؟
میرے پڑھنے، اتفاق کرنے یا اختلاف کرنے سے قبل میڈیا کو کیوں جاری کیا گیا؟
اور یہ حُکمنامہ کِس کے کہنے پر میڈیا کو جاری کیا گیا؟
رجسٹرار سُپریم کورٹ نے اُنہیں بتایا کہ جب بینچ میں موجود ججز کی اکثریت نے آرڈر پر دستخط کردیے تو انہوں نے ججز کے سیکریٹریوں کے ساتھ زبانی گفتگو کی بُنیاد پر فیصلہ ویب سایٹ پر جاری کردیا۔ یعنی کہ رجسٹرار سُپریم کورٹ مُستقبل کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بتا رہا ہے کہ آپ چاہے بینچ کا حصہ تھے لیکن ہم نے آپ سے فیصلے کی دستاویز شیر کرنا مُناسب نہیں سمجھا اور بینچ کے باقی ججز کے دستخط لے کر آپ کو نظر انداز کرتے ہوئے فیصلہ میڈیا کو جاری کردیا۔۔ عُمدہ بہت عُمدہ۔۔ اور یہ کہاں ہو رہا ہے پاکستان کی سب سے بڑی آئینی عدالت میں ، جہاں ججز نے آئین اور قوانین کی پاسداری کا حلف اُٹھا رکھا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بغیر ججز کے دستخط شُدہ حُکمنامہ کی قانونی حیثیت بتاتے ہیں کہ ایک بھی ایسی نظیر نہیں کہ کسی جج کو دستخط کے لیے بھیجے بغیر جاری کیے گیے آرڈر کو قانونی حُکمنامہ مانا جاسکے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ اگر ایک حُکمنامہ جاری کرنا تھا تو میرے دستخط لے لیتے یا میرے اختلافی نوٹ کے ساتھ جاری کرتے کہ چار ججز کی اکثریت نے یہ فیصلہ جاری کیا جبکہ ایک نے اختلاف کیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ طنز کرتے ہیں کہ یا ایسے بھی کہا جاسکتا تھا کہ پانچ رُکنی بینچ کے چار ججز نے اپنے پانچویں ساتھی جج کے خلاف حُکم جاری کردیا۔ اِس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کہتے ہیں کہ بینچ کے معزز ججز کا حُکمنامہ اُنکی نظرِثانی اور سوچ بچار کا متقاضی ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کہتے ہیں کہ چیف جسٹس کی طرف سے دستاویزات کی تصدیق کے بغیر نوٹس نمٹا دینا ایک یکطرفہ عمل ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کہتے ہیں کہ معزز چیف جسٹس نے خود ہی بینچ کی تشکیل کی اور پھر خود ہی موقع سے فائدہ اُٹھا کر بینچ کے ہی ایک رُکن جج کے تعصب اور غیر جانبداری میں کمی کا بھی خود ہی طے کرکے اُسکو کیس سُننے سے منع بھی کردیا۔
اِس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ حُکمنامہ میں بیان کردہ حقائق کی فاش غلطیوں بھی نشاندہی کرتے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنے خلاف حُکمنامہ تحریر کرنے والے چیف جسٹس گلزار احمد اور اُنکے ساتھی تین ججز جسٹس مُشیر عالم، جسٹس عُمر عطا بندیال اور جسٹس اعجازالاحسن کو بتاتے ہیں کہ جناب میں نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف ذاتی حیثیت میں کویی پیٹیشن نہیں دائر کر رکھی اور جِس پیٹیشن کی آپ بات کررہے ہیں وہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف نہیں بلکہ اُس میں اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کو چیلنج کررکھا ہے جِس میں وزیراعظم سمیت تیرہ لوگ فریق ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس کی طرف سے ایک جج کو مُقدمات کی سماعت سے روکنے کی توجیہات کو بھی نشانہ بناتے ہوئے لِکھتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کو ذاتی حیثیت میں پیٹیشن میں فریق نہیں بنایا گیا بلکہ اُنکو بطور وزیرِ اعظم فریق بنایا گیا ہے کیونکہ اُنکی ہدایت پر میرے خلاف صدر نے ریفرنس سُپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجا جو میں نے سُپریم کورٹ میں چیلنج کیا اور وزیرِ اعظم صدر کو ہدایت دینے کا اختیار ذاتی حیثیت میں نہیں رکھتے تھے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مزید لکھتے ہیں کہ اگر وٹس ایپ پر موصول حلقہ این اے پینسٹھ کی دستاویزات کو بھی دیکھا جائے تو وزیراعظم عمران خان نے اُس حلقے سے انتخاب نہیں لڑا اور نہ ہی مُنتخب ہوئے ہیں، اِس لیے یہ کہنا بھی غلط ہے کہ یہ وزیراعظم کی ذات سے مُتعلقہ معاملہ تھا۔
اِس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ایک انتہائی اہم نُکتے کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اگر جواز یہ ہے کہ میں وزیراعظم کے متعلق کیس نہیں سُن سکتا کیونکہ میں نے وزیراعظم کے خلاف پیٹیشن کررکھی ہے تو اگر یہ جواز مان لیا جائے تو میں نے اپنی پیٹیشن میں سُپریم جوڈیشل کونسل کو بھی فریق بنا رکھا ہے جِس کے تین معزز ارکان موجودہ بینچ کا بھی حصہ تھے جِس نے میرے خلاف فیصلہ سُنایا تو کیا پھر وہ بھی میرے بارے میں تعصب رکھتے ہیں اور اُنکی غیرجانبداری کم ہے اِس لیے اُنکو میرے خلاف حُکم جاری نہیں کرنا چاہیے تھا؟ کیونکہ میری پیٹیشن میں چھٹا فریق سُپریم جوڈیشل کونسل ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اِس اختلافی نوٹ میں انکشاف کرتے ہیں کہ پانچ رُکنی بینچ کے رُکن جسٹس عُمر عطا بندیال نے اکیس دسمبر دو ہزار بیس کو سُپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں شِرکت بھی کی اور ایک ایسے وقت میں جبکہ اُنکی پیٹیشن ابھی زیرِ التوا ہے انہوں (جسٹس عُمر عطا بندیال) نے پیٹیشن (صدارتی ریفرنس فیصلہ کے خلاف نظرِثانی درخواستیں) سُننے والے بینچ کی سربراہی سے خود کو علیحدہ بھی نہیں کیا جبکہ ریفرنس دس رُکنی بینچ مُشترکہ طور پر خارج کرچُکا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنے آپ کو وزیراعظم عمران خان کے کیسز نہ سُننے کے حُکمنامہ پر ایک اور دلچسپ اعتراض اُٹھاتے ہیں کہ عمران خان ذاتی حیثیت اور بطور وزیرِ اعظم دو مُختلف چیزیں ہیں۔ اگر وہ وزیراعظم کے خلاف کیس نہیں سُن سکتے تو ریاست کے سربراہ صدر بہت سے معاملات میں وزیراعظم سے مُشاورت کرتے ہیں اور اُنکی ہدایت پر عملدرآمد کرتے ہیں یوں وہ (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ) صرف سول تنازعات ہی سُن سکیں گے کیونکہ تمام فوجداری مُقدمات کی ایک فریق ریاست بھی ہوتی ہے اور ریاست کے سربراہ صدرِ پاکستان دراصل وزیراعظم سے ہدایات لے رہے ہوتے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ حُکمنامہ میں خود پر تعصب اور غیر جانبداری کے الزام جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں وزیراعظم عمران خان کو ذاتی حیثیت میں نہیں جانتا تو میں کیسے اُن کے بارے میں تعصب رکھ سکتا ہوں؟ اور اگر میں اپنی ذمہ داریاں غیر جانبداری سے ادا کرنے میں ناکام رہتا ہوں تو میں آئینی ذمہٰ داریوں اور اپنے حلف کی خلاف ورزی کا مُرتکب ہوں گا جِس کے لیے میں اپنے ضمیر اور خُدا کو جوابدہ ہوں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ایک خوبصورت جُملہ سے اِس پیراگراف کا اختتام کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرے بھائی ججز کو میرے ضمیر کی نگہبانی کی ضرورت ہے اور نہ مُجھے اُنکے ضمیر کی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مزید کہنا ہے کہ جانبداری یا غیر جانبداری کا پہلے تو دیکھا جائے الزام لگا بھی یا نہیں؟ اور اگر لگا بھی تو وہ جِس جج پر لگتا ہے اُس نے خود غور کرنا ہوتا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کہتے ہیں کہ اگر جانبدرای یا تعصب کا الزام لگانا تھا تو وہ وزیرِ اعظم عمران خان کو خود لگانا چاہیے تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل آف پاکستان بھی وزیرِ اعظم عمران خان کے ایماء پر تعصب کا الزام نہیں لگا سکتے کیونکہ اُن کا کردار آئین میں واضح ہے اور وہ اِس وزیرِ اعظم کے وکیل کا کردار ادا نہیں کرسکتے اور نہ ہی چیف جسٹس گلزار احمد وزیراعظم عمران خان کو یہ تعاون فراہم کرسکتے ہیں کہ ایک جج کو اُن کے مُقدمات کی سماعت سے روک دیں اور نہ ہی آئین پاکستان اور قانون ججز کو یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنے ساتھی جج کے دِل کا حال جانچنے کا دعویٰ کریں کہ کیا اُس میں وزیرِ اعظم کے خلاف تعصب یا غیر جانبداری کی کمی تو نہیں ہے؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ صرف اللہ کی ذات ہی ہر کسی کے دِل کا حال جانتی ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا چیف جسٹس گُلزار احمد کے بارے میں کہنا ہے کہ اُنہوں نے ایک غیر مُتعلقہ معاملہ اُٹھایا اور بغیر کسی کو سُنے خود سے ہی یکطرفہ طور پر سوچ لیا کہ شاید میں تعصب رکھتا ہوں یا غیر جانبداری میں کمی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کہتے ہیں کہ یہ کیس تین مُختلف تاریخوں تین فروری، دس فروری اور گیارہ فروری کو چیف جسٹس کے سامنے آیا لیکن کسی بھی موقع پر میری غیر جانبداری کے خلاف کسی بھی طرف سے کوئی درخواست نہیں آئی اور نہ ہی وزیراعظم نے اپنے دستخط شُدہ تحریری جواب میں میرے پر جانبداری کا اعتراض کیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ جو حُکمنامہ گیارہ فروری کو میرے خلاف جاری کیا گیا، نہ صرف پاکستان کی عدالتی تاریخ میں بلکہ پوری دُنیا میں ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ اپنے ساتھی جج کے خلاف فیصلہ دیا گیا ہو۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا اپنے خلاف فیصلہ پر کہنا تھا کہ ایک غیر معمولی انداز میں بغیر کسی ثبوت کے اور بغیر کسی فریق کی درخواست کے ایک ایسا فیصلہ دے کر سُپریم کورٹ کے ایک جج کے تشخص کو داغدار کیا گیا جِس کے نتیجہ میں سُپریم کورٹ کی اپنی ساکھ اور خودمُختاری کو کمزور ہو گئی۔
…..
اِس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سُپریم کورٹ کے مُتعدد کیسز کا حوالہ دیا جِس میں مُختلف ادوار میں پانچ سے زائد ججز کے لارجر بینچ نے مُختلف چیف جسٹسز کی سربراہی میں یہ طے کردیا تھا کہ کوئی بھی بینچ یا جج ساتھی جج کو نہ تو کسی کیس کی سماعت سے روک سکتا ہے، نہ ہدایت دے سکتا ہے، نہ دباؤ ڈال سکتا ہے اور نہ ہی حُکم دے سکتا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اسلامی احکامات، احادیث اور قُرآنی آیات کی روشنی میں بھی اپنے خلاف دیے جانے والے فیصلے کو غلط ثابت کیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اِس عدالتی اصول کی بھی نشاندہی کی کہ ایک چھوٹا بینچ اپنے سے بڑے بینچ کے فیصلہ کے خلاف نہیں جاسکتا جبکہ چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رُکنی بینچ کے چار ججز نے اِس اصول سے بھی روگردانی کی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مزید لکھتے ہیں کہ اِس نوعیت کا حُکم جاری کرنا سُپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا اور نہ ہی فیصلے میں کسی بھی جگہ یہ حوالہ دیا گیا ہے کہ کِس اختیار کے تحت یہ فیصلہ جاری کیا گیا؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اِس موقع پر ایک اہم بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ کوئی بھی ہائیکورٹ یا سُپریم کورٹ خود سے اپنی حدود یا دائرہ کار میں اضافہ نہیں کرسکتے اگر پہلے سے قانون نے اُنکو وہ اختیار نہ دے رکھا ہو۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ جج کا حلف مُتقاضی ہے کہ وہ ہر طرح کے مُقدمات اپنی اہلیت کے مُطابق مُکمل ایمانداری سے آئین کے دائرہ میں رہ کر سُنے اور لوگوں کے ساتھ انصاف کرے اور جب لوگوں کی بات آتی ہے تو اُس میں عمران خان ذاتی حیثیت اور بطور وزیرِ اعظم شامل ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ایک جج کو اُس مخصوص مُقدمات سے روک کر آپ اُس کو دی جانے والی تنخواہ، الاونسز اور مراعات کو ضائع کررہے ہیں کیونکہ وہ اپنی ذمہ داری تو ادا نہیں کر رہا، جِس کے لیے اُس کو ٹیکس دہندگان تنخواہ ادا کررہے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہم آئین سے وفادار رہیں اور میں پھر دہرا دیتا ہوں کہ اگر کسی ادارے کا سربراہ بھی آئین سے ہٹ کر کُچھ کرے تو ہمیں اُس کو یاد دلانا چاہیے کہ وہ آئین کے تابع ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف حُکمنامہ میں بیس نقائص اور غیر قانونی باتوں کی نشاندہی کرنے کے بعد افسوس کا اظہار کیا کہ ایک نوٹس جو ایک بدعنوان عمل اور رشوت کو روکنے کے لیے لیا گیا تھا اُس کا اختتام جج کو ڈانٹنے اور روکنے پر ہوا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اِس موقع پر اپنے دُکھ کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں وہ اِس تمام عمل سے اتنے دلبرداشتہ ہوئے کہ استعفیٰ دینے کا سوچا لیکن پھر خیال آیا کہ یہ ایک جج کی ذات سے غیر مُنصفانہ سلوک کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اِس سے بہت اہم وہ آئینی ذمہ داری ہے جو مُجھے لوگوں کے حقوق اور مال کے تحفظ کے لیے ادا کرنی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کہتے ہیں اللہ کی مدد سے وہ یہ ذمہ داری انشااللہ ادا کرتے رہیں گے۔