گیارہ بجکر پچیس منٹ پر کمرہِ عدالت میں داخل ہوا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی اہلیہ سرینا عیسیٰ اور بیٹی کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے جبکہ مسز سرینا عیسیٰ کی ایف بی آر میں معاونت کرنے کے بعد اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بھی دلائل میں اسسٹ کرنے والے نوجوان وکیل کبیر ہاشمی بھی موجود تھے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نیلے اور کالے رنگ کے دو سفری سوٹ کیس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نشست اور وُکلا کے د لائل کے لیے مخصوص روسٹرم کے درمیان پڑے تھے۔ سینئیر قانون دار حامد خان بیٹھے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے سے پچھلی قطار میں تھے لیکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سر موڑ کر اُن سے گپ شپ کر رہے تھے۔ آج کمرہِ عدالت میں نوجوان وُکلا کی بڑی تعداد موجود تھی۔ یوں تو کمرہِ عدالت کے دایں طرف فُل کورٹ کے دس ججز کے نوجوان لا کلرک بیٹھے ہوتے ہیں لیکن آج کمرہِ عدالت کی قریباً اسی فیصد نشستوں پر نوجوان وُکلا بیٹھے تھے۔ اپنے ساتھ بیٹھے نوجوان وکیل سے پوچھا کہ آپ کا کوئی کیس ہے یا کسی سینئیر وکیل کے ساتھ بطور معاون آئے ہیں؟ نوجوان وکیل نے جواب دیا جی نہیں میں خود سے آیا ہوں کیونکہ یہ ایک تاریخی مُقدمہ ہے جب ایک سُپریم کورٹ جج بطورِ وکیل دلائل دے رہا ہے تو میں اُنکو سُننا چاہتا ہوں۔
گیارہ بجکر اڑتیس منٹ پر کورٹ آگئی ہے کہ آواز لگی تو سب سے پہلے جسٹس امین الدین خان اور آخر میں فُل کورٹ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال داخل ہوئے۔ گرے رنگ کے سوٹ اور چارکول کلر کی ٹائی لگائے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ روسٹرم پر آگئے تو جسٹس عُمر عطا بندیال نے بتایا کہ ہمیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل مُنیر اے ملک کا تحریری بیانِ حلفی موصول ہوا ہے جِس میں انہوں نے بُخار اور دل کے عارضے کی وجہ سے دلائل دینے معذرت کرلی ہے اور اب اگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آپ خود دلائل دینا چاہیں تو آپ کو اجازت ہے۔ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے خود دلائل دینے پر آمادگی ظاہر کی تو جسٹس عُمر عطا بندیال نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہم آپ کو ایک بات کہنا چاہتے ہیں کہ انسان جب اپنی ذات سے متعلق دلائل دے رہا ہوتا ہے تو جذباتی بھی ہو جاتا ہے اور آپ کو احتیاط کرنی ہوگی کہ بینچ کے ریمارکس یا دوسری طرف (حکومتی قانونی ٹیم) سے کی جانے والی باتوں پر آپ صبر کا دامن ہاتھ سے مت چھوڑیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بینچ کا دلائل کی اجازت دینے پر شُکریہ ادا کرتے ہوئے جواب دیا کہ مائی لارڈ اگر میں جذباتی ہوں یا غیر ضروری بات کروں تو آپ مُجھے ڈانٹ کر روک سکتے ہیں۔ فُل کورٹ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال نے مُسکرا کر جواب دیا کہ ہم ڈانٹیں گے نہیں لیکن آپ کو بتا دیں گے۔
اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے باقاعدہ دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے کہا کہ میں کہیں جذباتی نہ ہوجاؤں تو میں صرف کیس تک محدود رہتے ہوئےتیزی سے اپنے دلائل مُکمل کرنے کی کوشش کروں گا تاکہ میں اپنے خیالات آپ تک پہنچا سکوں۔ اِس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس امین الدین خان کا نام لیے بغیر کہا کہ میں بینچ کے نئے رُکن جج کے لیے اختصار سے کیس کا پسِ منظر بیان کردیتا ہوں تاکہ اُنہیں نظرِ ثانی کی اپیلیں سُنتے ہوئےمعلوم ہو کہ کیا کیس تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بتایا کہ اُنکے خلاف صدرِ پاکستان نے وزیرِ اعظم عمران خان کی ایڈوایس پر ریفرنس سُپریم جوڈیشل کونسل میں دائز کیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ اُن پر اپنی اہلیہ کی جائیدادیں ٹیکس ریٹرن میں ظاہر نہ کرکے مِس کنڈکٹ کا الزام لگایا گیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے بارے میں الزام کے لیے انکم ٹیکس آرڈیننس کا مُطالعہ کرے تو حیرت ہوئی کہ آخر وہ کیسے اپنی خودمُختار بیوی کی جائیدادیں اپنے ٹیکس ریٹرن میں ظاہر کرنے کے پابند تھے؟
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا کہنا تھا کہ اُنہیں اور اُنکی اہلیہ کو کبھی بھی ایف بی آر نے نوٹس نہیں بھیجا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مزید کہنا تھا کہ حکومت نے سُپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس کی کاروائی شروع ہونے کے بعد الزام کو بے نامی جائیدادوں اور پھر منی لانڈرنگ میں بدل دیا۔ درخواست گزار جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ یہ جائیدادیں اُنکی اہلیہ اور بچوں نے اُنکے سُپریم کورٹ کا جج بننے سے خریدی تھیں اور اگر بات منی لانڈرنگ کی جائے تو اُنکی اہلیہ نے فارن کرنسی اکاونٹ کھول کر اُس سے پیسے قانونی طریقے سے برطانیہ بھیجے تھے جو بات تحقیقات کرنے والے سلیکٹڈ ٹیکس کمشنر نے بھی مانی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لفظ سلیکٹڈ پر خصوصی زور دیا اور سلیکٹڈ کہتے ہوئے اُنکی آواز بھی بُلند ہوگئی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کیس کا پسِ منظر کا بیان کرتے ہوئے مزید کہنا تھا کہ اُنکی اہلیہ شادی سے قبل بھی پاکستان میں بہترین ملازمت کررہی تھیں اور اُنکا خاندان بڑے زرعی رقبے کا مالک تھا جبکہ وہ شادی سے قبل اپنی ذاتی آمدن سے بنگلہ، پلاٹ اور پلازہ تک خرید چُکی تھیں تو اُنکی آمدن پر کیسے سوال اُٹھایا جاسکتا تھا کہ وہ برطانیہ میں دو جائیدادیں نہیں خرید سکتی تھیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے بچوں پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ اُنکی بیٹی اور بیٹا جائیدادوں کی خریداری کے وقت جوان تھے، بہترین تعلیم یافتہ اور نوکری پیشہ تھے۔ اِس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک باپ کی طرح اپنی بیٹی پر فخر کرتے ہوئے کہ اُنکی بیٹی اُن سے بھی زیادہ قابل ہیں کیونکہ بیٹی کے پاس جو ڈگری ہے وہ میرے (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ) پاس نہیں ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بینچ کو بتایا کہ کل بینچ میں ریمارکس دیئے گئے کہ میری کردار کُشی کا کوئی مُواد یہاں موجود نہیں لیکن میں اپنی بیٹی اور بیوی کا شُکر گُزار ہوں جنہوں نے کل یہ سب مُواد الیکٹرانک ذرایع سے جمع کیا ہے۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے فوری مُداخلت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ براہِ مہربانی میں اُس طرف نہیں جانا چاہتا ہم صرف آپ کی نظرِ ثانی کی اپیل میں اُٹھائےگئے نکات تک ہی رہیں تو بہتر ہوگا تاکہ بات بڑھتی ہوئی الزام تراشی کی طرف مت جائے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ میں کسی پر الزام نہیں لگا رہا اور نہ ہی توہینِ عدالت کی کاروایی چاہ رہا کیونکہ اُسکا فورم الگ ہوگا لیکن میں ٹی وی پر کیس کی سماعت کی لایو کوریج کے سلسلے میں بینچ کو باور کروانے کے لیے صرف بتا رہا ہوں۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ ہم اِس پہلو کردارکُشی والے پہلو کو نظر انداز کرنا چاہ رہے ہیں کیونکہ ہم پہلے سے ہی بہت دُکھی ہیں کہ ہمارے سامنے ہماری بہن اور بیٹی بیٹھی ہیں اور ہمیں اُنکو یوں سُننا پڑ رہا ہے۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے اپنے ریمارکس جاری رکھتے ہوئےجسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مُخاطب کرکے کہا کہ آپ نے اور آپ کے اہلخانہ نے بہت صبر سے سب کُچھ برداشت کیا ہے اور یقیناً اللہ اِس کا پھل آپکو دے گا۔ جسٹس عُمر عطا بندیال مسز سرینا عیسیٰ کو بہن اور اُنکی بیٹی کو اپنی بیٹی کہہ رہے تھے۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے بہن اور بیٹی والے ریمارکس کےجواب میں اپنا ایک ذاتی واقعہ بینچ کو سُنایا کہ جب اُنکے خلاف ریفرنس خارج ہوا تو اُنکے کزنز نے اُنکو میسج کرکے ریفرنس خارج ہونے کی مُبارک دی لیکن ساتھ ہی ایک بہت بڑا مگر لگا کر بولا کہ کیونکہ وہ آپ کے ساتھی ججز تھے تو ریفرنس خارج ہونا ہی تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ کیونکہ میرے کزنز نے سُپریم کورٹ کے ادارے کی ساکھ پر سوال اُٹھایا تھا تو میں نے کزنز سے تعلق ہی ختم کرلیا لیکن مُجھے احساس ہوا کہ میں سُپریم کورٹ میں تو مُقدمہ جیت گیا لیکن شاید عوام کی عدالت میں ہار گیا ہوں اور اِس لیے اب میں چاہتا ہوں کہ عوام تمام سماعت براہِ راست دیکھ کر سچ اور حقیقت جانیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مزید کہنا تھا کہ اُنکی شخصیت داغدار کرنے کے لیے حکومت نے یکطرفہ پروپیگنڈہ مُہم شروع کی اور میری فیملی پوچھتی تھی کہ میں جواب کیوں نہیں دیتا لیکن جج کے عہدہ نے میرا گلا گھونٹ رکھا تھا اور میں بول نہیں سکتا تھا۔ اِس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسی نے قُرآن کی مُختلف آیات پڑھیں اور جھوٹے الزام، ریاست، عدالت اور قاضی کے بارے میں کیا کُچھ کہا گیا وہ بیان کیا جبکہ بانیِ پاکستان قائد اعظم مُحمد علی جناح کا پاکستان کیسا ہوگا اور گورننس کیسے ہوگی اِس کا ویژن بھی قائدِ اعظم کے مُختلف خطابات کے مُنتخب حصوں سے بیان کیا۔ اِس دوران جسٹس منظور ملک نے جسٹس سجاد علی شاہ سے گفتگو شروع کردی اور پھر جسٹس منظور ملک نے اپنی دائیں طرف بیٹھے فُل کورٹ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال کے کان میں کُچھ کہا جِس کے بعد جسٹس عُمر عطا بندیال نے دلائل دیتے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو روک کر ہدایت کی کہ وہ کیس کے متعلقہ نکات کی طرف آئیں اور اپنی لائف کوریج کے سلسلے میں اپنی گزارشات پیش کریں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے رہنمائی پر بینچ کا شُکریہ ادا کیا تو جسٹس عُمر عطا بندیال نے دوبارہ سے جسٹس منظور ملک سے مشاورت شروع کردی اور اِس دوران جسٹس منظور ملک کے ساتھ بیٹھے جسٹس سجاد علی شاہ نے اپنے قریب بیٹھے جسٹس مُنیب اختر سے مشاورت شروع کردی۔ پھر چاروں ججوں نے آپس میں مُختصر مُشاورت کی اور جسٹس عُمر عطا بندیال دوبارہ وُکلا کے لیے مخصوص روسٹرم پر کھڑے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے مُخاطب ہوئے۔ جسٹس عُمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ آپ نے جو کُچھ پڑھا ہے وہ اوپن کورٹ میں سماعت سے متعلق ہے اور ہم پہلے سے ہی اوپن کورٹ میں سماعت کرہے ہیں جبکہ آپ خود بھی اِس چیز کو سمجھ سکتے ہیں جو ہم کہنا چاہ رہے ہیں بس بدقسمتی سے آپ بینچ کے دوسری طرف کھڑے ہیں۔ جب جسٹس عُمر عطا بندیال یہ جُملے کہہ رہے تھے تو میں سوچ رہا تھا کہ یہ اپنے لحاظ سے ایک تاریخی مُقدمہ ہے جب کمرہِ عدالت میں گیارہ جج موجود ہیں دس بینچ میں بیٹھے کیس سُن رہے اور گیارہواں جج سامنے وکیل بنا اپنی بےگُناہی کے لیے دلائل دے رہا ہے۔ خیال آیا کہ اِن دس ججز میں سے صرف فُل کورٹ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال دلائل دینے والے درخواستگزار جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے سینئیر ہیں اور باقی نو ججز اپنے سینئیر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو وکیل بنا اپنے سامنے دلائل دیتا سُن رہے ہیں تو وہ کیا سوچ رہے ہوں گے کہ اُنہوں نے اپنے سینئیر جج کی قسمت کا فیصلہ کرنا ہے اور فیصلہ بھی اُس کو سینیر جج کو بطور وکیل سُن کر کرنا ہے۔ فُل کورٹ کے دس ججز کے چہرے دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ اگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہائبرڈ ریاست کے حملے سے بچ نکلے ستمبر دو ہزار تییس میں چیف جسٹس آف پاکستان بن گئے تو اِن دس ججز میں سے آدھے آپ کی سربراہی میں کام کررہے ہوں گے اور یہ سب جانتے ہوں گے کہ اُنکا چیف جسٹس اور وہ کِس آگ کے دریا کو پار کرکے آئے ہیں بس فرق یہ ہے کہ ہم بینچ میں تھے اور چیف ہمارے سامنے انصاف کا متقاضی تھا۔
بہرحال اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فُل کورٹ کے سامنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میرے اور میرے اہلخانہ پر دو سال جھوٹے الزامات کی بمباری کی گیی لیکن یہ میری ذات کا معاملہ نہیں تھا بلکہ سُپریم کورٹ کے ایک جج اور اُس کے اہلخانہ کے ساتھ ایسا کیا جارہا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے فُل کورٹ کو دعوت دی کہ وہ اُنکی جگہ پر آکر سوچیں کہ یہ اُنکے یا اُنکے اہلخانہ کے ساتھ ہوتا تو وہ کیا سوچتے؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ وہ اپنی ذات کی نہیں بلکہ اِس ادارہ (سُپریم کورٹ) کی ساکھ کا مُقدمہ لڑ رہے ہیں کیونکہ حکومت سوچتی تھی کہ مُناسب موقع پر مُجھے اُڑا دے گی اور اِس کے لیے میری شخصیت پر داغ لگایا گیا اور میری بیوی اور بچوں پر دھوکہ دہی کہ الزامات لگائے گئے۔ یہ کہتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی آواز ڈوبنے لگی اور ہم محسوس کرسکتے تھے کہ آواز بھرانے کی وجہ شاید جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی آنکھوں میں آنے والے آنسو تھے جِس کی تصدیق جسٹس عُمر عطا بندیال کی مُداخلت سے بھی ہوئی اور انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو صبر کرنے کا اشارہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ جذباتی مت ہوں اور ہم آپ کو سُن رہے ہیں۔ جسٹس منظور ملک نے بھی اپنی نسبتاً باریک آواز میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مُخاطب کرکے کہا کہ آپ جو کہنا چاہتے ہیں کہیں ہم آپ کو سُننے کے لیے ہی بیٹھے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تھوڑا توقف کرکے دوبارہ گویا ہوئے اور کہا کہ کیا یہ قاید اعظم مُحمد علی جناح کا پاکستان ہے اور یہ اُنکے ویژن کے مُطابق چل رہا ہے؟ یہاں وفاقی دارلحکومت سے دِن دیہاڑے صحافی اغوا ہورہے ہیں، صحافیوں پر تشدد ہورہا ہے اور صحافی قتل ہورہے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہر چند سالوں کے بعد ایک ملٹری ڈکٹیٹر کو اپنی طاقت کی ہوس بُجھانی ہوتی ہے اور وہ آین اور جمہوریت پر شب خون مار دیتا ہے لیکن کوئی احتساب نہیں ہوتا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ اُنکا دِل خون کے آنسو روتا ہے انہوں نے مُلک دولخت ہوتے اور پاکستان کے نوے ہزار فوجیوں کو بھارتی دُشمن فوجیوں کے سامنے اپنے قدموں میں ہتھیار پھینکتے ہوئے دیکھا اور بعد میں حمود الرحمان کمیشن میں جو کُچھ آیا وہ پاکستانی میڈیا میں لکھنے کی اجازت نہیں تھی اور کہا گیا کہ یہ قومی سلامتی کا مسئلہ ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ فاشسٹ ریاستیں جانتی ہیں کہ ٹینک سے زیادہ طاقتور میڈیا ہے اور اِس لیے ہی میسولینی سے لے کر ہٹلر تک سب نے میڈیا کو سب سے پہلے کنٹرول کیا اور آج بھی ففتھ جنریشن وار کے نام پر میڈیا کو کنٹرول کیا جارہا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے جیسے ہم پاکستان میں نہیں گٹر میں رہ رہے ہیں اور اگر میں ذمہٰ داروں کا نام لوں گا تو نیا ریفرنس آجائے گا۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ یہ سب ایک علمی بحث ہے اور براہِ مہربانی اپنے کیس تک محدود رہیں۔ جسٹس عُمر عطا بندیال کا مزید کہنا تھا کہ صحافیوں کے ساتھ جو ہو رہا ہے ہمیں اُس پر افسوس ہے لیکن اگر کسی کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے تو اِس عدالت میں کیس لے آئے قانون اپنا راستہ بنایئے گا اور ہم اپنے اختیار کا بھرپور استعمال کریں گے۔ میں یہ سُنتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ بینچ کے بالکل سامنے کھڑے ہوکر چھوٹی سی نوٹ بُک پر دلائل نوٹ کرنے والے مطیع اللہ جان کے اغوا کا مُقدمہ سُپریم کورٹ کے چیف جسٹس گُلزار کے سامنے ہی زیرِ سماعت ہے لیکن آج تک نہ تو پولیس سی سی ٹی وی فوٹیج لے پائی ہے اور نہ ہی نادرا کے ریکارڈ سے اغوا کاروں کی شناخت کروا پائی ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسی کا مزید کہنا تھا کہ جب ٹیکنالوجی موجود ہے تو اُس سے فائدہ کیوں نہیں اُٹھایا جاتا اور اُن کے کی نظرِ ثانی اپیلوں کی براہِ راست سماعت کا حُکم کیوں نہیں دیا جاتا؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں میڈیا کو کنٹرول کیا جا چُکا ہے اور وہ ہر بات رپورٹ نہیں کرپا رہا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اِس موقع پر انگریزی اخبار دی نیوز کی کاپی نکال کر بینچ سے کو دی اور بتایا کہ یہ آج کی دی نیوز اخبار میں کل کی سماعت کی خبر چھپی ہوئی ہے جو غلط ہے کہ میری براہِ راست سماعت کی درخواست مُسترد کردی گئی ہے جبکہ مُجھے آج دلائل دینے کا کہا گیا تھا۔ فُل کورٹ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال نے خبر پڑھی اور پھر اُنکے ہاتھ سے لیے جسٹس منظور ملک نے بھی خبر پر نظر دوڑائی۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ یہ صرف ایک اخبار ہے ہوسکتا ہے دیگر اخبارات میں درست رپورٹ ہوا ہو۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جواب دیا کہ یوں مُختلف اخبارات میں دو مُختلف خبریں آنے سے لوگ کنفیوژ ہوں گے کہ کون سچ کہہ رہا اور کن جھوٹ۔ فُل کورٹ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال نے ریمارکس یے کہ آپ میڈیا رپورٹس کو خود پر اثر انداز مت ہونے دیں۔
جسٹس عُمر عطا بندیال نے عدالتی سماعت براہِ راست نشر کرنے سے مُتعلق ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کیا کیمرے آپ کے کاغذات کو فوکس کریں گے یا بینچ کے ججز کی ایک دوسرے سے سرگوشیاں بھی نشر ہورہی ہوں گی۔ جسٹس عُمر عطا بندیال کا مزید کہنا تھا کہ یہ عملی طور کرنے میں دستیاب تکنیکی وسائل کو بھی دیکھنا ہوگا اور بھی بہت سے مسائل ہیں تو یہ ایک عام فیصلہ نہیں بلکہ پالیسی فیصلہ ہوگا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جواب دیا کہ میں کبھی آپ سے ایسا اصرار نہیں کروں گا اور نہ ہی دباؤ ڈالوں گا۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ آپ بالکل اصرار کریں ہم سُننے بیٹھے ہیں۔
اِس کے بعد جسٹس عُمر عطا بندیال نے گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مُخاطب کرکے کہا کہ ایک بج چُکے ہیں آپ کو کل دوبارہ سُنتے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بینچ کا سُننے پر شُکریہ ادا کیا اور ایک بار پھر پیشکش کی کہ اگر وہ کہیں جذباتی ہوکر اپنے کیس سے ہٹ جائیں تو معزز ججز اُنکو ڈانٹ سکتے ہیں۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے پھر دہرایا کہ ہم آپ کو ڈانٹیں گے نہیں لیکن روک دیں گے۔ اِس کے بعد جسٹس عُمر عطا بندیال نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بُلا کر پوچھا کہ آپ خود دلائل دیں گے کیونکہ اِس سے قبل تو وفاقی وزیرِ قانون فروغ نسیم نے دلایل دیئے تھے؟ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ یہ میں وفاق سے ہدایت لے کر بتاوں گا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے مُداخلت کرتے ہوئے کہا کہ دس رُکنی بینچ دو دِن سے بیٹھا ہوا ہے اور آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں کہ وفاق کو ابھی تک پتہ ہی نہیں؟ یہ تو بہت عجیب بات ہے۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ یہ نظرِ ثانی اپیلیں ہیں جِن میں بہت مُختصر دلائل ہوں گے اِس لیے آپ فوری طور پر وفاق سے ہدایت لے کر بتائیں تاکہ ہم نوٹس کریں۔ فُل کورٹ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال کا مزید کہنا تھا کہ ہم نہیں چاہتے آپ کا وکیل بعد میں آکر کہے کہ میں نے تو کیس سُنا ہی نہیں اِس لیے براہِ مہربانی کل ہمیں جواب دیں۔ اِس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بینچ کو بتایا کہ سماعت کے بعد اُنکو صحافی گھیر لیتے ہیں اور پیشکش کرتے ہیں کہ وہ سماعت براہِ راست نشر کرسکتے ہیں۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے اِس موقع پر دلچسپ ریمارکس دیئے کہ ہمیں صحافی چاہیے سرمایہ دار نہیں اور اگر ہم نے براہِ راست نشر کرنے کی اجازت دی تو ہم سرکاری وسائل سے مدد لیں گے۔
سماعت ختم ہوئی تو کورٹ روم سے نکلتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ وسائل کی زیادہ ضرورت تو نہیں، پہلے سے ہی سُپریم کورٹ کی کراچی، لاہور، کوئٹہ اور پشاور رجسٹری سے وُکلا براہِ راست وڈیو لِنک پر دلائل دے رہے ہیں تو اگر صرف اِس وڈیو لِنک کو سُپریم کورٹ کی ویب سائیٹ سے لِنک کردیا جائے تو پورا مُلک براہِ راست کیس کی سماعت سُن اور دیکھ سکتا ہے۔
سماعت کل (بُدھ) گیارہ بجکر تیس منٹ تک کے لیے موخر ہوچُکی ہے۔