سانحے تو اس پاک سرزمین پر روز ہوتے ہیں مگر ایک سانحہ ،،، ایک قوم ،،، ایک آواز …. ایک مطالبہ ،،، ایک ہی نعرہ ،،، اور پھر شروع ہوا ضرب عضب، کمریں ٹوٹی حوصلے پست دہشت گرد منتشر ہوتے رہے لیکن پھر نجانے کہاں سے یاجوج ماجوج آے اور پاراچنار میں پٹاخہ پھوڑ کے نکلتے بنے ،،،، سانحہ پشاور کو ایک سال مکمل ہوا ، ہر درد مند، ہر اہل درد ، ہر اہل دل ہر زی شعور نوحہ کناں اور سوگ میں تھا ہر آنکھ اشک بار ہر دل غم زدہ تھا اور سب نے خوب یاد منائی ترانے پڑھے سیمنار منعقد کیے
ہم نے اس ایک سال میں کیا کھویا اور کیا پایا ؟ اگر کچھ پایا تو پھر اسکے باوجود شہریوں کی بم دھماکوں میں جانیں کیوں گئی چاہے جیکب آباد ہو شکار پور ہو یا پاراچنار ہو یا بوہری کمیونٹی دہشتگردی کا نشانہ بنتے رہے ہیں .
کمی کہاں ہے کوتاہی کدھر ہے ؟ یہ تو ایک مائنڈ سیٹ کے خلاف جنگ ہے جو نفرت عدم برداشت اور تشدد کے اصولوں پر کھڑا ہے ، جو اسکے نظریہ سے اختلاف کرنے والے ہر شخص کو واجب القتل سمجھتا ہے ،
سوال یہ ہے کہ کیا صرف آپریشن کر کے اور چند جرائم پیشہ افراد کو ادھر ادھر بھگا کر ہم سرخرو ہوگئے ؟؟؟؟
دشمن کے بچے تو پہلے سے ہی پڑھے پڑھائے آئے ہیں سانحہ صفورا کے ملزمان اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور اب تو تحقیقات میں بات بھی سامنے آئی ھے کہ صفورا کا ماسٹر مائنڈ ایک یونیورسٹی کا اعلیٰ عہدیدار تھا.
انکے بچوں کو گانے پڑھانے کے بجائے اگر صحیح معنوں تمام ملک کے طول و عرض میں شدت پسند عناصر اور خاص طور پر انکے سہولت کاروں پہ ھاتھ ڈالا جائے تو میرا خیال ھے کہ حالات میں بہت بہتری آسکتی ھے.
المیہ یہ ھے کہ کوئی بھی شخص آئین پاکستان کو چیلنج کرتا ھے تو یہاں اسے پھولوں کے ہار پہنا دیے جاتے ہیں. اگر ریاست یکسوئی کے ساتھ فیصلہ کر لے اور نیت بھی صاف ھو تو شائد ہمیں مستقبل میں نونہالوں کے خون کی ضرورت نہ پڑے. اور ہم دشمن کے بچوں کو پڑھانے کے بجائے اپنے معاشرے کی ترقی اور اپنے بچوں کے مستقبل کو روشن کرنے میں کردار ادا کر سکیں.