عہد قدیم سے لیکر موجودہ زمانے تک دنیامیں معاشی ترقی کا انحصارتجارت پر رہا ہے اور تجارتی نقل و حمل کیلئے شاہراہوں کی اہمیت ہر دور میں مصمم رہی ہے۔دنیا میں جس قوم اور ملک نے ترقی کی دوڑمیں دیگر قوموں کو پیچھا چھوڑ دیا،وہ انکی معاشی ترقی کے مرہون منت تھا اور اس امر سے بھی اختلاف ممکن نہیں کہ ان قوموں کی آپس کی جنگوں کی اصل وجہ معاشی بالادستی اور تجارتی سرگرمیوں پر اجارہ داری شامل تھی۔
برصغیر میں اسلام کی آمد مسلمان تاجروں کے ذریعے ہوئے اور مسلمانوں نے بعد ازاں بر صغیر پر تقریباً ایک ہزار سال تک حکومت کی، لیکن جب مسلمان حکمران تجارت کے فروغ کیلئے بحری اور بری راستے تلاش کر نے کے بجائے آپس کی خانہ جنگوں میں مصروف ہوئے تو ان کی حکومت کا خاتمہ بھی تجارتی بھیس میں برصغیر میں وارد ہونے والے انگریزوں کے ہاتھوں ہوا۔انگریزو ں کے علاوہ پرتگیزی اور فرانسیسی تاجر برصغیر کے ساحلوں علاقوں تک پہنچ گئے تھے لیکن انگریزوں نے اپنی معاشی بالادستی کے بدولت انہیں ہندوستان میں پاؤں جمانے کے مواقع نہ دئے۔
یورپی مہم جوؤں کی کھوج سے بحری اور بری راستوں کے ذریعے دنیا بھر میں نئی تجارتی منڈیوں تک رسائی ممکن ہوئی اوریورپی طاقتوں نے امریکہ دریافت کر نے کے علاوہ ایشیا اور افریقہ کے ممالک کو بھی زیر نگیں کر لیا۔انہی ممالک کے قدرتی وسائل سے فائدے سمیٹتے ہوئے یورپ میں ترقی و خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا اور انہوں نے معاشی بالا دستی کے سبب سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں اپنا لوہا منوا لیا اور اپنے عوام کے معیار زندگی کو بدلنے کیلئے اہم کردار ادا کیا۔
زمانہ قدیم میں چین کو ایشائے کوچک اور بحیرہ روم کے ممالک سے ملانے والی گذر گاہ شاہراہ ریشم کہلاتی تھی جو موجودہ زمانے میں سکڑ کر پاکستان اور چین کے درمیان زمینی گذر گاہ کیلئے استعمال ہوتی ہے۔یہ قدیم سڑک چین ،وسط ایشیائی ممالک ، برصغیرپاک و ہند، فارس (ایران) اور روم کی قدیم تہذیبوں کی ترقی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی تھی۔ ان ممالک اور ان سے ملحقہ علاقوں کی معیشت اور تجارت کا دارومدار تاریخی شاہراہ ریشم پر تھا اور اسی شاہراہ سے تجارت کے علاوہ ثقافت اورنظریات کو بھی فروغ کا موقع ملا ۔
چینی شہر کاشغر سے اس کی دو شاخیں پھوٹتیں تھیں۔ایک وسطی ایشیا سے ہوتی ہوئی ایران اور ترکی سے یورپ کی طرف نکلتی اور دوسری سڑک دنیا کے عظیم پہاڑی سلسلوں قراقرم اور ہمالیہ کو عبور کرتی ہوئی ہندوستان میں داخل ہو تی تھی جسے اب شاہراہ قراقرم بھی کہا جاتا ہے اور یہ پاکستان کو چین سے ملانے کا واحدزمینی ذریعہ ہے۔
تاریخی شاہراہ ریشم کی بحالی کیلئے پچھلے چند سالوں سے عالمی سطح پر اقدامات کیلئے کوششیں کی جاری ہیں اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 2011 کے اجلاس میں 25 ممالک نے قدیم تجارتی راستے شاہراہ ریشم کو بحالی کیلئے فوری اقدامات پر زور دیا تاکہ ایک بار پھر مشرق و مغرب کے مابین تجارتی و ثقافتی روابط کا احیاء کیا جا سکے اور وہ خاندان جو وسط ایشیا ء پر روسی قبضے، افغان خانہ جنگی ، تقسیم ہند اور چین ، بھارت اور پاکستان کے مابین مختلف جنگوں اور تقسیم کے بعد بچھڑ گئے تھے انہیں ایک بار پھر سے ملا دیا جائے۔
عالمی برادری جنوبی ایشیا میں امن اور ترقی کیلئے سرحدیں نرم کر نے اور تجارتی رابطے بڑھانے پر زور دیتی ہے ۔ مسئلہ کشمیر اور دیگر تصفیہ طلب معامالات حل کر نے کیلئے پاک بھارت مذاکرات اور روایتی شاہراہ ریشم کی بحالی ، سرحدوں کو نرم کرنے اور عوام کے مابین میل جول بڑھانے سے نہ صرف تصادم اور کشیدگی کم ہوسکتی ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں تعمیر و ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز بھی ہو سکتا ہے۔ چین بھارت ،پاکستان، اور افغانستان کے مابین تعلقات کے فروغ اور سیکیورٹی کے مسائل کے حل سے نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ وسطی ایشیا کے ساتھ بھی مربوط معاشی رابطے استوار کئے جا سکتے ہیں اور قدرتی وسائل سے مالا مال یہ خطہ ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو سکتا ہے۔ ایشیا اور یورپ میں اقتصادی تعاون کے فروغ کیلئے تاریخی شاہراہ ریشم کی بحالی ماہرین کے مطابق نئے دور کی اہم پیشرفت ثابت ہوگی جس سے نہ صرف تہذیبوں کا تصادم روکا جا سکے گا بلکہ آزادانہ نقل و حمل اور تجارتی تعلقات سے اقتصادی کساد بازاری کا خاتمہ بھی ممکن ہو سکے گا۔
گلگت بلتستان جہاں اپنی منفرد جغرافیائی اور دفاعی اہمیت کی وجہ سے جنوبی اور وسطی ایشیا میں ہمیشہ اہمیت کا حامل رہا ہے،وہاں شاہراہ قراقرم اور دیگر تجارتی راستوں کی بدولت اس خطے کو اہم تجارتی گزر گاہ کی حیثیت رہی ہے۔آج کے دور میں اس گذر گاہ کی ہمیت مزید بڑھ چکی ہے۔چین عرب،یورپ اور افریقہ تک معاشی سر گر میوں کے فروغ کیلئے شاہراہ قراقرم کے ذریعے گرم پانیوں تک ر سائی چاہتا ہے۔ اس طرح پاکستان کی طرف سے تجارتی راہداری کی فراہمی سے نہ صرف چین بلکہ پاکستان سمیت دنیا کے کئی ملکوں کی تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ ہوجائے گا۔ اس طرح وسطی ایشیا کے ممالک بھی گوادر پورٹ سے مستفید ہوکر اپنی تجارت کو بڑھاسکتے ہیں اور یوں دنیا میں اقتصادی سر گرمیوں کے فروغ سے سے امریکہ اور یورپ بھی مستفید ہونگے۔ شاہراہ ریشم کی بحالی سے ایشیا اور یورپ کے مابین تجارتی حجم میں 80 فیصد کا اضافہ ہو گا اور اخراجات میں بھی کافی بچت ہوگی۔
وزیراعظم میاں نواز شریف کی طرف سے پاک چین راہداری منصوبے کی منظوری کے بعد خنجراب سے گوادر تک وسیع شاہراہ اور جدید ریلوے نظام سے گلگت بلتستان سمیت اس شاہراہ کے اطراف میں واقع شہروں اور قصبوں میں تجارتی و صنعتی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گا جس سے پاکستان کی سسکتی ہوئی معشیت کو ایک نئی زندگی ملے گی۔وسطی ایشیائی ممالک جن کے ساتھ گلگت بلتستان کے صدیوں پر محیط تجارتی و ثفافتی رابطے موجود ہیں ، اب جدید سفری سہولتوں اور ذرائع آمد و رفت سے مزید مضبوط ہوں گے اور گلگت بلتستان تجارتی سر گر میوں کا مرکز بن سکتا ہے۔
تاریخی شاہرہ ریشم کی بحالی اور پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کی تکمیل کی صورت میں گلگت بلتستان میں ترقی و خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے لیکن ضرورت اس امرکی ہے کہ شاہراہ ریشم کو وسعت دینے اور چین تک ریلوے کی پٹڑی بچھانے کے علاوہ گلگت بلتستان سے تاجکستان کی جانب بھی شاہراہ کی تعمیر کیلئے اقدامات کئے جائیں۔
گلگت بلتستان کو وسطی ایشائی ممالک سے صرف افغان واخان کی تنگ پٹی ہی جدا کرتی ہے لہذا اس شاہراہ کی تعمیر سے نہ صرف پاکستانی مصنوعات کو ووسطی ایشائی ممالک تک رسائل حاصل ہو جائیگی بلکہ پاکستان قدرتی وسائل سے لیس ان ممالک سے تیل و گیس کی ترسیل کے منصوبے پر بھی عملدر آمد کر سکتا ہے اور اس شاہراہ کو پاک چین اقتصادی راہدارے سے ملانے سے وسطی ایشائی ممالک کا گوادر پورٹ کے ساتھ رابطہ انکی ترقی کا پیش خیمہ بھی ہو سکتا ہے۔وسطی ایشیا کی ان ریاستوں کے لیے سمندر تک جانے کا مختصر ترین راستہ پاکستان میں سے ہو کر گزرتا ہے۔
گلگت بلتستان کے تاجکستان سمیت وسط ایشائی ممالک سے تاریخی اور ثقافتی وتہذیبی تعلقات موجود ہیں اور ان کو ملانے کیلئے مربوط نظام کے قیام سے نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ پاکستان کی اقتصادی صورتحال کی بحالی ممکن ہو سکے گی۔ وزیر اعظم میاں نواش شریف نے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی سیاسی و علاقائی جماعتوں کے دباؤ پر پاک چین اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ کو پہلے تعمیر کر نے کیلئے فنڈز مختص کر نے کی ہدایت جاری کر دی ہے جبکہ گلگت بلتستان کی پارلیمنٹ میں نمائندگی نہ ہو نے کی وجہ سے نہ صرف شاہراہ قراقرم کی مرمت کا منصوبہ التوا کا شکار ہے بلکہ گلگت سکردو روڑ کی تعمیر شروع نہ ہو نے سے گلگت بلتستان میں مسلم لیگ ن کی صوبائی حکومت شدید تنقید کی زد میں ہے۔
اگرچہ میاں نواز شریف اور دیگر سیاسی رہنما پاک چین اقتصادی راہداری کو گلگت بلتستان کے مستقبل کے حوالے سے گیم چینجر قرار دے رہے ہیں مگر معروضی حقائق یہ ہیں کہ اس منصوبے کے حوالے سے اعلیٰ سطحی کمیٹیوں میں گلگت بلتستان کو نمائندگی سے محروم رکھا گیا ہے اور خطے میں معاشی زونز کی تعمیر کے حوالے سے حکومت نے ابھی تک کسی منصوبے کا اعلان نہیں کیا ہے۔
پاک چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے چین نے حکومت پاکستان پر گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت واضح کر نے اور اس خطے کو مرکزی دھارے میں شامل کر نے پر زور دیا ہے جس کے بعد وزیر اعظم میاں نواز شریف نے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی سر براہی میں ایک کمیٹی قائم کی ہے جو گلگت بلتستان کو پارلیمنٹ میں نمائندگی دلانے کیلئے آئینی تجاویز کا جائزہ لے رہی ہے۔گلگت بلتستان کے عوام اس حوالے سے پر امید ہیں کہ اس منصوبے کی بدولت ان کی شناخت اورآئینی حیثیت کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔
گلگت بلتستان اپنی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر پانچ ملکوں سے بارہ سے زائد مقامات سے زمینی رابطے استوار کر کے تجارتی سر گرمیاں شروع کرنے کا حامل خطہ قرار دیا جا سکتا ہے لیکن بھارت کی جانب تجارتی اور تاریخی راستوں کی بحالی میں مسئلہ کشمیر رکاوٹ ہے۔
اب جب کہ نئے تناظر میں مسئلہ کشمیر کا حل جنگ سے ممکن نہ رہا اور ماہرین مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے سرحدیں نرم کر نے اور شاہراہ ریشم کی بحالی کوا ہم قرار دے رہے ہیں تو ضرورت اس امر کی ہے کہ گلگت بلتستان کے تاریخی اور تجارتی راستوں کی بحالی میں حائل رکاوٹیں اٹھا ئی جائیں تاکہ عوام کا معیار زندگی بھی بلند ہو اور وہ ان عظیم پہاڑی سلسلوں میں مقید رہنے کے بجائے تجارت اور سرمایہ کاری کے نئے مواقع سے فائدہ اٹھا سکیں۔
گلگت بلتستان کو بفر زون قرار دیکر عالمی ڈرائی پورٹ بنانے کی تجاویز بھی سامنے آرہی ہیں اورپاکستان اور بھارت کے مابین اس حوالے سے اعتماد سازی کی فضا قائم ہونے سے نہ صرف جموں و کشمیر اور گلگت و بلتستان کے عوام کی محرومیوں کم ہو سکتی ہیں بلکہ پاکستان اور بھارت کے مابین امن اور باہمی شراکت سے برصغیر کے اربوں انسانوں کی معاشی حالت بہتر ہو سکتی ہے۔
پاکستان ور بھارت کے درمیان فضائی رابطوں کے علاوہ سمجھوتا ایکسپریس، تھر ایکسپریس اور جموں و کشمیر کے مابین بس سروس کا آغاز کر دیا گیا ہے اور بھارت کو تجارت کیلئے موسٹ فیورٹ نیشن کا درجہ ملنے کے بعد تجارت اور سرمایہ کاری کے مواقع مزید بڑھنے کے امکانات موجود ہیں لیکن بدقسمتی سے ان راستوں کی بحالی میں گلگت بلتستان کو کلی طور پر نظرانداز کیا گیا ہے۔
آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے منقسم خاندانوں کو ملانے کیلئے بس سروس کے علاوہ ویزے پر پابندی بھی نرم کر دی گئی ہے مگر اس کا اطلاق گلگت بلتستان اور لداخ سمیت وادی گریز کے بدقسمت خاندانوں پر نہ ہو سکا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف یہ منقسم خاندان اپنے عزیز رشتہ داروں سے ملنے سے محروم رہ گئے ہیں بلکہ تاریخی وو تجارتی راستوں کی بندش سے گلگت بلتستان اقتصادی کساد بازاری کا شکار ہے ۔ گلگت بلتستان میں تجارت اور سیاحت کے فروغ کیلئے مسئلہ کشمیر کو فریز کر تے ہوئے سرحدیں نرم کرنے اور تجارتی مواقع بڑھانے کی ضورت ہے تا کہ اعتماد سازی کی فضا قائم ہو سکے۔
مقبوضہ کشمیر اور گلگت بلتستان کے درمیاں جہاں کافی قدیم راستے ہیں، وہیں دو بڑے راستے سکردو کرگل روڈ اور استور سری نگر روڈ بھی ہیں،یہ وہ راستے ہیں جو ماضی میں نقل و حمل اور آمد ورفت کے مصروف راستے تھے لیکن تقسیم ہند کے بعد جہاں گلگت بلتستان کے عوام کے مستقبل پر مسئلہ کشمیر کا قفل لگایا گیا،وہاں ان راستوں کی بندش سے ترقی کی راہیں مسدود ہو کر رہ گئی ہیں ، ضلع استور کبھی گلگت بلتستان کا سب سے ترقی یافتہ علاقہ گردانا جاتا تھا مگر سرحدی بندش کے سبب گلگت بلتستان کاپسماندہ ترین ضلع سمجھا جاتا ہے۔
شاہراہ قراقرم کو وسعت دینے کیلئے خنجراب سے رائیکوٹ تک تو سیعی منصوبہ مکمل کر لیا گیا ہے مگر رائیکوٹ سے تھاکوٹ تک شاہراہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو نے سے آمد ورفت کیلئے ناقابل استعمال ہو چکی ہے لہذا اس شاہراہ کی ضروری مرمت اور مزید وسعت کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات نا گزیر ہیں۔علاوہ ازیں بابوسر ٹاپ میں ٹنل کی تعمیر سے سفر کا دورانیہ مزید کم ہو سکتا ہے اور نئے منصو بے کے مطابق گڑھی حبیب اللہ سے ہری پور تک متبادل شاہراہ کے منصوبے کو عملی جامع پہنایا جائے تو سونے پر سہاگا کے مترادف ہوگا۔
ضلع استور سے آزاد کشمیر تک زمینی رابطے کیلئے شونٹر نیلم روڈ کی تکمیل بھی گلگت سے راولپنڈی کیلئے متبادل شاہراہ کے علاوہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے مابین معاشی و سیاحتی سر گرمیوں کیلئے بھی اہم کر دار ادا کر سکتی ہے۔ ضلع غذر سے چترال تک روڈ کو بھی مزید مرمت اوروسعت دینے کی ضرورت ہے تا کہ چترال کے عوام کو لواری ٹنل کی بندش کی صورت میں متبادل شاہراہ میسر ہو اور ان دونوں خطوں کے مابین تاریخی اور تہذیبی رشتے مزید استوار ہوں۔
گلگت بلتستان کے تاریخی و تجارتی راستوں کی بندش کے علاوہ بین الاضلاعی سڑکیں بھی بارشوں اور سیلاب سے آمد ورفت کیلئے ناقابل استعمال ہو چکی ہیں۔ جگلوٹ سکردو روڈ کی تعمیر صوبائی حکومت کی یقین دہانیوں کے باوجود ابھی تک شروع نہ ہو سکی ہے اور دیگر اضلاع تک بھی سڑکوں کی از سر نو تعمیر سے تجارت و سیاحت کے شعبوں میں مزید بہتری لائی جا سکتی ہے جس سے گلگت بلتستان میں معاشی سر گرمیوں کو فروغ حا صل ہوگا۔