پاکستان میں گڈگورننس کے پرستار ونگہبان اینکر خواتین وحضرات اور ان کے ’’ذرائع‘‘ کی مہربانیوں سے پوری قوم کی توجہ ان دنوں کراچی پر مرکوز ہے۔
آئین اور قانون کے تحت طے شدہ ضوابط کے مطابق شہر قائد ہمارے صوبہ سندھ کا دارلخلافہ بھی ہے۔ صوبے دار وہاں کے قائم علی شاہ ہیں۔ 2008ء سے اپنے عہدے پر برقرار رہتے ہوئے ایک حوالے سے تاریخ بھی بناچکے ہیں۔ پاکستان کے اقتصادی مرکز میں لیکن امن ہرگز قائم نہ کرپائے۔
سینیٹرمشاہد اللہ خان نے ’’حالتِ بھنگ‘‘ کو ان کی ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ مبینہ طورپر منتخب حکومتیں جب ’’حالتِ بھنگ‘‘ میں مبتلا ہوکر اپنی ذمہ داری نہ نبھا پائیں تو کسی اور ادارے کو شہریوں کے حقوق کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ رینجرز کو اسی وجہ سے کراچی میں امن وامان کو یقینی بنانے کے لئے مقامی پولیس کا شراکت دار بنایا گیا۔ یہ شراکت داری 1989ء سے شروع ہوئی تھی۔ اپنے اہداف پوری طرح حاصل نہ کرپائی تو وجہ اس کی مکمل اختیار کی عدم موجودگی تھی۔
تحفظِ پاکستان والے قانون کی منظوری کے بعد یہ مسئلہ حل ہوتا نظر آیا تو ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری نے چند نئے مسائل کھڑے کردئیے۔ قائم علی شاہ اور ان کی اسمبلی کو بھی اس گرفتاری کے بعد اپنے اختیارات یاد آگئے۔
گڈگورننس کے پرستار ونگہبان اینکر خواتین وحضرات اور ان کے ’’ذرائع‘‘ کی مہربانیوں کی بدولت مچائے شور کی وجہ سے مگر اب ’’حالتِ بھنگ‘‘ والوں کا کیس کمزور ہوچکا ہے۔ سوپیاز کو سو جوتوں کے ساتھ وصول کرتے ہوئے ہر صورت میں ’’اسی تنخواہ‘‘ پر گزارہ کریں گے اور کراچی میں امن وامان انشاء اللہ ایک دن مکمل طورپر بحال ہوکررہے گا۔ کریڈٹ اس کا مگر ان افراد کو ہرگز نہ مل پائے گا جو عوام سے ملے ووٹوں کی بنیاد پر خود کو ان کا حقیقی ترجمان بنائے بیٹھے ہیں۔
کراچی پر ہماری تمام تر توجہ مرکوز ہونے کی وجہ سے پاکستان کے دیگر شہروں میں رہنے والوں کو اندازہ ہی نہیں ہورہا کہ اسلام آباد میں رہنے والوں کے لئے گزشتہ دو ہفتوںکے دوران ہر جمعتہ المبارک کی دوپہر کتنی عجیب ہوجاتی ہے۔ بغیر کسی پیشگی اعلان کے 12بجے کے قریب آپ کے موبائل فون اس دن بند کردئیے جاتے ہیں۔ پریشان ہوکر آپ اس بندش کی وجہ ڈھونڈنے نکلیں تو دریافت ہوتا ہے کہ ایک مولانا عزیز ہوتے ہیں جو اپنے والد سے ورثے میں ملنے والی مگر ریاستی سرمایے سے تعمیر شدہ لال مسجد کے منبر پر بیٹھ کر جمعتہ المبارک کا خطبہ دینا چاہتے ہیں۔
نواز شریف کی ’’لبرل حکومت‘‘ اس خطبے کے ممکنہ اثرات سے لرز جاتی ہے۔ مولانا کو مسجد تک آنے نہیں دیا جاتا۔ ان کی منت سماجت کے لئے جو وقت درکار ہوتا ہے اس دوران اسلام آباد کے موبائل فون اس خدشے کے تحت بند کردئیے جاتے ہیں کہ مذہب کے نام پر دہشت گردی پھیلانے والے کوئی تخریبی کارروائی نہ کرپائیں۔ نماز کے اوقات ختم ہوجانے کے بعد موبائل فون بحال کردئیے جاتے ہیں۔
اس دوران چودھری نثار علی خان قوم کو یہ اطلاع بھی دے ڈالتے ہیں کہ مولانا عبدالعزیز کے خلاف کوئی باقاعدہ ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔ وہ پاکستان کے آزاد شہری ہیں۔ اس حیثیت میں یقینا ان کے کچھ حقوق بھی ہیں۔ منبر پر بیٹھ کر خطبہ دینا شاید ان حقوق میں شامل نہیں۔ قانون کی مکمل اطاعت کرتی وزارتِ داخلہ کو لہذا پاکستان کے دارالحکومت میں امن وسکون برقرار رکھنے کا کوئی اور طریقہ نہ سوجھے تو موبائل فون بند کرکے ڈنگ ٹپالیا جاتا ہے۔
[pullquote]مولانا عزیز کے خلاف دہشت گردی وغیرہ کے حوالے سے کوئی ایف آئی آر درج ہونہ ہو ، اسلام آباد کے تمام شہریوں کو ان کے ممکنہ ’’سہولت کار‘‘ گردانتے ہوئے موبائل فونز کی بندش والی اجتماعی سزا پر عمل درآمد ضرور ہوجاتا ہے اور گڈگورننس کے پرستار ونگہبان اینکرخواتین وحضرات اس کا نوٹس تک نہیں لیتے۔
[/pullquote]
کراچی پر ہماری تمام تر توجہ مرکوز ہونے کی وجہ سے جمعتہ المبارک کی دوپہر اسلام آباد میں موبائل فونز کی بندش وہ واحد واقعہ نہیں جس کا نوٹس نہیں لیا جاتا۔ ہمارا ایک برادر اسلامی ملک ہوتا ہے، سعودی عرب۔ گزشتہ ہفتے کے آغاز کے ساتھ ہی اس نے بہت فخر اور اعتماد کے ساتھ اعلان کیا کہ 34اسلامی ملکوں کی مدد سے اب اس نے ایک اتحاد بنالیا ہے۔
کی War on Terrorکے لئے بنائی جانے والی Coalitionکی طرز پر قائم ہوا یہ اتحاد یمن، افغانستان، عراق، مصر اور لیبیا جیسے ملکوں میں داعش کی طرف سے پھیلائی دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کارروائیوں کا آغاز کرے گا۔ فوجی آپریشنز بھی ان کارروائیوں کا حصہ بتائے گئے ہیں۔
برادر اسلامی ملک نے جب اس اتحاد کا اعلان کیا تو چند پاکستانی صحافیوں نے اس کی تفصیلات جاننے کے لئے وزارتِ خارجہ کے سیکرٹری سے رابطہ کیا۔ ہمارے انتہائی تجربہ کار اور Career Diplomatنے اس اتحاد کے قیام اور اس میں پاکستان کی شمولیت کے معاملے پر حیرت کا اظہار کیا۔ ساتھ میں لیکن یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ سعودی عرب میں مقیم پاکستان کے سفیر سے اس ضمن میں تفصیلات ’’طلب‘‘ کریں گے۔
اصولی طور پر پاکستان کا کسی بھی ملک میں متعین سفیر، وزارتِ خارجہ کو اپنے ہر پل کی مصروفیت کے بارے میں تمام تر تفصیلات بیان کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ ایک چیز ہوتی ہے Cyber۔یہ ایک قسم کا برقی پیغام ہے جس کے ذریعے حساس ترین معاملات کی اطلاع بھی ہیڈ کوارٹر تک پہنچائی جاتی ہے۔ چونکہ پاکستان میں بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ اب روزمرہّ کا حصہ شمار ہوتی ہے تو شاید وزارتِ خارجہ میں بھی Cyber Load Sheddingنام کی کوئی شے متعارف ہوچکی ہوگی جس کی وجہ سے سیکرٹری وزارتِ خارجہ ایک اہم ترین خبر کے بارے میں بے خبررہے۔
بدھ کی شام مگر ان کی ’’بے خبر‘‘ وزارتِ خارجہ کے دفتر سے ایک بیان جاری ہوا جس میں سعودی عرب کی جانب سے آئی 34ملکوں کے اتحاد کی اطلاع کا خیر مقدم کیا گیا۔ خیر مقدمی کے جذبات کے ساتھ بتایا ہمیں یہ بھی گیا کہ وزارتِ خارجہ اب یہ جاننے کی کوشش کررہی ہے کہ پاکستان کو اس اتحاد میں ٹھوس حوالوں سے کردار کس انداز میں ادا کرنا ہوگا۔
گڈگورننس کے پرستار ونگہبان اینکر خواتین وحضرات نے اپنے سیکرٹری خارجہ کی اس اہم معاملے میں بے خبری کا بھی کوئی جاندار نوٹس نہیں لیا۔ ہم دو ٹکے کے صحافیوں کی اس ضمن میں اپنی مجبوریاں رہی ہوں گی۔ پاکستان میں لیکن سنا ہے کہ ایک منتخب پارلیمان بھی ہوتی ہے۔ اس پارلیمان کو پاکستان کا سب سے بالاتر ادارہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس بالاتر ادارے میں ہوتی ہیں ’’سٹینڈنگ کمیٹیاں‘‘۔ ان کمیٹیوں کا مقصد ہوتا ہے تمام وزارتوں پر نگاہ رکھنا۔
خارجہ امور کے بارے میں بھی ہماری قومی اسمبلی کی ایک سٹینڈنگ کمیٹی ہے۔ اس کمیٹی میں عمران خان کے نمائندے بھی ہیں اور پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے چند اراکین بھی۔ وہ سب مل کر اس کمیٹی کا فوری اجلاس طلب کرکے سعودی عرب کی جانب سے بنائے جانے والے اتحاد اور اس میں پاکستان کی شمولیت اور ممکنہ کردار کے بارے میں مناسب سوالات اٹھاکر ہماری رہ نمائی فرماسکتے تھے۔ کسی نے مگر تردد ہی نہ کیا۔ ’’اسی تنخواہ‘‘ پر گزارہ کرتے ہوئے پاکستان میں جمہوری نظام کی مکمل اور بھرپور بالادستی کا سوانگ رچانے ہی میں مصروف رہے۔
مشاہد اللہ خان کو اعتراف کرلینا چاہیے کہ قائم علی شاہ کی حکومت ہی نہیں وہ اور ان جیسے، عوام کے نام نہاد منتخب نمائندے بھی بلااستثنا اجتماعی طورپر ’’حالتِ بھنگ‘‘ میں ہیں اور جب منتخب ادارے ’’حالتِ بھنگ‘‘ میں مبتلا ہوجائیں تو ریاستی فرائض سرانجام دینے والے فرائض اور اختیارات کہیں اور چلے جایا کرتے ہیں۔
بشکریہ نوائے وقت