ایڈیٹر نوٹ
شاکر ظہیر صاحب ، علمی اور ادبی ذوق کے مالک ایک کاروباری شخصیت ہیں . انہوں نے اپنی زندگی کے 14 برس چین میں گذارے . اس دوران انہوں نے چینی معاشرے ، نظام حکومت ، ثقافت سمیت پوری تہذیب کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا ہے . اس سیریز میں انہوں نے اپنے تجربات اور مشاہدات لکھے ہیں . ان کے مضامین روزانہ صبح گیارہ بجے (پاکستانی وقت کے مطابق ) آئی بی سی اردو پر شائع ہوں گے . آپ کمنٹ باکس میں ان سے سوال بھی کر سکتے ہیں اور اپنا فیڈ بیک بھی دے سکتے ہیں .
سبوخ سید : ایڈیٹر آئی بی سی اردو ڈاٹ کوم
شادی کے ایک سال بعد اللہ نے ہم پر کرم کیا اور ایک پیاری سی بیٹی سے نوازا ۔ ابھی ہم ایوو کے زچہ بچہ ہسپتال میں ہی تھے کہ میرے کچھ دوست اور میری بیگم کی سہیلیاں ایک ایک کر کے ہمیں مبارک باد دینے آنا شروع ہو گئے ۔ سب سے پہلے جس کی آمد ہوئی وہ میمونہ ہی تھی اور اپنے ساتھ میری بیگم کےلیے چائنیز مشروم سوپ بھی لے کر آئی اور کافی دیر تک بیٹھی رہی ۔ میری بیگم اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئی ۔ میمونہ نے بچی کو گود میں اٹھا کر غور سے دیکھا اور فتویٰ صادر فرمایا کہ چائنیز کم اور پاکستانی زیادہ لگتی ہے ۔
اس کے بعد jaXing کی خدیجہ آئی ، اس کے ہنسنے کا انداز بالکل مردوں جیسا تھا ۔ اس نے بھی بچی کو گود میں اٹھایا اور یہی فتویٰ صادر کیا کہ چائنیز کم اور پاکستانی زیادہ لگتی ہے اور ساتھ نام بھی رکھ دیا ” حنا ” ۔ ایک دن بعد عید قربان تھی ۔ میں نے قریبی مسجد میں عید کی نماز پڑھی اور دو دنبے ذبح کیے ۔ ایک گھر کی اور ایک بچی کی قربانی کی ۔ واپس ہسپتال آیا تو بیگم کے استفسار پر قربانی کی پوری تفصیل بتانی پڑی۔ اپنی قربانی کا دنبہ کیسا تھا اور بیٹی کےلیے کیسا اور گوشت کس کس کو دیا ، یہ وضاحت بھی کرنی پڑی کہ بیٹی کی پیدائش کی خوشی میں خدا کی شکر گزاری کےلیے دنبہ قربان کیا جاتا ہے ۔ ہسپتال میں موجود دیگر چائنیز بھی یہ مکس بلڈ بچی دیکھنے آتے رہے ۔
میمونہ تیسرے دن پھر ہسپتال آئی لیکن اس بار وہ اکیلی نہیں تھی بلکہ اس کے ساتھ کچھ اور لڑکیاں بھی تھیں ۔ جن میں ایک Helongjaing کی Ying Ying نومسلم تھی ، اس کا انداز عورتوں سے کچھ مختلف تھا، مردوں کے ساتھ مرد اور عورتوں کے ساتھ عورت جیسا ۔ پہلی بار ہم سے ملنے کی وجہ سے وہ بہت ہچکچا رہی تھی ۔ بعد ازاں وہ اکثر ہمارے گھر آتی رہتی اور ہم سے بہت گھل مل گئی جیسے ہما رے ہی گھر کا ایک فرد ہو ۔ اگر وہ دو تین دن نہ آتی تو میری بیگم اسے فون کر کے کھانے پر بلا لیتی ۔ ہماری بچی بھی اس سے بہت مانوس ہو گئی ۔ سات دن بعد ہم ہسپتال سے گھر آ گئے ، گھر آ کر ہم نے کچھ دنوں کے کام کے لیے ایک ایغور مسلمان خاتون رکھ لی ۔ وہ دن کو میری بیگم کے پاس رہتی ، کھانا وغیرہ پکاتی اور شام کو جب میں واپس آتا تو وہ چلی جاتی تھی ۔
دو ماہ بعد ہم لوگ Gansu صوبے کی طرف روانہ ہوئے ۔ وہاں بیگم کا گاؤں تھا اور ہم نے بچی کی رجسٹریشن کروانی تھی ، بس میں چوبیس گھنٹے کے سفر کے بعد ہم موٹر وے پر اترے ، ٹیکسی پکڑی اور دس منٹ میں ping Liang شہر بس سٹاپ پہنچ گئے ۔ یہاں سے ہم ایک اور بس پر سوار ہوئے اور اڑھائی گھنٹے میں Jing Ning قصبے میں پہنچ گئے ۔ وہاں سے پھر بس پکڑی اور ایک گھنٹے میں سسرالی گاؤں پہنچ گئے ۔ میری ساس اور سسر سڑک پر ہمارا انتظار کر رہے تھے ۔ رات ہو گئی تھی اس لیے سیدھا گھر گئے ۔ گھر مٹی کا بنا تھا جس کے ایک حصے میں بھیڑیں بندھی ہوئی تھیں ۔
کچا صحن تھا جس کے ایک طرف دو کمرے ، ایک کچن اور سامنے ایک بڑا کمرہ تھا ۔ کمرے میں اینٹوں کا بیڈ بنا ہوا تھا جس کے نیچے ایک سوراخ تھا جس میں آگ جلائی جاتی تھی ، تاکہ سردی سے بچا جا سکے ، کیونکہ اس علاقے میں بہت شدید سردی پڑتی ہے ۔ کمرے میں بالکل سامنے ایک چھوٹی سی سیمنٹ کی شلف بنی ہوئی تھی دونوں کونے پر اگربتی جلنے اور رکھنے کےلیے برتن اور سامنے دیوار پر بدھا کی تصاویر ۔
یہ اگربتی شاید انٹرنیشل ٹریڈ مارک ہے تصوف کی چاہے وہ مسلمانوں میں ہو یا بدھسٹ میں ۔
صبح اٹھ کر گرم پانی سے منہ ہاتھ دھویا اور آلو اور بند گوبھی سے بنے نوڈلز سے ناشتہ کیا اور قہوہ پیا ۔ گھر کو مزید کھوجنے سے پتہ چلا کہ گھر کی پچھلی طرف ایک کوٹھڑی میں سور بھی موجود ہے جسے نیو ائیر پر بیج دیا جاتا ہے ۔ گھر میں بچا کھانا ، خراب ہوئی سبزی سب اس کو ڈال دی جاتی ہے ۔
اس کے بعد میں اپنے سسر کے ساتھ گاؤں دیکھنے نکلا ۔ یہ مٹی کی پہاڑیوں کا علاقہ تھا اور پہاڑیوں کو تھوڑا تھوڑا کاٹ کر کاشت کے لیے زمین ہموار کی گئی تھی ۔ اس علاقے کے لوگ بہت محنتی ہیں ۔ سیب اس علاقے کا بہت مشہور ، بہت ذائقے والا اور خوبصورت پھل ہے ۔ ایک ایک سیب پر کاغذ کا لفافہ چڑھایا جاتا ہے ، تاکہ پرندے سیب کو خراب نہ کر سکیں ۔ یہ لفافہ سیب پکنے کے بعد اتار دیا جاتا تھا ۔ اس کے علاؤہ مکئی کی کاشت بھی کی جاتی تھی ، یہاں کی مکئی کا بھٹہ دانوں سے بھرا ہوا اور بہت مزیدار ہوتا ہے ۔ اسے خشک حالت میں اکھاڑا جاتا ہے اور دانے الگ کر کے مزید دھوپ میں خشک کیا جاتا ہے اور تیل نکالنے کےلیے بیچا جاتا ہے ۔ میں سسر کے ساتھ ان کی زمین پر بھی گیا اور سیب اور مکئی کے بھٹے کھانے کے لیے ساتھ لایا ۔ سسر نے بتایا کہ cultural Revolution کے دوران کچھ مسیحی ان کے پاس دو تین دونوں کےلیے پناہ گزین ہوئے وہ بھی عبادت کرتے تھے اور پھر وہ کسی طرف روانہ ہو گئے ۔ cultural Revolution کے دوران سب مذہبی عبادگاہوں اور مذہب کے ماننے والوں پر زمین تنگ کر دی گئی تھی ۔
اس کے بعد میں بیگم کے ساتھ ان کے عزیزوں کے گھر گیا اور ایک ایک سے تعارف حاصل کیا ۔ ایک حیرت کی بات یہ تھی کہ گاؤں میں یا تو سارے بوڑھے تھے یا سارے ہی بچے ۔ جوان نظر نہیں آئے نہ مرد نہ عورتیں ۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ کچھ پڑھائی کے لیے شہروں کے مختلف تعلیمی اداروں میں ہیں اور جو جوان تعلیم حاصل نہیں کر رہے وہ مزدوری کرنے کے لیے بڑے شہروں میں ہیں ۔ گاؤں میں وہی موجود ہیں جو باہر مزدوری نہیں کرسکتے ۔ گھروں میں رہنے والے بچوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور زمین کاشت کرتے ہیں ۔ حکومت کی طرف سے بھیڑوں کو باہر چرانے پر پابندی تھی کہ یہ قیمتی جڑی بوٹیاں کھا جاتے ہیں اور چھوٹے پودوں کو نقصان پہنچاتی ہیں ۔ ہم جس جس رشتہ دار کے گھر گئے ، ان کے لیے کچھ نہ کچھ تحائف ہم لے کر گئے تھے جیسے سبز چائے اور سگریٹ وغیرہ ۔ انہوں نے سبز چائے ، سورج مکھی کے بیج اور سیب وغیرہ سے ہماری تواضح کی ۔ یہ سب مجھے ایسے ہی دیکھ رہے تھے جیسے میں کوئی خلائی مخلوق ہوں ۔ ان کی اپنی ایک مقامی زبان تھی جو چائنیز سے بہت کچھ مختلف تھی ۔
اگلے دن بس میں ہم ایک اور چھوٹے قصبے میں گئے جہاں ہم نے بچی کی رجسٹریشن تھانے میں کروائی۔ ان کا تھانہ ، ان کے نادرا کے ڈیٹا سے منسلک تھا ۔ اس قصبے میں مجھے مسلمانوں کا ایک ریستوران نظر آیا ۔ ان سے ہم نے نوڈلز کھائے اور معلوم کیا تو پتہ چلا قریب ہی ایک گاؤں ہے جہاں مسلمان رہتے ہیں ۔ کچھ ضرورت کی کھانے پینے کی چیزیں خریدیں اور واپس آ گئے ۔
دو دن بعد دوبارہ ہم Jing Ning قصبے کی طرف گئے ۔ یہاں میرا سالا کسی کنسٹرکشن کمپنی کے ساتھ کام کرتا تھا ۔ معلوم ہوا وہاں ایک پانچ سو سالہ پرانی مسجد بھی ہے ۔ اس مسجد کا پتہ پوچھا اور اس سمت چل پڑے ۔ ایک گلی کے پاس پہنچے تو کچھ مسلمان نان بیچتے نظر آئے ان سے پوچھا ، انہوں نے ایک گلی کی طرف اشارہ کیا جس کے آخر میں مسجد تھی ۔ ہم مسجد کا گیٹ کھول کر اندر گئے تو سامنے ایک لان تھا ۔ ایک طرف دو کمرے اور غسل خانے ، جبکہ دوسری طرف وضو کےلیے نلکے لگے ہوئے تھے اور بالکل سامنے لکڑی کی بنی مسجد تھی اور احاطے کے درمیان میں سیڑھوں والا مینار کسی دور میں اذان اس مینار کے اوپر جا کر دی جاتی تھی ، مسجد کا فرش بھی لکڑی کا تھا ۔ امام مسجد سے تعارف ہوا ، تو انہوں نے بتایا کہ پہلے یہ مسجد بہت بڑی تھی بعد میں بہت سی زمین پر گورنمنٹ نے فلیٹ بنا دیے ۔
نماز کا وقت تھا ، امام صاحب نے مجھے اذان دینے کا کہا پھر چار پانچ بوڑھے بوڑھے نماز کےلیے آ گئے ۔ نماز ادا کر کے ہم واپس گھر کی طرف چل پڑے ۔ بعد میں جب بھی میں یہاں آتا تو یہی مسجد میرا ٹھکانہ ہوتی اور اگر اکیلا ہوتا تو رات بھی یہیں مسجد میں ہی ٹھیر جاتا ۔ امام صاحب کا اپنا ایک حلیہ تھا جو چائنا میں تقریبآ مجھے تمام امام مسجد کا نظر آیا ، لمبا گاؤن نما کورٹ جو وہ لازماً امامت کرنے سے پہلے پہنتے اور نماز کے بعد اتار کر لٹکا دیتے ۔ یعنی یہ امامت کا لازمی حصہ تھا ۔ میں نے ان سے اس کی وجہ بھی پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ تمام سنٹرل ایشیا میں ایسے ہی ہے ۔ ان کا ایک بیٹا بھی تھا جس کو وہ دینی تعلیم کےلیے پاکستان بھیجنا چاہتے تھے ۔ لیکن ابھی وہ ہائی سکول میں زیر تعلیم تھا ۔
دو دن بعد میں صبح سویرے میں دوبارہ یہاں آیا اور سیدھا مسجد چلا گیا ۔ امام مسجد مجھے ساتھ لے کر پہاڑی پر موجود ایک قبرستان لے گئے اور ایک قبر کے سامنے کھڑے ہو کر انتظار کرنے لگے ۔ کچھ ہی دیر میں ایک کیری ڈبے پر کچھ لوگ آئے ان سے علیک سلیک ہوئی ۔ سب لوگ ایک قبر کے پاس بیٹھ گئے ، یہ ان کے والد کی قبر تھی ۔ قبر کے دونوں کونوں پر اگربتیاں جلا کر رکھی گئیں پھر امام مسجد نے قرآن کی تلاوت کی اور دعا کی ۔ اس کے بعد ہم ان کے گھر آ گئے انہوں نے کھانے کا بندوبست کیا ہوا تھا ، انہوں نے مجھے اور امام مسجد کو پچاس پچاس روپے دیے ۔ کھانے کے دوران دو جوان لڑکیاں بھی سامنے آئیں جنہوں نے ہمیں دیکھ کر سر پر ٹوپیاں پہن لیں ۔ یہ کسی شہر کے کالج میں پڑھتی اور وہیں رہتی تھیں ۔
"یہ اگربتی اور اس کے بعد کھانا” ، یہاں بھی موجود تھا ۔ ویسے ایک بات مجھے آج تک سمجھ نہیں آسکی کہ قبر پر جا کر قرآن مجید کی تلاوت کا کیا مقصد ہوتا ہے ، قرآن تو زندہ لوگوں کےلیے خدا کا پیغام ہے اور ہم اسے مردوں کو نہ جانے کیوں سنا رہے ہوتے ہیں ۔ ممکن ہے زندہ انسانوں کو اسے سمجھنے میں دلچسپی نہ رہی ہو ۔
اس کے بعد امام صاحب مجھے ساتھ لے کر ایک گوشت کی دوکان پر گئے وہاں کچھ لوگ امام صاحب کا انتظار کر رہے تھے۔ امام صاحب نے ان کی دو بھیڑیں ذبح کیں اور انہوں نے دس روپے امام کو دیے ۔ یہاں یہ سب کام امام مسجد ہی سے کروائے جاتے تھے ۔
شکر ہے، اس دن میری بیگم میرے ساتھ نہیں تھی ورنہ میں اس بات کی وضاحت کیسے کرتا کہ بدھ مت کے ماننے والے جو اگربتی قبروں پر جلاتے ہیں ، اس میں اور ہماری جلائی ہوئی اگربتی میں کیا فرق ہے ۔ وہ مردوں کےلیے چاپ قبروں پر کھڑے کرتے اور کھانا کھلاتے اس میں اور ہمارے قبروں پر پڑھے گئے قرآن میں کیا فرق ہے ۔
یہ سارے لوگ پرانے دیوبندی یعنی حیاتی تھے اور یہ آہستہ آہستہ بڑے شہروں میں بکھر رہے تھے ۔ ان میں سے اکثر گم ہو جائیں گے کیونکہ ان کے اسلام کی بنیاد دلائل کی بجائے بس خاندانی ہی تھی ۔ یہاں تو یہ لوگ گاؤں میں اکٹھے رہتے ہیں ، جبکہ شہروں میں جا کر یہ دوسری آبادیوں میں غیر مسلموں کے ساتھ بکھر جائیں گے۔