پیر کے دن عمران خان صاحب گورنمنٹ کالج لاہور تشریف لے گئے۔میں اس کالج کا طالب علم رہا ہوں۔اس کی تاریخ اور روایات کی بابت ہمیشہ فخر محسوس کیا ہے۔اسے ”یونیورسٹی“ کا درجہ عطا ہونے کے بعد مگر اتفاقاََ اسی کالج کے چند اساتذہ اور طالب علموں سے ملاقاتیں ہوئیںتو چند لمحوںکی گفتگو کے بعد نہایت دُکھ سے محسوس ہوا کہ ”میاں مدن“ والی بات نہیں رہی۔
میری مادر علمی اب زندگی کے بنیادی حقائق کے بارے میں سوالات اٹھاتے ذہن تیار کرنے کے قابل نہیں رہی۔ ”دولے شاہ کے چوہے“ جیسے شاگردوں سے بھری ہوئی ہے جو نصابی کتابوں میں لکھی باتوں سے بلند ہوکر مختلف شعبوں میں ”کچھ نیا“ کرنے کے جنون میں مبتلا دکھائی نہیں دے رہے۔ان ملاقاتوں کے بعد کئی مرتبہ لاہور میں اپنے قیام کے دوران گورنمنٹ کالج کی چار دیوار ی کے قرب وجوار میں گیا۔اس کی عمارت کے اندر جانے کا مگر حوصلہ نہ ہوا۔خوش گوار یادوں سے محروم ہوکر دل کو پرملال بنانے کی جرا¿ت نہیں تھی۔
مایوسی کی شدت کا اندازہ اس حقیقت سے بھی لگالیں کہ میری بیوی کے خالو اس کے پرنسپل بھی رہے ہیں۔ شاہد حسین صاحب فسٹ ایئر میں میرے براہ راست استاد بھی تھے۔وہ بہت سخت گیر تھے۔میں ان کی کلاس میں جانے کے بجائے فلسفہ ڈیپارٹمنٹ کے چمن میں موجود کھوکھے پر بیٹھا دیگر طلبا کو احتجاجی سیاست میں حصہ لینے کو مائل کرنے میں مصروف رہتا۔اس کی وجہ سے مسلسل شاہد صاحب کی ڈانٹ ڈپٹ کی زد میں رہا۔اس کے باوجود وہ مجھے ایک ذہین طالب علم شمار کرتے تھے۔میری شادی کی تقریب میں شریک ہوئے تو دلہن کو فخر سے بتایا کہ تمہارا شوہر ہمارے کالج کے تراشے چند ”ہیروں“ میں سے ایک ہے۔ان کی تمنا رہی کہ میں چند دن پرنسپل کے لئے مختص گھر میں بھی رہوں اور ہم وہاں بیٹھے پرانی یادیں تازہ کریں۔ میں دل کو ملال سے بچانے مگر کنی کتراتا رہا۔
شعیب ہاشمی صاحب بھی میرے استاد رہے ہیں۔وہ شاگردوں پر رعب جھاڑنے کے عادی نہیں تھے۔ دوستوں کی طرح ان سے گھل مل جاتے اور تخلیقی کاموں کو اکساتے ۔ ان سے بھی لیکن ڈانٹ ڈپٹ ہی نصیب ہوئی۔ شعیب صاحب کو گماں تھا کہ میں افسانے اور ڈرامے لکھنے کی صلاحیت سے مالا مال ہوں۔ادب کے جدید ترین رحجانات سے بھی بخوبی واقف ہوں۔اپنا وقت مگر کینٹین میں بیٹھ کر دیگر طالب علموں کو ”انقلابی“ بنانے میں ضائع کررہا ہوں۔ڈاکٹر اجمل صاحب بھی جو میرے دور کے پرنسپل تھے اسی سوچ کے حامل تھے۔ مجھے اپنے دفتر بلاکرسمجھانے کی کوشش کرتے۔میں بدتمیزی سے اپنا دفاع کرتا۔ اپنے ایک دستخط سے وہ مجھے کالج سے یک لخت خارج کرسکتے تھے۔ ایسا کرنے کے بجائے وہ چھت پر نگاہ ڈالنے کے بعد ایک ماہر نفسیات کے پریشان کن لہجے میں ارشاد فرماتے کہ تمہیںAnger Managementیعنی غصہ پر قابو پانے کی ضرورت ہے وگرنہ زندگی میں بہت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جوانی کے جوش میں ایک بار میں نے اس کے جواب میں یہ کہہ دیا کہ وہ مجھے اپنی ”تحلیل نفسی“ کی دوکان چلانے کے لئے تجربہ گاہ کا چوہا بنانا چاہ رہے ہیں۔
میرا یہ فقرہ کسی طرح صوفی تبسم صاحب تک پہنچ گیا۔ وہ گورنمٹ کالج کے مشہور استاد رہے تھے۔انہوں نے اپنے سمن آباد والے گھر طلب کرلیا۔ وہ گھر میں عموماََ ”دھوتی اور آدھی آستین کا کرتا پہنے حقہ پی رہے ہوتے تھے۔ان کے پاﺅں میں باٹا کے چپل ہوا کرتے تھے جس کا اوپری حصہ سرخ رنگ کا ہوتا تھا۔اس چپل سے انہوں نے مجھے بہت جلال سے پیٹا اور مسلسل بڑبڑاتے رہے کہ مجھے استادوں کا احترام کرنا ہوگا۔شاید ان کے جوتوں کے طفیل میں ناقص اردو میں یہ کالم لکھ کر عمر کے آخری حصے میں بھی کچھ رزق کماسکتا ہوں۔
بہرحال بات عمران خان صاحب کی گورنمنٹ کالج آمد سے شروع ہوئی تھی۔ بخدا میں ان کی وہاں موجودگی اور بعدازاں کئے خطاب پر ہرگز معترض نہیں ہوں۔ دیانت داری سے بلکہ یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں طالب علموں کو سرکردہ سیاسی رہ نماﺅں کے خیالات سے آگہی حاصل کرنا چاہیے۔عمران خان صاحب یقینا ہمارے بااثر سیاستدانوں میں ان دنوں نمایاں ترین ہیں۔پیر کی تقریب میں لیکن ان کا وعظ نما خطاب درکار نہیں تھا۔ سوال۔جواب کا سیشن ہونا چاہیے تھا۔ ان دنوں جو صاحب بھی ”یونیورسٹی“ ہوئے گورنمنٹ کالج کے پرنسپل ہیں ایسے سیشن سے گریز کرتے محسوس ہوئے۔عمران خان صاحب کے روبرو طلباءکو انہوں نے ایسے انداز میں بٹھایا جو کسی فوجی بیرک میں لاگو ”ڈسپلن“ کا اظہار تھا۔ان کی یہ ادا مجھے پسند نہیں آئی۔ڈاکٹر نذیر احمد یاد آگئے۔وہ میرے زمانے میں کالج سے ریٹائر ہوچکے تھے۔انہیں مگر نواب آف کالا باغ جیسے سخت گیر گورنر نے کالج میں ہوئی ایک تقریب کی وجہ سے پرنسپل کے عہدے سے ہٹادیا تھا۔گورنمنٹ کالج کے طلباءنے جبر کے اس موسم میں بھی دو دن سے زیادہ تک پھیلے احتجاج اور مظاہروں کے ذریعے نواب امیر محمد خان کو اپنا فیصلہ واپس لینے کو مجبور کردیا تھا۔
ڈاکٹر نذیر احمد کتنے بڑے عالم مگر حقیقی معنوں میں درویش تھے۔ یہ جاننا ہو تو خدارا انٹرنیٹ کے ذریعے سرمد صہبائی کا لکھا ایک مضمون تلاش کرلیجئے۔ سرمد صاحب ثابت قدم اور جارح روایت شکن ہیں۔ بڑے سے بڑے ناموں کو بھی کسی خاطر میں نہیں لاتے۔ڈاکٹر نذیر صاحب کا خاکہ مگر جس محبت و انکساری سے انہوں نے لکھا ہے اسے پڑھنا ہر اس شخص کے لئے واجب ہے جو ہماری تہذیبی روایات کے تناظر میں ”استاد“ کی اہمیت جاننا چاہتا ہے۔طلباءکی خفیہ صلاحیتوں کو ایک نگاہ میں دریافت کرلینا ایسے ہی استادوں کو نصیب ہوا تھا۔ایسی صلاحیتوں کی آبیاری اور سرپرستی کی تڑپ میں مبتلا ر ہتے۔
میرے دور کے گورنمنٹ کالج میں طلباءکو نصاب میں لکھی باتوں کو رٹا لگاکر یاد کرنے کے بجائے اس امر کو اکسایا جاتا تھا کہ وہ ان باتوں کو تنقیدی نگاہ سے دیکھنے کی عادت اپنائیں۔غالب کے کسی شعر کی کوئی نئی جہت دریافت کریں۔ بدقسمتی سے اب تنقیدی اذہان کی آبیاری کرنے والے استاد ہمارے معاشرے میں باقی نہیں رہے۔ سرکار نجی کالجوں کے سیٹھ مالکان کی چاکری ان کا اجتماعی شعار بن چکی ہے۔اپنے طلباءکوبھی وہ سرجھکاکر وعظ نما خطاب سننے کی عادت ڈال رہے ہیں۔گورنمنٹ کالج لاہور کے موجودہ پرنسپل جو غالباََ اب ”وائس چانسلر“ کہلائے جاتے ہیں مجھے ”جی حضوری“ سکھاتے اس رویے کی بھرپور علامت نظر آئے ہیں۔بڑھک البتہ یہ لگائی جارہی ہے کہ عمران خان صاحب نے پیر کے روزگورنمنٹ کالج لاہور کے طلباءسے خطاب کرتے ہوئے انہیں ”نیوٹرلز“ کے خلاف ”بغاوت“ کو اُکسایا ہے۔پنجابی کا ایک محاورہ دہراتے ہوئے اپنا سیاپا ختم کرتا ہوں جو کہتا ہے :”لگادا تے نئیں۔پر….“