گزشتہ کالم میں فلسطینیوں کی زندگی اجیرن تر بنانے کے لیے نت نئی نسل پرستانہ اسرائیلی قانون سازی کے معاملے پر تفصیلاً بات ہوئی۔آج ہم اسی اسرائیلی پالیسی کے بھارتی ماڈل پر بات کریں گے۔
جب دو ہزار چودہ میں بی جے پی نے مرکز میں سادہ اکثریت کی مجبوری میں اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کے حکومت بنائی تو اس وقت آر ایس ایس کے ہاتھ پاؤں اتنے آزاد نہیں تھے کہ کھل کے ہندوتوا کے نسل پرستانہ نظریے کو قانونی شکل میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر منطبق کر سکے۔چنانچہ یہ کام تشدد پسند منڈلیوں کے سپرد کیا گیا اور گاؤ رکھشک گینگ شمالی ہندوستان کی ہر ریاست میں تشکیل پانے لگے اور ان کے ہاتھوں مسلمانوں کو تشدد و ہلاکت کا فرداً فرداً نشانہ بنانے کا کام شروع ہوا۔
جب ریاستی یا مرکزی حکومت کی توجہ اس جانب دلائی جاتی تو وہ یہ کہہ کے ہاتھ جھاڑ لیتے کہ بھئیا ایک سو تیس کروڑ لوگوں کا اتنا بڑا دیش ہے اس میں ایسی چھٹ پھٹ گھٹنائیں تو گھٹتی ہی رہتی ہیں۔ پرنتو و شواس کیجے کہ ہنسا کا اپیوگ کرنے والے ان گٹوں کو کسی بھی پرکار سے سرکاری پشٹی اپلپدھ نہیں ہے۔
جب دو ہزار انیس میں مودی جی کو دوتہائی انتخابی اکثریت حاصل ہوئی تو ہندوتوا کی بلی پوری طرح تھیلے سے باہر آ گئی۔پہلا کام تو یہ ہوا کہ تاریخ کو ازسرنو لکھنے کی بھرپور کوشش میں مسلمان کرداروں کو چن چن کے نکالا گیا۔تعلیمی نصاب میں سابق مسلمان حکمرانوں کو بدیسی ولن کے طور پر پیش کیا گیا۔تحریکِ آزادی میں مسلمانوں کے سامراج دشمن کردار کو مسخ کر کے بیان کیا گیا۔چونکہ ہندوستانی سماج پر بالی وڈ کا تاریخی اثر ہے۔
لہٰذا اس طاقتور میڈیم کو استعمال کرتے ہوئے ایسے فلم سازوں کی حوصلہ افزائی کی گئی جو یک رخی ایجنڈے سے آلودہ تاریخ فیتہ بند کر سکیں۔ان فلموں کو من مانے تاریخی الٹ پھیر کے علاوہ ٹیکس کی چھوٹ بھی مل گئی۔
دوسرا حملہ شمال مشرقی ریاست آسام میں بیس فیصد مسلمان آبادی کو غیرملکی ثابت کرنے کے لیے نیشنل پاپولیشن رجسٹریشن میں پوری آبادی کی ازسرِ نو رجسٹریشن کے نام پر ہوا اور لاکھوں افراد کو بنگلہ دیشی قرار دیتے ہوئے شہریت سے محروم کر دیا گیا۔ان میں وہ بھارتی مسلمان شہری بھی شامل تھے جو بھارتی فوج میں زندگی بھر نوکری کرتے رہے۔یہ پالیسی دراصل برما کا روہنگیا ماڈل تھا جسے نسبتاً ذہانت و نفاست کے ساتھ شمال مشرقی ریاستوں پر منطبق کرنے کی کوشش کی گئی۔
بعد ازاں شہریت کے قانون میں ترمیم کرتے ہوئے بیرون ملک مقیم ظلم و ستم کے شکار کسی بھی ہندو ، سکھ ، مسیحی کو بھارت میں بسنے کا حق دیا گیا مگر مسلمانوں کو اس کٹیگری سے باہر رکھا گیا۔
جب کوویڈ کی وبا آئی تو پہلے پہل یہ تاثر پھیلایا گیا کہ یہ وائرس مسلمانوں نے پھیلایا ہے۔ البتہ الہ آباد (پریاگ راج ) میں کمبھ کے میلے میں کروڑوں یاتریوں کے ہجوم میں کوویڈ پھیلنا شروع ہوا تب جا کے مسلمانوں کی اس الزام سے گلو خلاصی ہوئی۔مگر شمالی ہندوستان کے قصبوں اور دیہاتوں میں مسلمان کاروباریوں اور خوانچہ فروشوں کا سماجی بائیکاٹ اس بہانے جاری رہا کہ یہ لوگ کوویڈ کا وائرس ساتھ لیے گھوم رہے ہیں۔
پھر ریاست کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے والی لڑکیوں کا بائیکاٹ شروع ہوا اور عدالتی حکم کے ذریعے حجاب پر پابندی عائد ہو گئی۔ حالانکہ دو ہزار اکیس سے پہلے کسی کا دھیان نہیں گیا تھا کہ حجاب بھی کوئی سماجی یا سیاسی مسئلہ ہے۔
جب اس سے بھی کام نہ چلا تو ریاست جھاڑکھنڈ میں شدت پسند ہندو مذہبی رہنماؤں کی ایک کانفرنس میں مسلمانوں کی کھلم کھلا نسل کشی کے لیے ہندوؤں سے ہتھیار خریدنے، عسکری تربیت حاصل کرنے اور محلے پڑوس میں مسلمانوں کی مشکوک سرگرمیوں پر نظر رکھنے کی اپیلیں شروع ہو گئیں۔
اس سے پہلے اگست دو ہزار انیس میں واحد مسلمان اکثریتی نیم خود مختار ریاست جموں و کشمیر کا آئینی تشخص ختم کر کے اسے دو انتظامی حصوںمیں بانٹ دیا گیا اور وہ بچا کھچا آئینی تحفظ بھی چھین لیا گیا جس کے سبب کوئی غیر ریاستی باشندہ یہاں املاک نہیں خرید سکتا تھا۔پے در پے ایسی قانون سازی ہوئی جس کا مقصد اگلے پندرہ بیس برس میں یہاں کی مسلمان اکثریت کو اقلیت میں بدلنا اور بھارت کی دیگر ریاستوں سے آباد کاروں کو لاکھوں کی تعداد میں بعینہہ ویسے ہی بسانا ہے جیسے مقبوضہ فلسطین میں یہودی آبادکاری کو ممکن بنایا گیا۔
مسلمانوں کو بحیثیت گروہ سماجی طور پر بالکل الگ تھلگ کرنے کی پالیسی کے تحت لو جہاد کے نام سے ایک کردار کش تحریک ایجاد کی گئی تاکہ بین الامذاہب شادیوں کی حوصلہ شکنی ہو سکے۔پھر نجی سطح پر شروع ہونے والی اس تحریک کو اتر پردیش ، جھاڑکھنڈ ، ہریانہ ، مدھیہ پردیش اور کرناٹک میں بی جے پی کی ریاستی حکومتوں نے باقاعدہ قانون سازی کر کے گود لے لیا۔
لو جہاد کے نظریے کو کس طرح سیاسی و تعزیری ہتھیار بنا کے استعمال کیا جا رہا ہے۔اس کی ایک جھلک سب سے بڑی بھارتی ریاست اترپردیش میں دیکھی جا سکتی ہے جہاں مسلمانوں کی تعداد بیس فیصد ہے۔ اکتوبر دو ہزار بیس میں یوپی ہائی کورٹ نے ایک مقدمے میں فیصلہ دیا کہ محض شادی کی خاطر مذہبی عقیدے کی تبدیلی غیر قانونی ہے۔اس فیصلے نے وزیرِ اعلیٰ یوگی ادتیا ناتھ کی حکومت کے گویا ہاتھ کھول دیے۔وزیرِاعلیٰ نے گورکھپور کے ایک ضمنی انتخابی جلسے میں کھلے عام دھمکی دی کہ اگر لو جہادی اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ان کا ’’ رام نام ست ہے ‘‘ ہو جائے گا ( یعنی ان کی میت اٹھے گی)۔
ریاستی اسمبلی نے غیرقانونی تبدیلیِ مذہب کی سزا کا قانون منظور کیا۔ دھوکا دہی ، اکساہٹ اور جبر کے نتیجے میں شادی کو ناقابلِ ضمانت جرم قرار دیا گیا۔ سزا دس برس قید مقرر کی گئی۔یہ قانون فروری دو ہزار اکیس میں نافذ ہوا۔اور اس کے تحت ریاست بھر میں لو جہاد کے ایک سو آٹھ مقدمات درج کیے گئے۔ دو سو ستاون ’’ لو جہادی ‘‘ حراست میں لیے گئے۔
بظاہر یہ قانون تمام مذاہب پر لاگو ہوتا ہے۔ البتہ جن کے خلاف پرچہ درج ہوا ان میں پچانوے فیصد ملزم مسلمان تھے اور حراست میں لیے جانے والوں میں ملزموں کے دوست اور اہلِ خانہ بھی شامل تھے۔ اس قانون کے تحت اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی ذمے داری ملزم پر عائد ہوتی ہے۔بیشتر گرفتار شدگان پر باقاعدہ فردِ جرم عائد نہیں کی گئی لہٰذا مقدمہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔
اس قانون کے نفاذ کی ذمے داری آر ایس ایس کی ذیلی تنظیموں وشو ہندو پریشد ، بجرنگ دل اور ایسے ہی بیسیوں ہندو گروہوں نے اپنے ذمے لے لی۔ کون بے گناہ ہے کون گناہ گار ہے یہ فیصلہ ان تنطیموں کے کارکن پولیس کی موجودگی میں کرتے ہیں اور پھر مسلسل دباؤ ڈال کے پرچے کٹوائے جاتے ہیں۔
ایسا ہی ایک واقعہ مظفر نگر کی امن دیپ کور کے ساتھ ہوا۔اس کی ایک مسلمان لڑکے عثمان قریشی سے دوستی تھی۔بعد میں عثمان کی شادی اپنی ہی برادری میں ہوئی۔لیکن فیس بک پر ایک جعلی اکاؤنٹ بنوا کر اس پر امن دیپ کی تصویر جنت قریشی کے نام سے ڈالی گئی اور اسے عثمان قریشی کی بیوی ظاہر کیا گیا۔بجرنگ دل کی مقامی تنظیم کے دباؤ پر پولیس نے امن دیپ کے والد کو پوچھ گچھ کے بہانے تھانے طلب کیا۔بعد ازاں امن دیپ بھی تھانے پہنچ گئی جہاں بجرنگ دل کے درجن بھر کارکن بھی موجود تھے۔
انھوں نے امن دیپ سے موبائل فون چھین لیا اور دھمکی دی کہ اگر اس نے عمثان کے خلاف جبری شادی اور اپنے نام کی تبدیلی کا تحریری اعتراف نہ کیا تو اسے اس کے والد سمیت تھانے سے نہیں جانے دیا جائے گا۔ امن دیپ نے جان چھڑانے کے لیے بیان دے دیا۔ اس کی بنیاد پر عثمان قریشی اور اس کے بھائی ندیم قریشی کو حراست میں لے کر تبدیلیِ مذہب ، نام کی تبدیلی اور جبری شادی کا مقدمہ درج کر لیا گیا۔
امن دیپ کور نے اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے گورنر اور وزیرِ اعلیٰ تک کو درخواست بھیجی کہ عثمان قریشی بے قصور ہے اور مجھ پر دباؤ ڈال کے اس کے خلاف بیان دلوایا گیا۔مگر حکومت و عدالت نے امن دیپ کے بیان پر کوئی دھیان نہیں دیا۔
اس دوران عثمان کی نوکری چلی گئی۔امن دیپ کو بھی اس واقعہ کی تشہیر کے سبب اپنے دفتر میں اجنبیت کا سامنا کرنا پڑا تو وہ بھی انشورنس کمپنی کی اچھی خاصی نوکری چھوڑ کے گھر بیٹھ گئی۔
عثمان اور اس کے بھائی کو ایک عدالت نے امن دیپ کے بیان کی روشنی میں نو ماہ بعد ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تاہم مقدمہ خارج نہیں کیا گیا۔
اسی طرح ریاست اترا کھنڈ اور مدھیہ پردیش میں بھی کئی کیس سامنے آئے جن میں مسلمان نوجوانوں کو ماخوذ کر کے حوالات میں بند کر دیا گیا۔کچھ کی ضمانتیں ہو جاتی ہیں۔ کچھ پڑے رہتے ہیں۔مگر بے گناہی ثابت ہونے کے باوجود وہ دوبارہ معمول کی زندگی کی بحالی میں سماج کی تیکھی نظروں کے سبب اکثر ناکام رہتے ہیں۔ان میں سے کئی افراد اور ان کے اہلِ خانہ کو نئی زندگی شروع کرنے کے لیے املاک اونے پونے بیچ کر نقل مکانی کرنا پڑتی ہے۔
اور گزشتہ ہفتے سے مسلمانوں کو ان کی اوقات یاد دلانے کے لیے ایک نیا کھیل شروع ہو گیا ہے۔ نوراتری کے تہوار کے موقع پر پولیس نے گجرات اور مدھیہ پردیش سمیت بی جے پی کی زیرِ اقتدار ریاستوں میں بیسیوں مسلمان نوجوانوں کو کھمبوں اور درختوں سے باندھ کر درے لگائے۔
ان نوجوانوں کو بجرنگ دل اور دیگر انتہا پسند گروہ پکڑ پکڑ کے پولیس کے حوالے کرتے اور پولیس موقع پر بھرے مجمع کے سامنے ’’ انصاف ‘‘ کرتی۔الزامات یہ تھے کہ یہ نوجوان نوراتری کے جلوس پر پتھراؤ کر رہے تھے یا پھر جشن میں گھسنے کی کوشش کر رہے تھے یا ہندو عورتوں کی چوری چھپے تصاویر کھینچ رہے تھے۔یوں انتہاپسند گروہ اور پولیس مل کے عدالت کا بوجھ بھی خود ہی اٹھا رہے ہیں۔
جب ایک ریاستی وزیر سے پوچھا گیا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے تو اس نے ترنت ہنستے ہوئے جواب دیا ’’ بڑے بڑے دیشوں میں چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی رہتی ہیں ۔‘‘
مورل آف دی اسٹوری: اگر آپ فلسطینی نہیں بھی ہیں مگر نئے بھارت کے مسلمان ناگرک ہیں تو بات ایک ہی ہے۔
بشکریہ ایکسپریس