کایاکلپ انقلاب ہر سماج کا مقدر نہیں

جن جن ممالک میں کامیاب عوامی تحریک کے ذریعے حسبِ خواہش تبدیلی آئی ۔ان ممالک میں ایک قدرِ مشترک ہے۔یعنی ہم زبان، ہم ثقافت ، ہم خیال اکثریتی نسلی گروہ کی لیڈرشپ نے تحریک کی قیادت کی۔

مثلاً فرانس کی آبادی ایک چوتھائی فرنچ، ایک چوتھائی جرمن اور ایک چوتھائی ہسپانوی نسلی پس منظر سے ہوتی تو ہر ایک کے اپنے اپنے مفادات اور مسابقتی باریکیاں ، ایک ہی صورتِ حال کو دیکھنے اور پرکھنے کے مختلف زاویے صدیوں سے گڑی بادشاہت کو اتنی آسانی سے اٹھارویں صدی کے آخر میں نہ الٹ پاتے۔

قوی امکان تھا کہ شورش یا تحریک ابتدائی جوش اور غصے کے مرحلے سے گذرتے ہوئے نفاق، خانہ جنگی یا حکمران طبقے کے چالاک ترغیباتی جال میں پھنس کے کوئی اور شکل اختیار کر جاتی اور یہ شکل انقلاب یا تبدیلی کے اصل مقاصد سے بالکل تین سو ساٹھ ڈگری مختلف ہوتی۔

اسی طرح انیس سو سترہ کے روس میں اگر زار شاہی کا تختہ الٹا گیا تو انقلابی قیادت ، عام لوگوں اور محاذِ جنگ سے شکست خوردہ لوٹنے والے فوجیوں میں اکثریت زار شاہی کے مقبوضہ وسطی ایشیائی غیر روسی شہریوں پر مشتمل نہیں تھی بلکہ اس کی قیادت اکثریتی سلاوک نسل ( رشیا اور یوکرین ) کے رہنماؤں کے ہاتھ میں تھی۔ بصورتِ دیگر زار شاہی قوم پرستی کا ہتھیار استعمال کر کے آسانی سے اس انقلابی شورش کو ایک علاقائی یا نظریاتی بغاوت کے طور پر کچلنے کا کارڈ استعمال کر سکتی تھی۔

چین میں کیمونسٹ انقلاب سے پہلے جو خانہ جنگی ہوئی اس میں دونوں فریق (چیانگ کائی شیک اور ماؤزے تنگ) اکثریتی ہان قومیت سے تعلق رکھتے تھے۔چھوٹی قومیتوں نے اس تحریک کے حق میں یا خلاف محض معاون کردار ادا کیا۔

یہی تصویر ہوچی منہہ کی قیادت میں ویتنامی انقلابیوں کی بھی تھی۔یعنی ہم نسل ، ہم زبان ، ہم ثقافت اور یکساں نوآبادیاتی استحصال کا شکار اکثریتی نسلی گروہ اپنی جبلی و تہذیبی ہم آہنگی کے سبب فرانسیسیوں کو ملک سے نکالنے میں کامیاب رہا۔یہی تصویر کیوبا کی بھی ابھرتی ہے۔یہی تصویر انیس سو بیس کے ترکی اور انیس سو اناسی کے ایران کی بھی بنتی ہے۔

تازہ ثبوت عرب اسپرنگ کا تجربہ ہے۔مصر کی ساخت اگر کثیر نسلی ہوتی تو حسنی مبارک کا بستر گول ہونا مشکل تھا۔وہ الگ بات کہ مختصر عرصے کے بعد وہی پرانا نظام زیادہ شدت کے ساتھ حملہ آور ہوا، اور یہی مثال تیونس، لیبیا ، شام اور یمن میں جاری رسہ کشی پر بھی منطبق ہوتی ہے۔

یعنی کایاکلپ انقلابی تبدیلی صرف ان سماجوں میں آئی جن کی اکثریت یک نسلی تھی اور ہے۔اگر ایسا نہ ہوتا تو کثیر نسلی افغانستان میں کیمونسٹ انقلاب یا اس کے ردِعمل میں ہونے والی خانہ جنگی کے سبب ابھرنے والے طالبان کو خود کو اقتدار میں رکھنے کے لیے طاقت کا مسلسل استعمال نہ کرنا پڑتا اور طاقت کے ابتدائی استعمال کے بعد چند برسوں میں تبدیلی کا پودا اپنی جڑ پکڑ چکا ہوتا۔

اب آپ برصغیر کو ہی دیکھ لیجیے۔یہاں کوئی بھی نسلی گروہ غالب اکثریت نہیں رکھتا۔ممکن ہے آپ یہ مثال دیں کہ کسی ایک گروہ کی نسلی اکثریت نہ ہونے کے باوجود اسی فیصد آبادی ہندو ہے اور بیس فیصد آبادی مسلمان ہے۔کیا مشترکہ مذہب کثیر نسلی گروہوں کو انقلابی تبدیلی کے مشترکہ مقصد کی لڑی میں پرونے کے لیے ناکافی ہے ؟

اس نظریے میں وزن ہو سکتا ہے بشرطیکہ جسے ہم ہندو دائرہ کہتے ہیں اس کے اندر تقسیم در تقسیم کا پیچیدہ سماجی و سیاسی و معاشی نظام ایک متحد ہندو قوم کی تشکیل میں مسلسل آڑے نہ آتا اور تمام ہندو بلاامتیاز وہ ہندو ہوتے جن کی ثقافت اور زبان بھی یکساں ہوتی۔یا دوسرے بڑے مذہبی گروہ مسلمانوں میں فرقہ وارانہ سیاسی و سماجی امتیاز اتنا واضح اور گہرا نہ ہوتا جو کسی بھی فیصلہ کن سماجی و سیاسی تبدیلی کی راہ کا پتھر نہ بن سکتا۔

اگر مذہبی عینک سے بھی دیکھا جائے تو انقلاب یا تبدیلی وہیں آئی جہاں غالب نسلی اکثریت کا مذہبی نظریہ بھی یکساں تھا۔مثلاً فرانس میں غالب اکثریت رومن کیتھولکس کی تھی، روسی آرتھوڈکس مسیحت کے پیروکار تھے۔عرب اسپرنگ سے متاثر ممالک میں اکثریت شافعی و مالکی سنیوں کی تھی اور ایران میں شیعت غالب تھی۔چنانچہ تبدیلی کے پیغام کو یک آواز لڑی میں کامیابی سے پرو لیا گیا۔

انیس سو سینتالیس میں جب برصغیر کی تقسیم مذہب کی بنیاد پر ہوئی تو ایسا لگا کہ تبدیلی کے لیے صرف ہم مذہب ہونا کافی ہے۔مگر آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کثیر نسلی بھارت میں علاقائی ، نسلی اور ذات پات کے تضادات ایک فیصلہ کن سیاسی و سماجی تبدیلی کی راہ میں مسلسل رکاوٹ ہیں۔ بھارت اگر قائم ہے تو کسی انقلابی نظریے یا ڈھانچے کی بنیاد پر نہیں بلکہ سماج و سیاست میں کچھ لو کچھ دو کے لچک دار اصول کے سہارے رواں ہے۔

اسی طرح پاکستان یہ کہہ کر بنایا گیا تھا کہ ہمیں انگریز اور ہندو کے استحصال سے نجات پا کر مذہب کی بنیاد پر ایک منصفانہ سماج اور طرز حکومت کی تعمیر کرنی ہے۔مگر یہ تجربہ کتنا کامیاب ہو پایا۔یہ ہم سب جانتے ہیں، ہم آج تک ہر سطح پر اپنے تضادات کو پاٹنے کی تگ و دو میں مبتلا ہیں۔

مشرقی پاکستان بھی بنگلہ دیش اس لیے بن پایا کہ تبدیلی کی خواہش مند قیادت کا تعلق غالب نسلی گروہ سے تھا،اگر بنگال بھی کثیر نسلی سماج ہوتا تو بنگلہ دیش بننا بہت مشکل تھا۔

اس پس منظر میں اگر آپ تاریخی اعتبار سے دیکھیں تو برصغیر کے کثیر نسلی سماج میں مختلف علاقوں میں یا قومی سطح پر جو بھی مرکز مخالف یا کسی مخصوص حکمران گروہ کے خلاف علاقائی، نسلی یا نظریاتی تحریکیں اٹھیں۔ان میں سے اکثر اپنے ابتدائی مقاصد سے بھٹک گئیں اور ان کے وہ نتائج نکلے جو تحریکی قیادت کے زہن میں بھی نہیں تھے۔

غیر مربوط انداز سے ابھرنے والی نسلی و طبقاتی شورشوں کو آبادی کے دیگر طبقات کی مدد سے کچل دیا گیا یا ناکام بنا دیا گیا۔یہ طریقہ مغلوں نے بھی استعمال کیا اور انگریزوں نے بھی۔

اگر ہم اٹھارہ سو ستاون کو نظرانداز کرتے ہوئے فی الحال بیسویں صدی میں ہی جھانک لیں تو تحریکِ خلافت، گاندھی جی کی سول نافرمانی کی تحریک، ہندوستان چھوڑ دو یا لیگ کا ڈائریکٹ ایکشن اور پھر تحریکِ پاکستان۔ان سب نے مل ملا کے جاری نظام کو کمزور تو کیا مگر جڑ سے نہ اکھاڑ پائے۔

خود تقسیم کے بعد بلوچستان میں یکے بعد دیگرے پانچ قوم پرست تحریکیں، خیبر پختون خوا میں اور سندھ میں قوم پرستی کی لہر، ایم کیو ایم کا عروج و زوال ، ایوب مخالف تحریک جس کے نتیجے میں ایک آمر دوسرے سے بدل گیا ، پی این اے کی تحریک جس کے نتیجے میں نظامِ مصطفی کے بجائے جنرل ضیا وارد ہو گئے ، ایم آر ڈی کی دونوں تحریکیں ، بے نظیر بھٹو کا ٹرین مارچ اور لانگ مارچ، نواز شریف کا جوڈیشل مارچ ، عمران خان کا دھرنا ، غرض ایک طویل فہرست ہے ناکامیوں ، جزوی کامیابیوں اور اصل مقاصد ہائی جیک یا تتر بتر ہونے کی۔

مطلب یہ کہ کثیر نسلی سماج میں لچکدار سمجھوتے ہی بتدریج تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔جب کہ یک نسلی سماج میں یک بیک انقلابی تبدیلی ممکن ہے۔اب تبدیلی بعد میں سنبھلتی ہے یا مزید انتشار در انتشار تقسیم در تقسیم کا سبب بنتی ہے۔یہ قیادت کی بالغ نظری، حالات و واقعات اور سماجی طبقات کے مفادات کی یکجائی یا ٹکراؤ پر منحصر ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے