اب تو لگتا ہے کہ اس ملک میں عام شہری ہونا ہی جرم ہے اور اس سے بھی بڑا جرم کسی برائی یا زیادتی کے خلاف آواز بلند کرنا ہے۔اگر آپ نرے عام شہری نہیں ہیں اور نرے شریف بھی نہیں ہیں اور ’’ نہ دیکھو ، نہ سنو ، نہ کہو ’’ والے تین روایتی جاپانی بندروں کے مقلد ہیں تو پھر زندگی گذارنا خاصا آسان ہے۔
ہم اپنے ہر کالم ، مضمون یا تبصرے میں ہمیشہ زور آوروں یا معروفوں کا ہی ذکر کرتے ہیں۔لیکن کبھی کبھار منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے معمولی اوقات والے کا ذکر کرنا بھی قلم کی زکوٰۃ نکالنے کے برابر ہے۔
چنانچہ بڑے شہروں کی فرائض سے غافل اور حقوق سے آگاہ باشعور چیختی چلاتی دنیا سے ذرا دیر کے لیے جنوبی پنجاب کی ایک تحصیل خیرپور ٹامبے والی کا رخ کرتے ہیں۔یہ وہی خیرپور ٹامبے والی ہے جس کے نیم صحرائی علاقے میں جنرل ضیا الحق نے زندگی کی آخری فوجی مشق دیکھی اور پھر مشقِ اجل بن گئے،مگر اس وقت ضیا الحق یا ان کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ مقصود نہیں بلکہ قصبے کے ایک دائمی رہائشی کی کہانی پیشِ نگاہ ہے۔
یہاں ایک صاحب رہتے ہیں محمد اقبال بیبرس۔ میری ان سے بس ایک ہی بالمشافہ ملاقات ہو پائی اور وہ بھی چوبیس برس پہلے۔تب میں بی بی سی کے گشتی نامہ نگار کے طور پر قصبہ قصبہ گھومتا گھماتا خیرپور ٹامبے والی میں نکل آیا۔ اوسط درجے کا غریب سا قصبہ۔تب اس کی آبادی لگ بھگ پچاس ہزار تھی۔
تقریباً ہر گلی کی اپنی مسجد۔اب کاپتہ نہیں مگر تب گمان ہے کہ آبادی کے تناسب سے اس قصبے میں ملک کے کسی بھی قصبے سے زیادہ مسجدیں تھیں۔ اس زمانے میں جہادِ کشمیر میں حصہ لینے کے لیے جنوبی پنجاب کے جن قصبات سے جوشیلے نوعمر لائن آف کنٹرول کے دوسری جانب بھیجے جاتے تھے ان میں اس قصبے کے نوخیز خون کی مقدار کا تناسب اچھا خاصا تھا۔اس اندازے کی مزید تصدیق تب ہوئی جب دو ہزار نو میں مجھے سری نگر کے شہدا قبرستان میں قبروں کے کتبے پڑھنے کا اتفاق ہوا۔
جب میں انیس سو اٹھانوے کے ایک دن اس قصبے میں پہنچا توایک گھر کے باہر شامیانہ لگا ہوا تھا۔ معلوم ہوا کہ سرحد پار سے صاحبِ مکاں کے جواں سال بیٹے کی شہادت کی خبر آئی ہے۔چنانچہ آس پاس کے لوگ باپ کو مبارک باد دینے اور مٹھائی پیش کرنے کے لیے آ رہے ہیں۔
جب میں یہ حریت ناک منظر دیکھ کر ایک مڈل اسکول تک پہنچا تو اس کے احاطے کے باہر ٹہلتا ایک کسرتی قد والا اجنبی مجھ اجنبی سے بہت تپاک سے ملا۔ لباس سے تاڑ گیا کہ یہ مورکھ کسی بڑے شہر سے آیا ہے مقامی جناور معلوم نہیں ہوتا۔اس اجنبی نے مجھے گھر لے جا کر کھانا کھلایا۔قصبے کے بارے میں ہر طرح کی جامع تفصیلات فراہم کیں۔اگلے دن مقامی معززین اور سب سے بڑے مدرسے کے مہتمم سے بھی ملوایا۔ غرض ہر صحافتی فرمائش پوری کی۔اور پھر میں وہاں سے رخصت ہو گیا۔یہی اقبال بیبرس تھا۔
پچھلے ماہ کی اکیس بائیس تاریخ کو ایک خبر نگاہ سے گذری کہ خیرپور ٹامبے والی کے بھنڈی شریف ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر اقبال احمد کو فرقہ واریت اور منافرت پھیلانے کے جرم میں مقامی پولیس نے حراست میں لے لیا۔انھیں گشت پر مامور مقامی تھانے کے اہل کاروں نے نصف شب کے لگ بھگ اشتعال انگیز پوسٹر شہر کے چوک میں لگاتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔تلاشی کے دوران دس پوسٹر اور چپکانے والی گوند برآمد ہوئی۔
ایک سب انسپکٹر کی مدعیت میں پینل کوڈ کی دفعہ دو سو پچانوے اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔اگلی صبح انھیں ہتھکڑیاں لگا کے جج کے سامنے پیش کیا گیا اور ہیڈ ماسٹر اقبال بیبرس صاحب کو دو روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر سینٹرل جیل بہاولپور بھیج دیا گیا۔مگر اسی شام ان کی ضمانت بھی ہو گئی اور وہ گھر لوٹ آئے اور اب مقدمہ عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔
انھیں اتنی جلد رہائی کیسے مل گئی ؟ اس لیے مل گئی کہ سیکڑوں شہریوں نے ان کی گرفتاری کی خبر سن کے تھانے کا گھیراؤ کر لیا۔چنانچہ اہل کاروں نے نقصِ امن کے خدشے کے پیشِ نظر تھانے کو ہی تالا لگا دیا اور ملزم کو جلد از جلد بہاول پور منتقل کر دیا۔مقامی بار ایسوسی ایشن نے ان کی گرفتاری کے خلاف بطور احتجاج عدالتی بائیکاٹ کر دیا کیونکہ خیرپور ٹامبے والی کا تقریباً ہر وکیل اقبال بیبترس کا شاگرد نکلا۔کئی مساجد میں نمازِ جمعہ سے پہلے کی تقاریر میں گرفتاری کی مذمت میں قراردادیں پیش ہوئیں۔
میں نے کچھ عرصے بعد اقبال بیبرس سے رابطہ کر کے پوچھا کہ سچ سچ بتائیے آپ فرقہ واریت کب سے پھیلا رہے ہیں آپ تو ایسے نہ تھے۔انھوں نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ یہ کام میں تب سے کر رہا ہوں جب سے قصبے کی شیعہ سنی امن کمیٹی کا ممبر بنا ہوں۔
جب سے فلاحی تنظیم الخدمت کا مقامی سرپرست بنا ہوں۔جب سے اپنے مڈل اسکول کو سیکنڈری اسکول کا درجہ دلوایا ہے اور اس میں شہریوں کے عطیات سے رنگ و روغن کروایا ہے، نیا تعلیمی فرنیچر ڈلوایا ہے اور بچوں کے لیے نئی سائنس لیب اور کمپیوٹر کی سہولتیں قائم کروائی ہیں اور ایک چھوٹا سا چڑیا گھر بنوایا تاکہ میرے بچے پرندوں سے محبت کرنا سیکھیں۔تب سے مور اسکول میں بلا خوف و خطر ٹہلتے ہیں۔
اسکول میں وہ بچے بھی ہیں جنھیں کمزور مالی استطاعت کے سبب مفت یونیفارم اور کتابیں بھی خاموشی سے مہیا کی جاتی ہیں، اور جب سے اسکول کے اندر اور باہر اور قصبے کی سڑکوں پر شجرکاری کا جہاد کر رہا ہوں تب سے فرقہ واریت پھیلا رہا ہوں۔
وہ تو اللہ بھلا کرے مقامی پولیس کا کہ جس نے قبضہ مافیا ، منشیات فروشوں اور چٹی دلالوں سے زیادہ ہم جیسے ’’سماج دشمن فرقہ پرستوں ‘‘ پر نظر رکھی ہوئی ہے۔ تب ہی تو انیس اکتوبر کی نصف شب دو پولیس گاڑیاں میرے گھر آئیں اور ایس پی صاحب سے ملاقات کے بہانے لے گئیں۔
تھانے جا کے مجھے معلوم ہوا کہ میں تو دراصل شہر کے بازاروں میں زہریلے پوسٹر لگاتے ہوئے پکڑا گیا ہوں۔انھوں نے مجھے وہ پوسٹر بھی دکھائے جو مجھ سے برآمد ہوئے تھے۔ شکر ہے منشیات اور اسلحہ برآمد نہیں کیا ورنہ تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتا۔
میں نے اقبال بیبرس سے کہا کہ میں نے بہت تحمل سے آپ کی یہ دلچسپ کہانی سنی۔اب ذرا اصل سبب بھی بتا دیں۔
کہنے لگے کہ بھائی اصل سبب بہت ہی بورنگ ہے۔اس کی آپ کے چینل پر ریٹنگ بھی نہیں آئے گی۔لہٰذا آپ بھی یہی کہانی چلائیے جو میرے خلاف کٹنے والی ایف آئی آر کی بنیاد ہے۔
بہرحال اصل کہانی یہ ہے کہ میرے ہی اسکول کے ایک ٹیچر کے پانچ مرلے کے پلاٹ کو اس سال کے شروع میں ایک بااثر وکیل صاحب نے دیوار توڑ کر اپنی اراضی میں ضم کر لیا کہ جس پر ایک عبادت گاہ زیرِ تعمیر ہے تاکہ واگذاری کی نوبت آئے تو معاملے کو مذہبی رنگ دیا جا سکے۔میں اپنے ٹیچر کی داد رسی کے لیے اس کے ہمراہ ڈی سی بہاول پور کے دفتر گیا۔انھوں نے معاملے کی تحقیق کا حکم دیا۔پٹواری نے بھی تصدیق کر دی کہ پلاٹ پر قبضہ ہوا ہے۔
اس کے بعد قابض صاحب نے مقامی تحصیل دار کے ذریعے معاملہ نپٹانے کی کوشش کی اور پلاٹ کے اصل مالک کو اصل قیمت دینے کی پیش کش کی جو کہ موجودہ مارکیٹ ریٹ سے بہت کم تھی۔پلاٹ کے مالک نے انکار کر دیا۔اس دوران ڈی سی بہاول پور کا تبادلہ ہوگیا۔ہم پھر نئے ڈی سی صاحب کے پاس گئے۔ انھوں نے دوبارہ تحقیقات کا حکم دیا۔
چونکہ میں اپنے ٹیچر کو انصاف دلانے کی کوششوں میں پیش پیش تھا۔لہٰذا قابض صاحب نے اپنے اثر و رسوخ سے کام لیتے ہوئے میری طبیعت بحال کرنے کے لیے مقامی پولیس سے رجوع کیا۔یوں میں راتوں رات ایک معزز استاد سے ایک فرقہ پرست ایجنٹ میں تبدیل کر دیا گیا۔ چونکہ ہر ثبوت اب تک الٹا پڑ رہا ہے لہٰذا جلد ہی سب ٹھیک ہو جائے گا۔
بظاہر یہ کہانی کتنی بورنگ اور عام سی ہے۔مگر عام آدمی کے مسائل اتنے ہی بے رنگ اور بور ہوتے ہیں۔آپ اس ملک میں سماج سیوا اور اصول پسندی کی بنیاد پر کچھ بھی کر گذریں۔لیکن اگر آپ کے پاس صحیح وقت میں صیحح کنکشن نہیں ہیں اور آپ محض اپنی ذات کی اچھائی پر ہی بھروسہ کیے بیٹھے ہیں تو اقبال بیبترس نامی اس عام سے کردار کی زندگی سے ہی کچھ سبق حاصل کر لیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ جو جو بھی جو کچھ آزو بازو کر رہا ہے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں اور ’’ نہ کہو ، نہ سنو ، نہ دیکھو‘‘ والے جاپانی بندر بن جائیں۔یہی راہِ نجات ہے آج کل۔ڈھارس ہے تو بس اتنی کہ عام آدمی کی بھلائی کو اس جیسے عام آدمی نہیں بھولتے اور کبھی کبھار راستی کے لیے سینہ سپر بھی ہو جاتے ہیں۔