ہم بہت ہی مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔ مرزا غالب زندہ ہوتے تو یہ کبھی نہ کہتے کہ’’ مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہوگئیں‘‘۔ آج کے دور کی مشکلیں تو ناقابل بیان ہو چکی ہیں۔ آج کل مجھے سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ تحریک انصاف، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ تینوں جماعتیںگویا ایک دوسرے میں گڈمڈ ہو چکی ہیں۔ تینوں جماعتوں میں موجود میرے کچھ دوست آف دی ریکارڈ وہی محسوس کرتے ہیں جو مجھے نظر آتا ہے لیکن آن دی ریکارڈ کچھ بولنے کے لئے تیار نہیں۔ آج کل عمران خان بڑے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بنے ہوئے ہیں۔ پچھلے سال تک نواز شریف بڑے اینٹی اسٹیبلشمنٹ تھے اور ان سے پہلے آصف علی زرداری نے بھی اسٹیبلشمنٹ کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی کوشش کی تھی لیکن ان تینوں نے اپنے اپنے ادوار ِحکومت میں جبری گمشدگیوں کا مسئلہ حل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ زیادہ پرانی بات نہیں۔ صرف تین سال پہلے ان تینوں جماعتوں نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایکسٹینشن دینے کے لئے اپنے تمام اختلافات پس پشت ڈال دیئے اور کندھے سے کندھا ملا کر آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا قانون پاس کیا۔ ان تینوں کا انقلاب آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر ختم ہو جاتا ہے۔ تینوں کا آئی ایم ایف پر بھی حسین اتفاق ہے۔
ہوسکتا ہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب صاحبہ کو یہ لگے کہ میں زبردستی نواز شریف اور آصف زرداری کو عمران خان کے ساتھ غلط ملط کر رہا ہوں۔ پچھلے سال تک فواد چودھری صاحب کو بھی ایسا ہی لگتا تھا۔ جب تحریک انصاف کی حکومت نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعہ پیکا ترمیمی قانون ہم پر مسلط کرنے کی کوشش کی تو ہمارے ساتھیوں نے شور مچایا کہ عمران خان کی حکومت میڈیا پر وہی تلوار چلا رہی ہے جو نواز شریف کی حکومت نے 2016ء میں چلائی تھی۔ فواد صاحب کو ہماری یہ چیخ و پکار بہت بری لگی۔ عمران خان کے دور میں جب صحافیوں کے ساتھ مار پیٹ ہوتی تھی تو فواد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ کچھ صحافی بیرون ملک سیاسی پناہ حاصل کرنے کے لئے اپنےاوپر حملوں کا ڈرامہ رچاتے ہیں۔ وہ جس حکومت کے ہر غلط کام کا دفاع کرتے تھے ہم اس حکومت کے ہر برے کام پر تنقید کرتے تھے لہٰذا ان کے ساتھ ہمارے تعلقات کی نوعیت خاصی کشیدہ تھی۔ چند دن پہلے فواد چودھری کو لاہور سے گرفتار کیا گیا تو میں نے ان پر بغاوت کا مقدمہ بنانے کی مذمت کی۔ میری یہ گستاخی مسلم لیگ ن کے کچھ دوستوں کو بڑی ناگوار گزری۔ ایک مہربان نے فواد چودھری کی طرف سے میرے خلاف دیئے جانے والے بیانات اور ٹوئٹس نکالے اور بڑے طنزیہ کلمات کے ساتھ مجھے فارورڈ کر دیئے۔ فواد بھائی کے بیانات خاصے سخت تھے جنہیں میں بھول چکا تھا۔ کیا ماضی کے ان بیانات کی وجہ سے میں ان پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 124 اے کے تحت بغاوت کا مقدمہ بنانے کی حمایت کردوں؟ اگر میںنے اکتوبر 2020ء میں لاہور کے تھانہ شاہدرہ میں نواز شریف اور مریم نواز سمیت مسلم لیگ ن کے چالیس رہنمائوں کے خلاف 124 اے کا مقدمہ بنانے کو غلط کہاتھا تو میں فواد چودھری پر 124 اے کا مقدمہ بنانے کو صحیح کیسے کہہ سکتا ہوں؟
فواد چودھری کو جس انداز سے گرفتار کیاگیا اور منہ پر کالا کپڑا ڈال کر ہتھکڑیوں کے ساتھ عدالت میں لایا گیا وہ قابل مذمت نہیں بلکہ ارباب اختیار کے لئے قابل شرم بھی ہے۔ عمران خان کے دور حکومت میں رکن قومی اسمبلی علی وزیر کو پشاور سے گرفتار کیاگیا اور ہتھکڑیاں پہنا کر کراچی لے جایا گیا۔ علی وزیر کے معاملے میں تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومتوں نے ایک دوسرے سے مثالی تعاون کا مظاہر ہ کیا کیونکہ علی وزیر کو ہتھکڑیاں لگا کر شہر شہر گھمانے کا حکم جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرف سے آیا تھا۔ علی وزیر پر خیبر پختونخوا اور سندھ میں ایک درجن کے قریب مقدمات قائم تھے جن میں 124 اے کا بار بار استعمال کیا گیا تھا۔ جب شہباز شریف کی قومی اسمبلی میں علی وزیر کا ووٹ چاہئے تھا تو انہیں اسلام آباد پہنچا دیا گیا لیکن جب بجٹ اجلاس میں شرکت کے لئے قومی اسمبلی کے اسپیکر راجہ پرویز اشرف نے پروڈکشن آرڈر جاری کیا تو علی وزیر کو اسلام آباد نہیں لایا گیا۔ علی وزیر پر خیبر پختونخوا اور سندھ کی حکومتوں نے بغاوت کے مقدمے بنائے جبکہ فواد چودھری پر اسلام آباد پولیس نے بغاوت کا مقدمہ بنا دیا ہے۔ اب آپ ہی بتایئے کہ تحریک انصاف، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں کیا فرق ہے؟
جب عمران خان وزیراعظم تھے تو پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے 124 اے کے خاتمے کے لئے سینیٹ میں بل پیش کیا۔ سینیٹ نے یہ بل منظور کرکے قومی اسمبلی کو بھیجا لیکن قومی اسمبلی نے اس بل کولاپتہ کردیا۔ اب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں۔ دونوں جماعتیں چاہیں تو 124 اے کے خاتمے کا بل منظور کر سکتی ہیں لیکن یہ دونوں جماعتیں یہ نیک کام نہیں کریں گی کیونکہ فی الحال انہیں 124 اے کو اپنے کئی اور سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرنا ہے۔ 124اے نو آبادیاتی دور کی یادگار ہے۔ بال گنگا دھرتلک اس قانون کا پہلا نشانہ تھے۔ 1916ء میں قائداعظم محمد علی جناح نے بطور وکیل 124 اے کے مقدمے میں تلک کا دفاع کیا تھا۔ پاکستان کے سابق وزیراعظم حسین شہید سہروردی، محترمہ بے نظیر بھٹو، نواز شریف، شاہد خاقان عباسی اور موجودہ حکومت کے کئی سینئر وزراء 124 اے کو بھگت چکے ہیں۔ فیض احمد فیض، حبیب جالب، میر گل خان نصیر سمیت کئی شاعر، ادیب اور صحافی اس نوآبادتی قانون کا نشانہ بن چکے ہیں۔ جون 2021ء میں مجھے اور عاصمہ شیرازی کو بھی اس سیاہ قانون سے ڈرایا گیا۔ پچھلے سال ارشد شریف سمیت کئی صحافیوں کو 124اے سے خوفزدہ کرنے کی کوشش کی گئی اور اب فواد چودھری کے خلاف اس قانون کا استعمال کیا گیا ہے۔ کیا میں وزیر اعظم جناب شہباز شریف سے یہ پوچھنے کی جسارت کرسکتا ہوں کہ اگر عمران خان کے دور میں علی وزیر پر بغاوت کا مقدمہ بنتا ہے اور آپ کے دور میں فواد چودھری پر بغاوت کا مقدمہ بنتا ہے تو پھر بتایئے کہ آپ میں اور عمران خان میں کیا فرق ہے؟ ایک سیاہ قانون نے آپ سب کے چہرے سیاہ نہیں کردیئے؟
تحریک انصاف کے دوست آج کل فواد چوہدری کیساتھ ہونے والی زیادتی پر تو بولتے ہیں لیکن جو علی وزیر کے ساتھ ابھی تک ہو رہا ہے اس پر خاموش رہتے ہیں۔ اگر شہباز شریف صاحب یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ عمران خان سے بہت مختلف ہیں تو سینیٹ سے رضا ربانی کے منظور شدہ بل کو قومی اسمبلی سے منظور کرکے دکھائیں۔ وزیر اعظم صاحب آپ مہنگائی تو ختم نہیں کرسکے، کم از کم 124اے ختم کرکے قائد اعظم کی روح کو خوش کردیں اور میری مشکل بھی دور کردیں۔
بشکریہ جنگ