موسمیاتی تبدیلی یقینی طور پر دنیا بھر کا مسٰئلہ ہے لیکن سماجی ناانصافی والے معاشروں میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات ایسے افراد کے لیے ذیادہ مضر ہیں جو پہلے سے ہی اپنے حق سے محروم ہیں ۔سماج میں رہنے والی اقلیتوں، معذور اور خواجہ سراؤں کے ساتھ گھر سے شروع ہونے والی ناانصافی سماجی طور پرتب کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ جب کسی وبا یا آفت کا سامنا ہو۔ رواں سال سیلاب نے بالخصوص خواجہ سراوں کو شدید مالی و سماجی مشکلات کو شمار کیا ہے۔ غربت تو پہلے سے ہی موجود تھی اوپر سے سیلاب نے رہی سہی کسر پوری کی۔ خواجہ سراوں کا زیادہ تر روزگار خوشی کے موقع پر ناچنے گانے پر منحصر ہوتا ہے۔ لیکن سیلاب نے لوگوں کو بے گھر کر دیا۔ اور خواجہ سرا بے روزگار ہو گئے.
خواجہ سرا اپلی المعروف بوا جس کا اصل نام کیا ہے، اسے خود بھی اب یاد نہیں رہتا ہے۔ 14 اگست 2022 کی علی الصبح اپلی کی آنکھ انجانے شور اور مدد کیلئے پکارتی آوازوں پر کھلی چونکہ گرمیوں کے دن تھے دیہاتوں کے لوگ باہر صحن یا ملحقہ برآمدوں میں سوتے ہیں تو ایسے میں قرب وجوارسے اٹھنے والی آواز بھی نیند میں باآسانی خلل ڈالتی ہے۔45 سالہ اپلی نے انسانوں اور پانی کے شور کے باوجود زبردستی آنکھیں موندنے کی کوشش کی، جس میں وہ ناکام رہی آخر کار گھر سے باہر جاکر دیکھنے پر مجبور ہو ئی۔
صبح کی کرنیں جشن آزادی پر پانی کا طوفان لائی تھیں اور اپلی کے گھر کی مغربی آبادی اور پشت پر موجود آبادی کے گھر سیلانی ریلے میں بہہ رہے تھ،ے زمین پر سیلاب اور آسمان سے برستی بارش بے رحم ہو چکی تھی۔کان پڑی آواز سنائی دینا بند ہو گئی، اپلی کے 5 مرلہ کے مکان کو طح زمین سے بلندی کی وجہ سے سیلاب اپنے ساتھ بہا کر نہیں لے جا سکا تاہم اس میں بھی دراڑیں پڑھنا شروع ہوگئی تھیں۔اس نے اپنے چیلوں سمیت گھر کے باہر میدان میں پناہ لی اور تمام خواجہ سراؤں کو اپنے بھاری بھرم سائے میں چھپانے کی کوشش کی۔
افراتفری کا عالم تھا عام حالات میں ہمارے معاشرے میں جہاں خواجہ سراؤں کو قابل توجہ نہیں گردانہ جاتا وہاں سیلاب میں کون ہمراہی رکھتا۔بے سروسامانی میں منگڑوٹھہ غربی تونسہ شریف کے سرا ، ساتھیوں سمیت دو روز تک کھلے میدان میں بھوکے وپیاسے رہے، مکان گرنے کے خوف میں گھر کے اندر بھی نہیں جا سکتے تھے۔ زمین والوں میں سے کوئی بھی ان کی مدد کو نہیں آیا تو اللہ کو ان کی حالت زار پر ترس آیا اور وہ اپنی چار دیواری میں واپس لوٹ گئے۔ بات یہاں ختم نہیں ہوئی، ریسکیو کسی نہیں کیا تو ریلیف کیلئے بھی کوئی آگے نہیں بڑھا۔گھر میں موجود خوراک کا ذخیرہ بھی اتنا نہیں تھا کہ بےفکری سے کھایا جا سکتا۔
خواجہ سرا گرو اپلی بوا نے 14 اگست 2022 سے اب تک کے پر آشوب دنوں کو پرنم آنکھوں سے یاد کرتے ہوئے کہا کہ ہم تو لاوارث اور بے سہارا ہوتے ہیں تاہم یہ احساس سیلاب کے دوران اس قدر طاقتور تھا کہ مرنے کو دل کرتا تھا، نہ تو ہمیں ریسکیو کیا گیا اور نہ ہی ہمارے گھر والوں نے ہماری خیر خبر لی۔ اس پر ظلم یہ تھا کہ ہمیں سیلاب زدہ گان سمجھنے کو معاشرہ تیار ہی نہیں تھا۔ جہاں امداد کیلئے لائن میں لگتے تھے دھتکار دیا جاتا تھا یا لوگ لائنوں سے باہر نکال دیتے تھے۔کوئی سمجھنے کو تیار نہیں تھا کہ وہ انسان ہیں بھوک وپیاس انہیں بھی نڈھال رکھتی ہے۔ پھر کسی فرشتہ نما انسان نے ملتان سے آنے والی ایک سماجی تنظیم سے درخواست کی کہ تونسہ کے سیلاب والے علاقہ منگڑوٹھہ غربی میں کچھ خواجہ سرا ہیں ہم ابھی پہنچنے سے قاصر ہیں آپ راشن،پانی اور ادویات دیگر افراد کی طرح خواجہ سراؤں کو بھی فراہم کردیں تاکہ وہ کچھ دن گزارا کر پائیں۔ اس سماجی تنظیم کے لوگوں نے مغرب تک انتظار کرایا اس کے بعد صرف پانی اور چنے دیئے۔ جنہیں دیکھ کر ہم آنسو بہاتے رہے کہ اس سلوک کے مستحق نہیں تھے۔
اپلی بوا نے مزید بتایا کہ اس نے فون پر اپنی مدد کی نیت کرنے والوں کو دوبارہ فون کیا تو وہ کچھ بول ہی نہیں پائے۔ بہت کوشش کی سرکاری یا غیر سرکاری طور پر کوئی مدد پہنچ پائے، ہر دروازہ کھٹکھٹایا تو جواب ملتا پہلے دوسرے لوگوں کی مدد تو ہو جائے پھر آنا۔سیلاب کی وجہ سےزمینی راستےمنقطع تھے۔ بارش تھی کہ تھمنے کا نام نہیں لیتی تھی۔ ایسے میں نہ تو علاقہ میں کوئی خوشی منا پا رہا تھا کہ ہم خواجہ سرا گا کر اور ناچ کر کچھ کما پاتے اور روزی روٹی کے ساتھ سماجی طور پر بھی قطع تعلق تھے۔
جرنلسٹ سیو مومنٹ کے شہزاد خان نے بتایا کہ خواتین کے لئے کام کرتے انہیں سیلاب متاثرہ علاقوں میں موجود خواجہ سرا افراد کا خیال آیا تو انہیں ڈھونڈنا شروع کر دیا۔ جس کے بعد انہیں پتہ چلا کہ تقریباً 45 خواجہ سرا افراد راجن پور اور 16 تونسہ شریف میں موجود تھے۔ جن کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ جس پر راجن پور میں کام کرنے والے چند مخیر افراد کو ان خواجہ سراؤں کا خیال رکھنے اور ان کی تمام ضروریات پوری کرنے کی ذمہ داری دی جبکہ تونسہ شریف کے 16 خواجہ سرا افراد کی مستقل طور پر ذمہ داری جرنلسٹ سیو موومنٹ نے اٹھا لی اور ابتدائی طور پر ان کی ضروریات پوری کرنے کے بعد اب ان کے شناختی کارڈ بنوا کر ان کو ان کا جائز حق دلانے کے لئے کوشاں ہیں جو ایک مشکل مرحلہ ہے۔
میڈم روپ کے مطابق 15 دن آہ وزاری اور بھوک کے خوف کے بعد آخر کار جرنلسٹ سیو موومنٹ کے لوگ ڈھونڈتے ہو ئے ہم تک پہنچے راشن، پانی اور ضرورت کے کپٹروں سمیت چائے سگریٹ کیئے نقدی فراہم کی اور خواجہ سرا زندگی محسوس کرنا شروع ہوئے جبکہ ان کے اپنوں کی حالت تو یہ ہے کہ وہ انہیں گھر میں رکھنے پر تو راضی نہیں ہیں لیکن کچھ عرصے بعد ان سے جمع شدہ رقم لینے اور ضرورتوں کا رونا رونے آ جاتے ہیں اور اب سیلاب آنے کے بعد سے تو پلٹ کر بھی نہیں پوچھا کہ وہ زندہ ہے یا مر چکی ہے۔ یہ سب بتاتے ہوئے روپ کی آنکھوں میں آنسو اور چہرے پر درد تھا، وہ دیکھنے والے کو بھی اس کی اذیت کا احساس دلا رہا تھا۔
محکمہ سوشل ویلفیئر تونسہ شریف کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد فاروق کے مطابق محکمہ کی جانب سے خواجہ سراؤں کے شناختی کارڈ بنوانے کے لئے کئی مرتبہ مہم چلائی گئی لیکن خواجہ سراؤں کے گرو انہیں اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لئے ان کی رجسٹریشن نہیں کراتے ہیں اور نہ ہی شناختی کارڈ بنواتے ہیں۔ جس کی وجہ سے خواجہ سرا زندگی کی دوڑ میں نہ صرف پیچھے رہ جاتے ہیں بلکہ اپنے قانونی حق سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔
پی ڈی ایم اے کے ضلعی ترجمان رشید احمد کے مطابق حکومت کی جانب سے امداد کی بلا امتیاز ترسیل کی گئی ہے تاہم کسی ایک طبقہ کے محروم رہ جانے پر کچھ کہہ نہیں سکتے ہیں کیونکہ حکومت اور تقسیم کرنے والوں کی جانب سے کوئی ایسی ممانعت نہیں ہے لیکن معاشرتی اور طبقاتی تقسیم کی وجہ سے انہیں کچھ محروم رہنا پڑا ہو گا۔ اس طرح نقصان کا ازالہ کرنے کے لئے بنائی گئی تخمینہ لگانے والی ٹیموں کی جانب سے بھی بلاامتیاز کارروائی عملی میں لا کر ڈیٹا مرتب کیا جا رہا ہے اور ہر طبقے کو بلاامتیاز اس کا حق دیا جائے گا۔