ایک معجزہ ایک کرامت

قرآن اور رمضان کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے ۔رمضان کو نزول قرآن کا مہینہ قرار دیا گیا ہے۔ باقی مہینوں کی نسبت اس مبارک مہینے میں قرآن زیادہ پڑھا اور سنایا جاتا ہے۔امام نسائی ؒنے اپنی مشہور کتاب ’’فضائل القرآن‘‘ میں اللہ تعالیٰ کے کلام کو معجزہ مصطفیﷺ قرار دیا ہے۔ اس ایک معجزے میں کئی معجزے چھپے ہوئے ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سامنے آ رہے ہیں ۔

دنیا کی ہر زبان چند سو سال کے بعد بدل جاتی ہے لیکن قرآن نے عربی زبان کو حیات جاودانی بخشی ہے۔سب زبانیں بدل گئیں لیکن قرآن کی طاقت نے عربی زبان کو اپنی جگہ سے نہیں ہلنے دیا ۔اس زبان کے لہجوں میں فرق ہے لیکن الفاظ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی کیونکہ قرآن کے الفاظ میں بھی ڈیڑھ ہزار سال سے کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔یہ کتاب ایک ایسے نبی ﷺپر نازل ہوئی جو اُمی تھے لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے لیکن کلام اللہ کے ذریعہ انہوں نے عربی زبان میں کچھ ایسے الفاظ بھی متعارف کرائے جو دوسری زبانوں سے آئے تھے ۔مولانا وحید الدین خان نے اپنی ’’تصنیف‘‘ پیغمبر انقلاب‘‘ میں بتایا ہے کہ رحمان عربی زبان کا لفظ نہیں ہے ۔یہ سبائی اور حمیری زبان سے آیا ہے ۔یمن اور حبشہ کے نصرانی اللہ کو رحمان کہتے تھے قرآن میں بھی یہ لفظ اللہ کے لئے استعمال ہوا اسی طرح فارسی ، رومی اور عبرانی سمیت دیگر زبانوں کے کم از کم ایک سو الفاظ قرآن کے ذریعہ عربی میں شامل کئے گئے تاکہ قرآن کا پیغام زیادہ سے زیادہ پھیل سکے ۔

پروفیسر ڈاکٹر فضل کریم نے ’’قرآن حکیم کے معجزات‘‘ میں قرآن کا سائنسی نقطہ نظر سے جائزہ لیا ہے ۔شفیع حیدر صدیقی کی کتاب قرآن مجید کی سائنسی تصریح اور سلطان بشیر الدین محمود کی ’’کتاب زندگی ‘‘ بھی قرآن حکیم کی سائنسی تفسیر ہے ۔سلطان بشیر الدین محمود نے قرآن حکیم کی حسابی ترتیب اور ہندسوں کے نظام پر روشنی ڈالی ہے جو عقل کو حیران کر دیتا ہے ۔مثلاً قرآن میں دنیا کا لفظ 115مرتبہ آیا اور آخرت بھی 115مرتبہ آیا۔ شیاطین 88اور ملائکہ بھی 88مرتبہ آئے۔ موت کا ذکر 145مرتبہ اور حیات کا ذکر بھی 145مرتبہ آیا ۔کلام اللہ میں 19کا ہندسہ ایک مرتبہ استعمال ہوا جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’دوزخ کے اوپر ہم نے 19فرشتوں کو محافظ رکھا ‘‘(سورۃ المدثر 30) مصنف کا خیال ہے کہ 19کے ہندسہ کا تعلق اللہ تعالیٰ کے حفاظتی نظام سے ہے ۔قرآن کی پہلی آیت بسم اللہ الرحمن الرحیم کے الفاظ کی تعداد بھی 19ہے ۔

قرآن ایک ایسا معجزہ ہے جو کئی کرامتوں کو بھی سامنے لاتا ہے ۔ایسی ہی ایک کرامت مولانا احمد علی لاہوری کی ’’تفسیر لاہوری ‘‘ کی صورت میں سامنے آئی ہے ۔مولانا لاہوری کی تاریخ پیدائش 2رمضان اور تاریخ وفات 17رمضان ہے۔انہوں نے 23 فروری 1962ء کو 75 سال کی عمر میں اس دنیا سے کوچ کیاتھا لیکن انکی تفسیر وفات کے 62 سال کے بعد شائع ہوئی ہے۔اس علمی کرامت کو منظر عام پر لانے کا سہرا ان کےشاگرد مولانا سمیع الحق شہید کےسر ہے۔مولانا صاحب 2018ء میں شہید کر دیئے گئے تھے وہ اپنی زندگی کے آخری دنوں میں ’’تفسیر لاہوری‘‘ کی تکمیل کے قریب تھے لیکن انکی شہادت کے باعث یہ کام ادھورا رہ گیا۔اس کام کو مولانا محمد فہد حقانی نے مولانا راشد الحق کی نگرانی میں مکمل کیا ہے اور جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک نے ’’تفسیر لاہوری‘‘ کو دس جلدوں میں شائع کر دیا ہے۔ مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے اس علمی شاہکار کے مقدمے میں بتایا ہے کہ مولانا احمد علی لاہوری صاحب کا درس قرآن پورے ملک میں مشہور تھا ۔وہ درس نظامی کی تکمیل کرنے والوں کے لئے تین ماہ کے دورہ تفسیر کا اہتمام کرتے تھے ۔مولانا سمیع الحق نے اپنے یارِ غار مولانا شیر علی شاہ کے ہمراہ لاہور جاکر اس دورہ تفسیر میں نہ صرف شرکت کی بلکہ مولانا احمد علی لاہوری کی تقاریر کو اپنے قلم سے محفوظ کر لیا۔

’’تفسیر لاہوری ‘‘ کے پیش لفظ میں مولانا سمیع الحق نے بتایا ہے کہ وہ 1958ء کے رمضان المبارک میں دورہ تفسیر کے لئے لاہور روانہ ہوئے تو انکے والد مولانا عبدالحق نے تاکید کی کہ مولانا احمد علی لاہوری کے درسی افادات کو قلم بند کر لینا ۔مولانا سمیع الحق نے اپنے استاد کی تائید سے انکی تمام تقاریر کے لفظ بہ لفظ نوٹس لئے ۔مولانا لاہوری کی تفسیر قرآن شاہ ولی اللہ اور مولانا عبید اللہ سندھی کی تعلیمات سے منور تھی۔دورہ تفسیر مکمل کرنے کے بعد مولانا سمیع الحق نے اپنے ساتھی مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ سمیت مولانا لاہوری کے دیگر شاگردوں سے ان کے مسودے حاصل کئے۔اپنے مسودے کا دیگر مسودوں کے ساتھ تقابل کیا اور آہستہ آہستہ ’’تفسیر لاہوری‘‘ پر کام کرتے رہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مولانا سمیع الحق نے اپنے استاد کی تفسیر پر اتنی محنت کیوں کی ؟خود تفسیر کیوں نہ لکھ ڈالی ؟ اس کا جواب آپ کو مولانا سمیع الحق کی ڈائری میں ملے گا جو انکی زندگی میں 2016ء میں شائع ہوئی تھی ۔اس ڈائری میں مولانا احمد علی لاہوری کا بار بار ذکر آتا ہے اور پتہ چلتا ہے کہ مولانا سمیع الحق کو اپنے استاد سے کتنی محبت تھی ۔اس محبت کی ایک وجہ مولانالاہوری کا تحریک ریشمی رومال سے تعلق تھا ۔وہ گوجرانوالہ کے ایک قصبہ جلال میں پیدا ہوئے اور گوٹھ پیر جھنڈا سندھ میں مولانا عبید اللہ سندھی سے تعلیم حاصل کی۔ 1909ء میں مولانا عبید اللہ سندھی نے برطانوی حکومت کے خلاف مزاحمت کیلئے ’’جمعیت الانصار‘‘ بنائی تو مولانا لاہوری بھی اس میں شامل ہوگئے اور پھر دیگر ساتھیوں کے ہمراہ گرفتار بھی ہوئے۔ 1924ءمیں انہوں نے لاہور میں مدرسہ قاسم العلوم قائم کیا اور انجمن خدام الدین کے ذریعہ قرآن و سنت کی اشاعت کا کام شروع کیا ۔

’’تفسیر لاہوری‘‘ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ قرآنی آیات کی تشریح کرتے ہوئے مولانا احمد علی لاہوری نے اپنے زمانے کے واقعات کا ذکر بھی کیا ہے اور کچھ شخصیات کا ذکر اپنے انداز میں کیا ہے۔ ’’تفسیر لاہوری ‘‘ کی جلد دہم میں پشاور کے قصہ خوانی بازار میں سرخ پوشوں پر انگریزوں کی فائرنگ کا ذکر ہے جسے مولانا لاہوری نے حق اور باطل کا معرکہ قرار دیا ۔یہاں وہ خان عبدالغفار خان کی تحریک کو ایک اسلامی تحریک قرار دیتےہیں ۔مولانا سمیع الحق کا خان عبدالغفار خان کے سیاسی وارثوں کے ساتھ اختلاف رہا لیکن انہوں نے ’’تفسیر لاہوری ‘‘ میں اپنے استاد کے خیالات کو من وعن پیش کرکے فکری دیانت کا ثبوت دیا ۔’’تفسیر لاہوری ‘‘ کے آخر میں بتایا گیا ہے کہ مولانا احمد علی لاہوری کے درس میں جنات بھی شریک ہوتے تھے جس طرح انسان اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی ہوتے ہیں اسی طرح جنات بھی اچھے برے ہوتے ہیں ۔قرآن کی تعلیمات پر عمل کیا جائے تو انسان اور جنات اس دنیا کو امن کا گہوارہ بنا سکتے ہیں ۔قرآن ایک معجزہ ہے اور ’’تفسیر لاہوری ‘‘ ایک علمی کرامت ہے جس کو سامنے لاکر مولانا سمیع الحق نے ایک ایسا کارنامہ سرانجام دیا جو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے