ملک بھر میں خواتین قیدیوں کے لیے علیحدہ جیلیں حکومتی توجہ کی منتظر

پاکستان میں 9 مئی کے واقعات میں خواتین کے ملوث ہونے اور گرفتاریوں کے بعد مختلف طبقہ ہائے جات میں یہ بحث جاری ہے کہ خواتین ملکی آئین کی خلاف ورزیوں میں کیوں ملوث ہوتی جا رہی ہے، یہاں تک کہ جیلوں میں بھی خواتین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے ۔ ملکی قوانین ، مذہبی اور ثقافتی اصولوں کی سختی کے باوجود بھی جرائم میں خواتین کا ملوث ہونا افسوسناک ہے۔ مالی، سماجی اور نظریاتی ماحول نہ ہونے کے ساتھ ساتھ عملی طور پر خواتین کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ روزمرہ کی بنیاد پر میڈیا میں رپورٹ ہونے والے واقعات میں سب سے زیادہ ساتھی کے انتخاب کا حق، گھریلو تشدد، روزمرہ زندگی کے معاملات میں زیادتی، معاشی تنگ دستی اور جنسی تعلقات جیسے عوامل اور عناصر ہیں جو خواتین کو جرائم میں ملوث ہونے کی وجوہات میں سامنے آتے ہیں۔

اسلام آباد میں خواتین قیدیوں کے مقدمات کے لیے سرگرم ایڈوکیٹ ہما بابر کا کہنا ہے کہ معاشرے میں تشدد اور جرم کا تصور مرد تک محدود تھا مگر جیلوں میں خواتین قیدیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور سنگین جرائم میں ملوث ہونا لمحہ فکریہ ہے۔ اس وقت ملک بھر میں کئی سو قیدی خواتین موجود ہیں جن میں غیر ملکی خواتین بھی شامل ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ خواتین زیادہ تر منشیات کی خرید وفروخت ، جسم فروشی ، اغوا، چوری، قتل اور دیگر مختلف قسم کے جرائم میں ملوث ہوتی ہیں ۔

زیادہ تر ملک بھر میں خواتین جسم فروشی اور منشیات میں ملوث ہونے کی وجہ سے جیلوں میں قید ہیں ۔ قانونی معاونت سرکاری سطح پر بھی حاصل ہوتی ہے مگر سب سے اہم مسئلہ خواتین کی جرائم میں بڑھتی ہوئی تعداد اور خواتین جیلوں کا نہ ہونا ہے۔ 9 مئی کے واقعات میں خواتین کا ملوث اور گرفتاریوں کے عمل سے یہ بات واضح ہے کہ ملک کا آئین تمام جنس کے لیے برابر ہے اور قانون کی بالادستی سب پر فرض ہے۔

ایکسپریس ٹریبیون 26اپریل 2023 کی رپورٹ میں پاکستان بیورو آف شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق بیان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران پاکستانی جیلوں میں خواتین کی تعداد میں 20 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ یہ رجحان ایک تشویش کا باعث ہے کیونکہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ زیر حراست خواتین کے حقوق کا مناسب طور پر تحفظ نہیں کیا جا رہا ہے۔

پاکستان کی وزارت برائے انسانی حقوق نے 2020 کی رپورٹ میں کہا ہے کہ خواتین قیدیوں کو غیرمؤثر طبی دیکھ بھال کا سامنا ہے اور حکام نے خواتین قیدیوں کے تحفظ کے لیے بنائے گئے قوانین کو زیادہ تر نظرانداز کیا ہے۔ پاکستانی جیلوں میں بند خواتین میں سے تقریباً دو تہائی ایسی ہیں جن کے مقدمات کی سماعت ابھی شروع نہیں ہوئی اور انہیں کسی جرم میں سزا نہیں ہوئی۔

نام ظاہر نہ کرتے ہوئے دو سال پہلے اڈیالہ جیل سے رہائی حاصل کرنے والی ص ف نے کہا ہے کہ جیل کی زندگی بھی کسی سزا سے کم نہیں ہوتی۔ قانونی معاونت کے لیے بہت سے ادارے جیل میں مدد فراہم کرتے ہیں مگرجیل کے اندر کے حالات بدتر ہے۔ کھانا، صاف ستھرائی نہ ہونے کے برابر،رہائش اور باتھ روم استعمال کرنے والی جگہ خواتین کی تعداد کے مطابق انتہائی کم ہوتی ہے۔ مختلف امراض جیل میں گردش کرتی رہتی ہے۔ شکایت کی صورت میں قیدی خواتین کو ہی قصور وار ٹھہرا جاتا ہے کہ مجرم جیل میں عیاشی کے لیے نہیں آتی ہیں ۔

صورتحال بہت سنگین ہے جس کی وجہ سے قیدی خواتین ذہنی امراض سے دوچار ہورہی ہے۔ قانون کے مطابق ملک کی عدالتیں مقدمات کا فیصلہ کریں مگر جیل میں خواتین قیدلیوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی اور خواتین کے لیے علیحیدہ جیل انسانی حقوق میں شامل ہے۔

ا لجزیرہ نے 30 مارچ 2023 کو پاکستان میں خواتین جیلوں کے حوالے سے پاکستان کی گنجائش سے زیادہ جیلوں کے بارے میں ایچ آر ڈبلیو کی رپورٹ میں بدسلوکی پر روشنی ڈالتے ہوئے بیان کیا ہے کہ جیل کے کچھ سیلز 15 قیدیوں کو قید کر رہے ہیں جبکہ وہ صرف تین افراد کے لیے بنائے گئے تھے۔ پاکستان کی بھیڑ بھری جیلوں پر خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے اور ملک کے فوجداری نظام انصاف میں اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے۔

رپورٹ میں ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ پاکستان کی 100 سے زائد جیلوں میں کم از کم 88,000 قیدی ہیں، جبکہ سرکاری طور پر منظور شدہ گنجائش 65,168 ہے۔ رپورٹ میں جیلوں کے اندر انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر اور خواتین کے ساتھ بدسلوکی پر بھی پاکستان پر تنقید کی ہے ۔

واضح رہے کہ سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دور حکومت میں خواتین قیدیوں کے لیے سات سے زائد جیلیں تعمیر کرنے کی اصولی منظوری دی گئی تھی لیکن اُن کی حکومت جانے کے بعد یہ معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔

اس وقت پاکستان میں خواتین کی صرف ایک جیل ہے جو کہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے آبائی شہر ملتان میں ہے۔سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں ایک آرڈینیس جاری کیا گیاتھا جس کے تحت ملک بھر کی جیلوں میں قید ایسی خواتین کو رہا کیا جانا تھا جو کہ چھوٹے چھوٹے جرائم میں ملوث ہیں۔ جس کے نتیجہ میں آرڈینیس کے تحت ملک بھر سے صرف 700 کے قریب خواتین کو رہا کیا گیا۔

پاکستان میں اب تک 8 خواتین کو پھانسی دی جاچکی ہے۔ پہلی پھانسی 10 اکتوبر 1958 کو غلام فاطمہ نامی خاتون کو دی گئی جبکہ سابق فوجی ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے دور میں سنہ 1985 میں جہلم کی جیل میں دو خواتین کو پھانسی دی گئی اور اب تک کسی خاتون کو پھانسی نہیں دی گئی۔

خیال رہے کہ ۱۱ جولائی 2023 اقوام متحدہ انسانی حقوق کونسل میں پاکستانی حکومت کے رویے کا موازنہ کیے جانے پر پاکستان کا رویہ ماضی سے بہتر قرار پایا ہے۔ مقررین نے کمزور اور پسماندہ گروہوں کے تحفظ کے لیے قانون سازی کو بڑھانے کے لیے حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کا خیر مقدم کیا، ساتھ ہی معاشرے میں خواتین کے کردار کو مضبوط بنانے کے لیے پاکستانی کاوشوں کو قابل تعریف قرار دیا۔ حکومتی سطح پر ایسے دیرپا اقدامات کی ضرورت ہے کہ جیلوں میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی تعلیمی سرگرمیاں بڑھائی جائے تاکہ سزا کاٹ کر وہ ایک کارآمد شہری بن سکیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے